Sunday, March 24, 2013

مُحِمد بن مَسلَمہ الأنصاری الحارثی

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے دِین کی دعوت بلند کی تو شیطان کے تابع فرمانوں کے دِلوں میں آگ لگ گئی اور وہ اپنے پیر و مُرشد کے الہامات پر عمل کرتے ہوئے اللہ کے دِین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف ہر کام کرتے اور کرواتے ، اِن میں سے کچھ تو ایسے بھی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت بھی خوب دے رکھا تھا اور اُنکے مدد گار بھی بہت تھے اور اُن سب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اللہ کے دِین کے خِلاف کام کرنے کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا، اپنے مال اورساتھیوں کو اِستعمال کر کے اللہ کے دِین اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، بلکہ خود ایسے کام شروع کرواتے ، انہی میں سے ایک یہودیوں کا طاغوت کعب بن الاشرف تھا۔ اللہ نے اسے مال و دولت سے نوازا تھا ،لیکن دِین حق کی دعوت کی جلن کی وجہ سے وہ اللہ اور اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا پکا دشمن بن چکا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی شان میں گُستاخانہ شاعری بھی کیا کرتا تھا۔ مکہ اور عرب کے مشرکوں کے ساتھ دوستانہ مجلسیں ''' Friendly Meeting''' کرتا رہتا اور اُنہیں اپنے خصوصی مشیروں کے ذریعے اللہ کے دِین اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے خِلاف کاروائیوں پر تیار کرتا رہتا ، جب اِسکی کاروائیاں بہت بڑھ گئیں تو ایک دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((  مَن لِکعب بن الأشرف فإِنّہ قد آذی اللَّہ و رسولہ ::: کون ہے جوکعب بن الاشرف کو روکے کیونکہ اُس نے یقینا اللہ اور اللہ کے رسول کو دُکھ پہنچایا ہے )))))
 تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سچی محبت کرنے والوں ،اللہ کے حقیقی ولیوں کی مجلس میں سے ایک ولی اللہ، صحابیءِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کھڑے ہوئے اور عرض کیا""" اے اللہ کے رسول کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اُسے قتل کر دوں ؟"""
 ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے عرض کِیا ::: اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اُسکے سامنے آپ کے خِلاف کچھ کہوں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( کہہ سکتے ہو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت پا کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ اپنے گھر چلے آئے ، گھر پہنچ کر جب اُنہوں نے اِس معاملے پر غور کِیا یعنی پلاننگ کرنا شروع کی تو خیال آیا کہ معاملہ تو کافی نازک اور خطرناک ہے اگر مجھے اِس میں کامیابی نہ ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کیا مُنہ دِکھاؤں گا ، اِسی فِکرمیں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ
نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ،
    کچھ دِن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دیگر صحابہ سے محمد رضی اللہ عنہُ کے بارے میں دریافت فرمایا تو صحابہ نے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کوبتایا کہ وہ اپنے گھر میں بند ہے اور کچھ کھا پی بھی نہیں رہا ، رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُنکو بلایا اور پوچھا ( کیا بات ہے؟) تو انہوں نے کہاکہ :::میں نے آپ سے وعدہ توکر لیا ہے لیکن اگر میں اُسے قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو میں وعدہ خِلاف ہوجاؤں گا ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا(تمہارا کام کوشش کرنا ہے (یعنی تم کوشش کرونتیجہ اللہ نکالے گا ))
     محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ ، جب وہاں سے نکلے تو راستے میں اُنہیں ابو نائلہ سلکان بن قیس الأشھلی رضی اللہ عنہ ُ ملے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس ہی جا رہے تھے ، محمد رضی اللہ عنہ نے سلکان رضی اللہ عنہ سے کہا ''' مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کعب بن الاشرف کو قتل کرنے کا حُکم دِیا ہے اور تُم جاہلیت کے زمانے میں اُسکے قریبی دوستوں میں تھے ، وہ اب بھی تمہاری بات مانے گا لہذا تم اُسے اُسکی پناہ گاہ سے نکالنے میں میری مدد کرو تا کہ میں اُسے قتل کر سکوں اِنشاء اللہ ''' سلکان رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِسکی اجازت عطاء فرمائیں گے تو پھر میںاِنشاء اللہ ضرور تمہاری مدد کروں گا ''' پھر دونوں ملکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس آئے اور سلکان رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اِس معاملے کی بابت وہی پوچھا جو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے پوچھا تھا اور اُنہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُسی طرح اجازت دی جِس طرح محمد رضی اللہ عنہ ُ کو دی تھی ،
    پھر یہ دونوں ساتھی اپنی منصوبہ بندی اور اُسکے مُطابق تیاری کر کے ، اپنے ساتھ عباد بن بشر ، ، ابو عیسی ابن جبر ،سعد بن معاذ اور اُنکے بھتیجے الحارث رضی اللہ عنہم اجمعین ، کو لے کر کعب بن الاشرف کے عِلاقے میں پہنچے اور پہلے دو ساتھی یعنی محمد بن مسملہ اور ابو نائلہ سلکان بن قیس رضی اللہ عنھما کعب بن الأشرف کے پاس گئے وہ اُنہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا اور پوچھنے لگا کہ '' کیسے آئے ہو ؟'' محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''' ہم لوگ بہت مصیبت میں ہیں اور تمہارے پاس کچھ مدد لینے کے لیئے آئے ہیں ، جب سے یہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آیاہے اس نے ہم سے کہا کہ اگر تم لوگ ایمان لے آئے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور کہا صدقات دو ہم نے سب کچھ دے دیا ، اور کہا'' نماز'' پڑھو ہم نے پڑھنے لگے اور کہا ''روزہ'' رکھو ہم رکھنے لگے اور کہا میرے ساتھ ملکر ''جہاد ''کرو ہم نے کیا یہ سب کرتے ہو ئے ہمیں اتنا عرصہ گزر گیا لیکن ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر یہ معاملہ کہاں رُکے گا اور کیا نتیجہ نکلے گا ، اور اب تو ہما ری حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو کچھ کھلانے کےلیے بھی نہیں ہے، لیکن ابھی ہم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتے اور کچھ اور دیر تک دیکھنا چاہتے ہیں کہ شاید اُس کے وعدے پورے ہو جائیں اور ہماری حالت بدل جائے
تم فی الحال ہماری اتنی مدد کرو کہ ہمیں کھجور کے دو چار ٹوکرے ہی دے دو تا کہ ہم اپنے خاندان والوں کو کچھ عرصے کھانا تو دے سکیں جب ہمارے پاس واپسی کی گنجائش ہو جائے گی تو تمہارا مال تمہیں واپس کر دیں گے '''
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کی بات کے بعد سلکان رضی اللہ عنہُ نے کعب کو اپنی پرانی دوستی یاد دلائی ، کعب نے کہا ''میں کعب بن الاشرف ہوں اور تم میرے پرانے دوست ہی نہیں بلکہ رضاعی بھائی بھی ہو، میں تماری مدد ضرور کروں گا ، لیکن تم لوگ میرے مال کی واپسی کی ضمانت کے طور کے طور پر کوئی چیز میرے پاس گروی رکھوا دو '' ، محمد اور سلکان رضی اللہ عنہما نے کہا ''' کیا رکھوائیں؟ ''' کعب نے کہا '' اپنی عورتیں '' اُنہوں نے کہا ''' تُم تو عرب کے خوبصورت ترین مَردوں میں سے ہو، ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ ''' کعب نے کہا '' اچھا اپنے بچوں میں سے کسی کو چھوڑدو '' تو انہوں نے کہا ''' یہ تو بڑے عیب اور شرم والی بات ہے کل کو ہمارے بچے کیا سوچیں گے کہ ہم نے اُنکی قیمت بس کھجور کے دو ٹوکرے رکھی تھی ؟ ایسا کرتے ہیں کہ ہم تمہارے پاس اپنا اسلحہ رکھ دیتے ہیں''' بیوقوف کعب نے خوش ہو کر کہا ''' ہاں ہاں اسلحہ اسلحہ ، اسلحہ تو وفا کی نشانی ہے، بالکل ٹھیک ہے تم لوگ اپنا اسلحہ میرے پاس رکھ دو '' انہوں نے کہا ''' ٹھیک ہے شام کو ہم دو تین اور لوگوں کو ساتھ لائیں گے تا کہ کھجوریں لے جا سکیں اور کھجوریں لینے سے پہلے تمہیںاپنا اسلحہ دے دیں گے '''
     محمد اور سلکان رضی اللہ عنہما نے یہ بات اِسلیئے کی کہ کی طرف سے اجازت کی وجہ سے اسلحہ ساتھ لے کر داخل ہونے میں کوئی روکاوٹ نہ ہو، اور نہ ہی کعب کے چوکیدار اُنکی کوئی خاص نگرانی کریں '''
    شام کافی گہری ہونے کے بعدپانچوں صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین ، کعب کے قلعے کے دروازے پر پہنچے اور آواز دِی ، ''' یا کعب ''' وہ اپنے کمرے میں اپنی بیوی کے پاس لیٹا ہوا تھا ، اُنکی آواز سُن کر فوراً جواب دِیا ''آتا ہوں آتاہوں ''،اُسکی بیوی اُسکے ساتھ لٹک گئی اور کہنے لگی '' کعب ، اس وقت باہر مت نکلو ،تم نے محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) اور اُسکے ساتھیوں سے دشمنی پال رکھی ہیں اِس وقت مت جاؤ '' کعب نے کہا '' پاگل عورت ، یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے ساتھی تو ہیں لیکن میرے پاس مدد مانگنے آئے ہیں اگر میں اِن کی بات پوری کروں گا تو مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے دِین کو ناکام کرنے اور اُسکے مزید ساتھیوں کو اپنے ساتھ ملانے کا موقع ملے گا ، اور خاص طور پر یہ لوگ تو میرے دوست اور رضاعی بھائی ابو نائلہ کے ساتھ آئے ہیں، اور میں کوئی بیوقوف تو نہیں ، یہ لوگ اپنا اسلحہ بھی میرے پاس گروی رکھ رہے ہیں ، اور میں اپنے قلعے میں اپنے چوکیداروں کے سامنے ہوں یہاںکوئی میرا کُچھ نہیں بگاڑ سکتا '' اُسکی بیوی نے پھر کہا '' کعب خون بہنے کی آواز آرہی ہے، مت جاؤ '' کعب نے اپنی بیوی پر بہادری کی دھونس جماتے ہوئے کہا '' میں کعب بن الاشرف ہوں ، باعزت اور با رتبہ سردار اور اگر ایسے سردار کو اُسکے دوست آدھی رات کو قتل کرنے کے لیے بھی پکاریں تو وہ ضرور جاتا ہے '' اتنی دیر میں صحابہ نے پھر اُسکو زور سے آواز دِی ''' یا کعب ''' اُس نے بھی اونچی آواز میں کہا ''آرہا ہوں آرہا ہوں '' اور باہر آ کر اپنے چوکیداروں کو اشارہ کیا کہ دروزاہ کھول دیا جائے اور اِن لوگوں کو اسلحے سمیت اندر آنے دِیا جائے ، میں خود اُن کا اسلحہ اُن سے وصول کروں گا ،
    اُسکے چوکیداروں نے دروازہ کھول دِیا اور پانچوں صحابی رضی اللہ عنہم اندر داخل ہو گئے ، اور کعب کے پاس پہنچے اور کہا ''' کعب تمہارے پاس سے رخصت ہونے سے پہلے کچھ اور بات چیت کر لیں ، اور تھوڑی چہل قدمی کر لیں ''' اُس نے کہا '' کیوں نہیں '' اور سب ملکر ٹہلنے لگے ،
    کعب کے پاس آنے سے پہلے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ طے کر کھا تھا کہ میں بہانے سے کعب کو سر کے بالوں سے قابو کروں گا اور جب پوری طرح سے قابو کر لوں گا تو پھر تم لوگوں کو آواز دوں گا تُم لوگ اُس پر حملہ کر دینا ، اپنے اِسی منصوبے پر عمل کرنے لے لیے ہی اُنہوں نے کعب کو باتیں کرنے اور ٹہل قدمی کرنے کا کہا تھا ،
    جب وہ لوگ چلتے چلتے رہائشی عِلاقے سے کچھ دور ہوئے تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب تمہارے پاس سے بہت اچھی خُوشبُو آ رہی ہے ، کیا تُم مجھے اجازت دو گے کہ میں تمہارے بال سونگھ لوں ؟ ''' کعب جو پہلے ہی یہ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ آج وہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھیوں میں اپنے کچھ کو اپنے ساتھی بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے ، اِس بات پر اور خوش ہوا اور بڑے فخر سے کہا '' میرے پاس عرب کی سب سے بہترین عِطر تیار کرنے والی عورتیں ہیں ، ضرور تُم اِس خُوشبُو کو سُونگھو '' محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے اُسکے قریب ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اُس کے بالوں میں داخل کیے اور اُسکے بالوں کو سونگھا ، اور پھر چھوڑ دِیا ، اور کہا ، ''' کعب میرے ساتھیوں کو بھی اجازت دو کہ اِس خُوشبُو کو سونگھ سکیں ''' کعب اور زیادہ اکڑا اور کہا '' کیوں نہیں ضرور '' ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کِیا اُنہوں نے بھی باری باری کعب کا سر سونگھا اور پیچھے ہٹ گئے     یہ ساری کاروائی کعب کے چوکیداروں کو دِکھانے کےلیے کی جا رہی تھی تا کہ وہ کعب کی طرف سے بے فکر ہو جائیں اور یہ سمجھ لیں کہ کعب اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کر رہا ہے اور اُسے اِن لوگوں سے کوئی خطرہ نہیں ، کچھ اور دور جا کر پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب مجھے تمہاری خُوشبُو پر صبر نہیں آ رہا ''' کعب نے پھر خوش ہو کر کہا ''' تو کیا ہوا پھر سونگھ لو ''' ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے پھر پہلے جیسا کام کیا ، کچھ دیر بعد جب وہ لوگ چوکیداروں سے کافی مُناسب حد تک دور ہو گئے ، تو پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ''' کعب بس اب آخری دفعہ اپنا سر سونگھنے کی اجازت دے دو ''' کعب نے بڑے تکبر کے ساتھ مسکراتے ہو ئے کہا ''' ہاں ضرور ، سونگھ لو اور جان لو کہ میرے پاس عرب کی سب سے بہترین خوشبو ہوتی ہے ''
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ والہانہ انداز میں آگے بڑھے اور اپنے دونوں ہاتھ کعب کے کانوں کے پاس سے اُسکے سر میں داخل کر کے اُسکے سر کے بالوں کو انتہائی مضبوطی سے قابو کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو پکار کر کہا ''' مار ڈالو اللہ کے دُشمن کو ''' ساتھیوں نے اپنے ہتیاروں سے اُس پر حملہ کر دِیا ، وہ لوگ اُس وقت اندھیرے میں تھے لہذا کِسی کا بھی وار اِس حد تک کار گر نہ ہوا کہ اللہ کا دُشمن اُسی وقت ہلاک ہو جاتا ، صحابہ کے وار پڑنے پر وہ انتہائی اُونچی آواز میں چیخ رہا تھا ، اُسکی چیخیں سُن کر اُسکے چوکیدار اپنی اپنی مشعلیں جلا کربھاگتے ہوئے اُس طرف کو آئے قلعے کے اوپر والی رہائشی حصے میں سے اُس کی بیوی اور دوسری عورتیں بھی اُس کی چیخ و پکار سن کر چیخنے لگیں ،
اُسکے چوکیدار بہت قریب پہنچ چکے تھے ، اور اللہ کا وہ دُشمن اُس وقت تک مرا نہیں تھا بلکہ اُسکو کوئی ایسا زخم بھی نہیں آیا تھا جو اُسکے لیے جان لیوا ہوتا ،
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور اپنے ترکش میں سے ایک تِیر نِکال کر اُس کی چونچ والا حصہ کعب کے پیٹ کے نچلے حصے پر رکھ کر تکبیر بُلند کرتے ہوئے اپنا پورا وزن تیر کے دوسرے سِرے پر ڈال دِیا ، تِیر کعب کا پیٹ پھاڑ کر اندر داخل ہوتا چلا گیا ، اوراللہ کا دُشمن کعب ایک زور دار چیخ نکال کر خاموش ہو گیا ،
    محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تکلیف دینے والے یہودیوں کے طاغوت کعب بن الاشرف کے مرنے کی تاکید کی ، اتنی دیر میں قلعے میں موجود تمام تر چوکیدار اور دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے ھتیار لے کر وہاں پہنچ چکے تھے ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہُ اور اُنکے باقی ساتھی رضی اللہ عنہم اجمعین دشمنوں سے لڑتے ہوئے اُن کا گھیرا توڑ کر وہاں سے کامیابی کے ساتھ نکل آئے ،
    اللہ ، اُس کے دِین اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کے دُشمن اور اُن کی شان میں گُستاخی کرنے والے ، یہودیوں کے طاغوت کو فدائی کمانڈو ایکشن کے ذریعے قتل کرنے کے بعد جب محمد بن مسلمہ اور اُن کے باقی چار ساتھی رضی اللہ عنھُم اجمعین واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن کو دیکھ کر خوش ہوئے اور آخرت کی کامیابی کی خوشخبری سُناتے ہوئے فرمایا ( أفلَحَت الوُجُوہ ::: کامیاب ہو گئے (یہ ) چہرے ) ، تو اِنہوں نے جواب میں عرض کیا '''و وجھک یا رسول اللہ ::: اور آپ کا چہرہ مبارک بھی اے اللہ کے رسول ''' الطبقات الکبریٰ /جز ٢ / صفحہ ٣١/سریۃ قتل کعب بن الاشرف،
یہ فرمان ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ کے ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کو قتل کرنے کے واقعہ میں بھی ہے الطبقات الکبریٰ /جز ٢ / صفحہ ٩١/سریۃعبداللہ بن عتیک الی ابی رافع
    اِس واقعے میں بہت سے اہم سبق ملتے ہیں ، (١) دیگر بہت سے واقعات کی طرح اِس واقعے میں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم غیب کا عِلم نہیں جانتے تھے ، لہذا اپنے ساتھی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ کے غیر حاضر ہونے کا سبب نہ جان سکے ، (٢) یہودی ہمیشہ سے خائن اور بُزدل ہوتے ہیں ، اور اِسلام کے آغاز سے ہی وہ اِسلام اور مسلمان دُشمنی میں اپنا وقت اور مال خرچ کر رہے ہیں ، خود صِرف وہاں سامنے آ کر لڑتے ہیں جہاں اُنہیں یہ یقین ہو کہ اُنہیں کوئی جانی نُقصان نہیں ہو گا ،جہاں مار پڑنے کا اندیشہ ہو وہاں وہ دوسروں کو استعمال کرتے ہیں ، (٣ ) کِسی مسلمان کا نام صرف ''' محمد ''' رکھنے میں کوئی گُناہ یا بے ادبی نہیں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں خیال کیا جاتا ہے اور کِسی کا نام صرف ''' محمد ''' نہیں رکھا جاتا ، کہ صِرف یہ نام رکھنا بے ادبی ہے اور کوئی اور نام بھی اکیلا رکھنا برا خیال کیا جاتا ہے جِسکی وجہ خاص دِین دار طبقے کے لوگ ایک حدیث بتاتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے ( من ولد لہ ثلاثہ فلم یسمِّ أحدھم محمداً فقد جھل )
( جِسکو تین بیٹے ہوئے اور کِسی کا نام بھی محمد نہ رکھا تو وہ جاھل ہے ) یہ حدیث جھوٹی ہے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث ٤٣٧، اِس پر اور اِس جیسی جھوٹی باتوں اور مَن گھڑت فلسفوں پر عمل کرتے ہوئے ہمارے معاشرے میں بچے کو کوئی اور نام دے کر اُسکے ساتھ '' محمد '' یا '' أحمد '' یا '' علی ''، ''حسن '' ، '' حسین '' وغیرہ جوڑا جاتا ہے اور اِس جوڑ کے چکر میں نام کی حد تک تو شرک کو جوڑ ہی لیا جاتا ہے ،مثلاً '' غلام محمد '' ، '' غلام رسول '' '' غلام نبی '' '' غلام علی '' '' زاہد علی ''، ''کلبِ حسین ''،'' عابد حسن '' وغیرہ وغیرہ اور عورتوں کے ناموں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے
مثلاً '' کنیز فاطمہ ''، '' نور فاطمہ '' وغیرہ، بات ہو رہی تھی نام ''''' محمد ''''' رکھنے کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے ( سمُّوا باِسمِی و لا تَکنَّوا بکُنِیتیِ ) ( میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کُنیت پر کُنیت مت رکھو ) مُتفقٌ علیہ ، لہذا صِرف ''' محمد ''' نام رکھنے میں کوئی گناہ یا بے ادبی نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ اپنے اِس عظیم مجاہد صحابی محمد بن مسملہ کا نام تبدیل فرما دیتے ، جِس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ سوائے غزوہ تبوک کے ہر معرکے میں حصہ لیا اور غزوہ اُحد میں جب سب لوگ ادھر اُدھر ہو رہے تھے اور کافروں نے ہر طرف سے رسول اللہصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمپر حملہ کر دِیا تھا تو کافروں کے ہر وار کو اپنے جسموں پر روکنے والے چند سچے عاشقانِ رسول میںیہ بھی تھے ۔
اللہ ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔     
مصادر و مراجع ::: المستدرک الحاکم ،  الأصابہ فی تمیز الصحابہ ،  تھذیب التھذیب ، مقدمۃ ابن خلدون ، الأستعیاب فی معرفۃ الأصحاب،  معجم  البلدان ، تاریخ الطبری ، معجم الصحابہ ، معجم مااستعجم ، فتوح الشام ، البدایہ و النھایۃ،
 

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ


اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت بے حساب و بے کنار ہے ، جِسے جو چاہتا ہے دیتا ہے ، اور یہ بھی اللہ ہی  کی سُنّت میں مُقرر ہے کہ اُس کے سچے اِیمان والے تابع فرمان عملی مؤمن بندوں کے سچے اِیمان اور نیک اعمال کو دیکھ کر اللہ کی رحمت اُن کے مزید تر ہو جاتی ہے ، پھر چاہے تو ایسی ایسی عطاء فرماتا ہے جس تک رسائی کسی دوسرے کے لیے ناممکن ہوتی ہے۔ اللہ کی ایسی ہی بے مثال رحمتوں میں سے ایک رحمت کسی اِیمان والے بندے کو اُس کے جیتے جی دُنیا میں ہی جنّتی ہو جانے کی خوشخبری عطاء فرما کر اُسے جنّتی بنا دینا ہے۔  آج میں ایسے ہی دس خوش نصیبوں میں سے جنہیں دُنیا میں جیتے جی اُن کے ناموں کے ساتھ جنّتی ہونے کی سندیں عطاء ہوئیں ، میں سے  ایک جنّتی کا کچھ ذِکر کروں گا ، اِن شاء اللہ۔  اللہ کرے کہ اللہ کا یہ سچا ولی ، میری یہ چند باتیں اور اُس کا یہ تذکرہ پڑھنے سننے والوں کے لیے اُن کی مثالی شخصیات (آئیڈیلزIdeals-) میں شامل ہو جائے ،

اللہ کا یہ سچا ولی ، دُنیا میں چلتے پھرتے ہوئے جنّت کی سند حاصل کرنے والا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قبیلہ قُریش میں سے تھا ، اور  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  پر اِیمان لانے والے سب سے پہلے مؤمن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ راشد أمیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار بھی تھا ،،،

،،، ان کا تعلق بنی قریش کے ذیلی قبیلے بنو تمیم سے تھا ،،یہ بھی  ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے بر حق دِین اسلام کی دعوت کو پہلے پہل ہی قبول کیا ،  اور اللہ  کے اِس دِین اور اللہ  کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم پر اِیمان لے آئے ،

 ان کواِسلام کی طرف دعوت دینے والے ، اِسلام کی رغبت دِلانے کا نیک ترین کام کرنے والے ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ ُ تھے،

سُرخی مائل سفید  رنگت ، درمیانے قد کاٹھ اور کچھ گھنگھریالے بالوں والے  یہ اللہ کے محبوب بندے """ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ"""تھے،

اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلحہ رضی اللہ عنہ  کو طاقتور و توانابدن ،چوڑےچکلے سینے ، عریض کندھوں والا بہت ہی بہادر ، اور پھرتیلا بنایا تھا ، اور چال بھی ایسی عطاے فرمائی تھی کہ دیکھنے والا اُن کی قوت اور مضبوطی سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکتا ،،،،،طلحہ رضی اللہ عنہُ اس قدر چست، پھرتیلے،فعال اور تیز طرار تھے کہ جب بھی کسی جانب دیکھتے تو  پورے ہی جِسم کو حرکت میں لے آتے،ان کی والدہ کا نام """صعبۃ بنت عبداللہ" تھا،

طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ کچھ یوں ہےکہ ایک مرتبہ طلحہ رضی اللہ عنہ تجارت کے لیےبصریٰ گئے،وہاں پر ایک راہب لوگوں سے کہہ رہا تھا """جاؤ دیکھو، کیا کوئی شخص مکہ سے آیا ہوا ہے؟"""،

 طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا""" میں مکہ سے آیا ہوں"""،

 یہ سُن کر راہب اُن کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا """ کیا احمد کا ظہور ہو چکا ہے؟"""،

 طلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا""" کون احمد؟"""،

 اُس نے کہا """ احمد بن عبدالمطلب،وہ آخری نبی ہیں،وہ اللہ کے گھر  (بیت اللہ ، مکہ المکرمہ)سے ہجرت کر کے کھجوروں کے اُس علاقے کی طرف جائیں گے جہاں کی زمین بنجر اور پہاڑوں کی چٹانیں سخت ہیں"""،

پھر اُس راہب نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً      اُس آخری نبی  کے  لائے  ہوئے دِین  کو  قبول  کرنے  میں  سبقت  کریں۔طلحہ  رضی  اللہ  عنہ  وہاں ے کسی اور طرف جانے کی بجائے اپنا تجارتی سفر ترک کر کے فی الفور بصریٰ سے ہی واپس مکہ المکرمہ تشریف  لے  گئے،جب  وہ  مکہ  پہنچے  تو  لوگوں  سے  پوچھا  کہ  """ کیا  یہاں  پر میرے  بعد  کوئی   واقعہ  رونما  ہوا؟ """،

لوگوں نے بتایا کہ """ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب  جو امین کے لقب سے مشہور ہیں ،انہوں نے نبوت کا  دعویٰ کیا ہے اور ایک نئے دِین کی دعوت لے آئے ہیں ،اورمحمد کی دعوت قبول کرنے والوں میں ابن ابی قحافہ عبدالرحمٰن ابو بکر بھی ہے"""،

چونکہ طلحہ رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست تھے اور دل سے ان کا احترام کرتے تھے،اس لیے فوراً    ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا""" اے ابی قحافہ کے بیٹے ! اُٹھو ، آؤ ہم عبادت کریں"""،

 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا""" کس کی؟"""

 طلحہ رضی ا للہ عنہ نے کہا""" لات اور منات  کی"""

 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" یہ لات  اور منات کون ہے؟"""

 طلحہ رضی اللہ عنہ بولے""" اللہ کی بیٹیاں ہیں """

 صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" اچھا !اگر یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تو ان بیٹیوں کی ماں کون ہے؟"""

یہ سن کر طلحہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ غلطی پر ہیں اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سچے ہیں ، صحیح راستے پر ہیں،

پھر صدیق رضی اللہ عنہ نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور کہا"""طلحہ ! اُس کی عبادت کرو جو سب کا خالق و مالک ہے اور جو  کبھی فنا نہیں ہو گا """،

چنانچہ انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دعوتِ اسلام کو قبول کر لیا اور اپنا دِل و رُوح اپنے رب کے سامنے  جھکا دیے ،اور اُن کے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے بھی اُنہیں  اپنے محبوب بندوں میں قبول فرما لیا ،

اس کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اُن کی بیعت فرمائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو راہب والی بات بتائی جس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار کیا،

چونکہ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ بھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے،اِس لیے ان کو بہت اذیتیں دی گئیں،قریش نے ان کا بہت ستایا،ان کو بہت مارا پیٹا گیا، نوفل بن خویلد بن اسد نے انہیں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کو ایک رسی سے باندھ دیا،اسی طرح طلحہ رضی اللہ عنہ کے بھائی عثمان بن عبیداللہ نے ان دونوں کے نماز سے روکنے کی بہت کوششیں کیں مگر ناکام رہا،ہجرت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کو دینی بھائی چارے میں  منسلک فرما دیا،جب طلحہ رضی ا للہ عنہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابو   ایوب   انصاری  رضی اللہ عنہ کو ان کا دینی بھائی بنایا گیا،

طلحہ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے کیونکہ نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو اور سعید رضی ا للہ عنہ بن زید کو دشمنوں کی خبرگیری کے لیے مقامِ حوراء اِرسال فرمایا تھا ، جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہیں یہ خبر ملی کہ بدر کے مُقام پر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے دِین کے دُشمنوں کے ساتھ جِہاد میں مصروف ہو چکے ہیں ، اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سربراہی میں اللہ کے دِین کے لیے جانیں لٹانے کی خواھش کو روکتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی تعمیل میں مصروف رہے اور مشرکین کی حرکتوں کی خبرگیری کرتے رہے، اور اِس طرح جِہادءِ بدر میں  اُن کی بھی شمولیت ہو گئی ، جسے اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے شرفء قبولیت عطاء فرمایا اور انہیں بھی مالِ غنیمت عطا کیا،

اپنی خواہشات  حتیٰ کہ اپنی ضرویات تک کو بھی بالائے تاک رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی تعمیل کرنا صرف انہی تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ سارے ہیں صحابہ کی فطرت ثانیہ تھا ، اللہ اُن پر راضی ہوا اور اُنہیں راضی رکھا ، اللہ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت دے ، اُن کی حبء  اور اطاعتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دسواں حصہ بھی اگر ہم میں میسر ہو جائے تو ہماری اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی کرتوتوں کے سب لُٹائی گئی عِزت لَوٹ سکتی ہے ،

جِہاد ء بدر میں تو طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ کی راہ میں لڑنے کا موقع میسر نہ ہوا تھا لیکن جِہاد ء اُحد میں انہوں نے ایسی جانثاری ، جانبازی ، بہادری اور سرفروشی کا مظاہرہ کیا جِس میں اُن کے جِہادء بدر میں سے دُور رہنے  کی کمی پوری ہو گئی ،جِہادء اُحد میں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر چاروں طرف سے کافروں نے یلغار کر دی اور اِردگِرد صحابہ رضی اللہ عنہم نہ رہے تو ایسے کڑے ترین وقت میں طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے سامنے اپنے جِسم کو ڈھال بنا کر قائم ہو گئے ، اُس شدید ترین وقت میں طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صِرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رشتے میں ماموں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ کھڑے تھے ،

دونوں ہی بہت ماہر تیر انداز تھے ، انہوں نے اپنی تیر اندازی کے ذریعے دُشمنوں کے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے جسموں پر بے شمار تیر اور نیزوں اور تلواروں کے زخم سجاتے ہوئے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو محفوظ رکھا ، اور اللہ کے دِین کے کامیاب ہونے اور کفر کے ناکام ہونے کا سبب بن گئے ،

اس معرکے میں طلحہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھ پر روکتے رہے  جس کے نتیجے میں اُن کا ایک ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو گیا ،

سر میں تلوار کا ایک شدید گھاؤ لگا ، پورا جِسم زخموں سے چُور چُور ہوا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنی پُشت پر اٹھا لیا اور دُشمنوں کے نرغے سے نکال کر ایک چٹان تک پہنچایا ، اللہ  نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کی یہ محبت اور جانثاری دیکھ کر اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی  زبان مُبارک پر ہی طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کے لیے یہ اعلان جاری کروایا ﴿أَوْجَبَ طَلْحَةُ:::طلحہ نے (اپنے ) لیے جنّت واجب کر لی سنن الترمذی / حدیث4103/کتاب المناقب/باب22،

اور سعد رضی اللہ عنہ ُ  کی اس جان نثاری پر خوش ہو کر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ ُ کے لیے وہ فرمان اِرشاد دفرمایا جو کسی اور کے لیے نہیں فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے پاک پاتھوں سے سعد رضی اللہ عنہ ُ کو تیر عطاء فرماتے اور پاک زبان سے یہ اِرشاد فرماتے ﴿يَا سَعْدُ ارْمِ ، فِدَاكَ أَبِى وَأُمِّى:::تِیر پھینکو اے سعد تُم پر میرے ماں باپ قُربان ہوںصحیح البخاری/حدیث2905/کتاب الجہاد/باب80،صحیح مُسلم/حدیث6386/کتاب فضائل الصحابہ/باب5،

اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ::: اِیمان والوں میں سے کچھ مَرد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سےجو عہد کیا تھا اُسے نبھادِیا ہے پس اُن میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو اپنا کام مکمل کر چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو(اپنے عہد کو پورا کرنے کے )انتظار میں ہیں اور انہوں نے(اپنے عہد میں )کوئی تبدیلی نہیں کیسُورت الاحزاب /آیت 23،کے بارے میں کسی شخص  نے سوال کیا کہ """ عہد پورا کرچکنے والے کون لوگ ہیں ؟ """ تُو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ  کو دیکھ کر اِرشاد فرمایا ﴿هَذَا مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ::: یہ اُن میں سے ہے جو اپنا عہد نبھاچکے ہیںسنن الترمذی/کتاب تفیسر القران/باب34،امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے حسن صحیح  قرار دیا،

اور ایک روایت ہے کہ فرمایا ﴿طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ::: طلحہ اُن میں سے ہے جو اپنا عہد نبھاچکے ہیںسنن ابن ماجہ/حدیث124، سُنن الترمذی /کتاب المناقب/باب 22،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے حسن قرار دیا ،

  ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا ﴿مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِى عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ::: جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ کسی شھید کو زمین کے اوپر چلتا ہوا دیکھے تو وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لےسنن الترمذی /حدیث/کتاب المناقب/باب22، امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،

غز وہ ذی قرد 6 ہجری میں ہوا ، اس معرکہء جِہاد کو تاریخ میں غزوۃ الغابہ بھی کہا جاتا ہے ،مُختلف تاریخی روایات کی روشنی میں اس غزوہ میں بھی مجاھدوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد سات سو مذکور ہے ،

 مُسلمانوں کے ابتدائی دور کے جِہادی معرکوں کی طرح اِس معرکے میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ  علیہ وعلی  آلہ وسلم نے اپنے تھوڑے سے جانبازوں کے ساتھ کفر کا مقابلہ کیا ، ایسی قوت کا مقابلہ کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اذیت دینا چاہتی تھی اور انکار ء اِسلام کی عام روش سے ہٹ کر کسی اور انداز میں اُن کی اہانت کرنا چاہتی تھی ، کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اونٹ چُرا لیے تھے ، اگر انہیں چھوڑ دِیا جاتا تو دُنیاء کُفر اس بات پر اِتراتی رہتی اور مُسلمانوں کو طعنے مارتی رہتی کہ تمہارے  رسول اللہ کے جانور تک تو تم اور تمہارا رسول چُھڑا نہیں سکے ، لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان مبارک کی حفاظت جو کہ در حقیقت اللہ کے دِین کی حفاظت ہے ، اُس حفاظت کے لیے

ذی قرد ایک چشمے کا نام تھا ہے  جو مدینہ اور خیبر کے درمیان واقع تھا، کہا جاتا ہے کہ اُس کے آثار اب بھی باقی ہیں ، قبیلہ بنو غِطفان کے کچھ کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ ہانک کر لے گئے تھے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ اُن کافر چوروں کو سزا دینے کے لیے نکلے ،

ذی قرد چشمے پر ایک کنواں تھا جس کا نام """بیسان صالح""" تھا،،،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو تبدیل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا """ اِس کا پانی اچھا ہے"""،

طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں خرید کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا، اور مجاھدین کے جانور ذبح کر کے ان کے کھانے کا انتظام بھی کیا ، یہ سب دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم بہت خوش ہوئے اوراِرشاد  فرمایا ﴿اے طلحہ ! تم تو بڑے سخی ہو اس کے بعد طلحہ رضی ا  للہ عنہ کا نام """ طلحۃ الفیاض""" پڑ گیا۔

انہوں نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی ،بیعتِ رضوان میں بھی موجود تھے،ہر ہر مقام پر انہوں نے اپنی بہادری اور جانثاری کے جوہر قائم کر دیئے،

طلحہ رضی اللہ عنہ  جس قدر دولت مند تھے اسی قدر سخی  اور فیاض بھی تھے، ان کی فیاضی اور فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کی صِفت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم نے ان کو """ طلحۃ الخیر""" کا لقب  بھی عطا فرمایا،

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ جبلء  حِراء کے اوپر تھے  تو وہ پہاڑ ہلنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿ اثْبُتْ حِرَاءُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ ::: اے حراء مضبوطی سے کھڑے رہو تُمہارے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور شہداء ہی ہیں

وَعَدَّهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :::  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُنہیں گِن کر (یعنی نام لے کر) فرمایا ﴿أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ وَابْنُ عَوْفٍ وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ::: ابو بکر ، اور عُمر ، اور عُثمان ، اور علی ، اور طلحہ ، اور زُبیر ،اور سعد ، اور ابن عوف ، اور سعید بن زید

طلحہ رضی اللہ عنہ پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین   ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  اور دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین   عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں  اُن کے خاص مُشیروں  میں شامل تھے ، اُن کے مشوروں کو سب ہی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ قبول فرماتے تھے ، دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ ان خاص بزرگ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اجمیعن میں شامل تھے جن کو خلیفہ بنانے کے لیے نامزد کیا گیا تھا،

طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی روشن زندگی میں بہت سی شادیاں کیں، اس کے علاوہ اِن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد بھی تھے،  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی "اُمِّ کلثوم" طلحہ رضی اللہ عنہ  کے عقد میں تھیں،

ان کی ساری بیگمات میں کُل اولاد  دس بیٹے اور چار بیٹیاں  تھیں، ان کی اولاد  کئی نسلوں تک اعلیٰ مناصب پر فائز تھیں،طلحہ رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی "اُمِّ اسحاق"کا عقد  حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ہوا،

 حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ حسین  بن علی رضی اللہ عنہما کے عقد میں آئیں،فاطمہ بنت حسین  رضی اللہ عنہ بھی  انہی کی بیٹی تھیں ،

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عبدالرحمن اور مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم بھی طلحہ رضی اللہ عنہ ُ  کے داماد تھے،

طلحہ رضی اللہ عنہ باسٹھ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے،،ان کو بصرہ میں دفن کیا گیا،،، انہوں نے وراثت میں  جاگیروں کے علاوہ لاکھوں درہم و دینار اور بہت سارا سونا اور چاندی بہت تعداد میں چھوڑا جس کو ان کے ورثاء میں تقسیم کر دی گیا،

ان کی موت کے اسباب کے طور پر کچھ مختلف روایات ملتی ہیں ، لیکن تقریبا سب ہی روایات میں یہ بات مشترک ہے کہ انہیں عبدالملک بن مروان نے تِیر سے زخمہ کیا تھا اور وہی اِن کی موت کا سبب بنا، وہ موت جِسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم شھادت قرار دے چکے تھے ، پس اللہ کی طرف سے جنتی ہونے کی سند پانے والا اللہ کا یہ سچا ولی ، اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق شھادت کی موت پا کر اپنے رب کی جنتوں کی طرف روانہ ہوگیا ۔ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ،

اللہ ہمیں اور ہمارے سب ہی کلمہ گو بھائیوں بہنوں ، بچوں بچیوں کو ان عظیم شخصیات کو اپنے لیے مثالی شخصیت چننے کی ہمت دے دے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی جرأت عطا ء فرما دے اور ہماری اپنے ہی ہاتھوں اور اپنی ہی کرتُوتوں کی بنا پر لُٹائی ہوئی عِزت واپس لینے کا حوصلہ عطاء فرما دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصادر و مراجع ::: صحیح البخاری ،صحیح مُسلم ، سنن الترمذی ،سنن ابن ماجہ ،سنن النسائی ، صحیح ابن حبان ، المستدرک الحاکم ، المعجم الکبیر للطبرانی ، الإستيعاب في معرفة الأصحاب، أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، سير أعلام النبلاء، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني،مغازی للواقدی ، مروج الذهب للمسعودی، تاريخ مدينة دمشق ، البدء والتاريخ لِابن المطھر ، البدایہ والنھایۃ ، العواصم من القواصم في تحقيق مواقف الصحابة لابن العربی ،

 

 

 

جن آگیا ، جن آ گیا


ضِرار بن الأزور
خیبر کے ایک بڑے قبیلے بنو اسد کا دولت مند ، ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قیمتی گلّے کی ملکیت رکھنے والا، خوبصورت، بہادر،کڑیل جوان ،جس کی شمشیر زنی،نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مہارت کا کوئی ثانی نہ تھا ، 
 رومیوں کے لشکرمیں خوف اور دھشت کا طوفان اٹھانے والا،اللہ کے علاوہ ہر ایک سے بے خوف مجاہد،سرفروش اور جانباز جرنیل جس کے حملہ آور ہوتے ہی رومی """جن آگیا ،جن آگیا"""  کہتے ہوئے دم دبا کر بھاگنے لگتے ، کہا جاتا ہے کہ جب لوہے کی زرہوں میں ڈوبے رومی جنگجواللہ کے سا سچے ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب  کے سامنے آتے تو وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنی قمیص بھی اتار دیتا اور اُس  کی یہ شجاعت دیکھ رومی اُس سے اتنے خوف زدہ ہوتے کہ اُن کے دلوں میں یہ خیال پختہ ہوتا گیا کہ یہ کوئی انسان نہیں ، بلکہ جِن ہے لہذا وہ لوگ """ضرار رضی اللہ عنہ ُ  """  کو اس حال میں دیکھتے ہی """جن آ گیا جن آ گیا """کہتے ہوئے اُس کی زد سے دور بھاگنے کی کوشش میں لگے رہتے ،

میدان کارزار میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ مسلسل تابڑ توڑ حملے کرنے میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا ،اپنی بے مثال بہادری  اور لاجواب شجاعت و جوانمردی کی بدولت ایک ہزار دشمن افراد پر بھاری  سُپر کمانڈو جنگجو مجاہد جس کا نام سن کر دشمن محاورۃً نہیں  بلکہ حقیقتا تھر تھر کانپنے لگتا ،جو اپنی بے پناہ بے مثال بہادری اور مجاہدانہ کاروائیوں کی بنا پر تاریخِ اسلام کے اوراق میں قیامت تک جگمگاتارہے گا ، اللہ کا یہ حقیقی ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب  """ضِرار رضی اللہ عنہ بن الٔازور الاسدی """کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ،
    یہ ایک ایسے عظیم المرتبہ ، جلیل القدر صحابی تھے جنہیں مذکورہ بالا تمام خوبیوں اور صِفات کے ساتھ ساتھ اسلامی لشکر کا قابلِ رشک جرنیل ہونے کے علاوہ بلند پایہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ، ضِرار رضی اللہ عنہ جب بنو اسد قبیلے کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے خیرُالوریٰ ،نور الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی خدمتِ اقدس میں اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوئے ، تو انہوں نے پہلا کارنامہ یہ سر انجام دیاکہ ایک ہزار اونٹ اُن کے چرواہوں سمیت مسلمانوں کے بیت المال کے لیے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وعلیہ آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے قریبی وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انہیں نبوت کے ایک جھوٹے دعویٰ دار طلیحہ الاسدی کے خلاف جہاد کے لیے ارسال کیا اور اس مہم کا سالار (کمانڈر) مقرر فرمایا ، طلیحہ اور اس کے ساتھی مجاھدین کی یلغار کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور اپنے بے شمار جانی نقصان کروا کے راہ فرار اختیار کر گئے ،

 اللہ کے اس سچے ولی  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُشمن  ، زکوۃ دینے سے انکار کرنے والے مالک بن نویرہ کو قتل کیا ، آج تک  اس منکر ء زکوۃ کے پیرو کار ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں ،جنہوں نے اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے مالک بن نویرہ اور اس کے پیرو کاروں کے چھیتڑے اُڑا دیے ،  

 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے سے فارغ ہوئے، جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والوں ، مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد اور ان کے پیروکاروں کو عبرتناک شکست سے دو چار کرنے کے بعد قیصر و کسریٰ یعنی ایران اور روم کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ، چونکہ یہ دونوں اسلام کے خلاف بڑے مضبوط قلعے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے ایمان سے لبریز جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئےلشکرِ اسلام کو حکم دیا کہ کسریٰ کو فتح کرنے کے لیے تیار ہو جائیں،

مجاھد مؤمنین ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ اللہ تعالیٰ کے حُکم کی تعمیل میں ، اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے اپنے امیر المؤمنین  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے،

((( مسلیمہ کذاب اور اسود العنسی کے خاتمے کا ذکر البراء بن مالک رضی اللہ عنہ ُ ، فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہُ اور ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے واقعات میں بیان کر چکا ہوں )))  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے اعلان جہاد سن کر بنو اسد کا یہ عظیم  اسد، جانثارِ اسلام اپنے ساز و سامان کو جمع کرنے لگا اور اپنے ہتھیاروں کو اپنے جسم پر سجانے لگا ، اس کی تیاری دیکھ اس کی بہن خولہ بنت ازور رضی اللہ عنھا پوچھا ''' بھائی جان کہاں کی تیاری ہے ؟کس معرکے کی طرف روانگی ہے ؟ ''' ضرار رضی اللہ عنہ نے اپنی پیاری اور لاڈلی بہن کو جواب دیا ''' بہن امیر المؤمنین کی طرف سے اعلان جہاد سن کر یہ سوال کیسا ؟ ''' خولہ رضی اللہ عنھا نے کہا ''' بھائی آپ جانتے ہیں کہ میں تیر اندازی میں بڑی مہارت رکھتی ہوں اور تلوار بازی میں بھی کسی سے کم نہیں ، آپ امیر المؤمنین سے میری سفارش کیجیے تا کہ میں بھی جہاد میں حصہ لے سکوں
ـ'''
    ضرار رضی اللہ عنہ نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ''' میری بہن یہ جنگ عورتوں کا کام نہیں ہوتا ، تمہار ا بھائی ان شاء اللہ تمہارے خاندان کی نمائیندگی کے لیے کافی ہے ، بہن نے جواب دیا کہ نہیں بھائی جان مجھے جہاد میں شامل ہونا ہی ہے لڑائی نہ سہی ، زخمیوں کی مرہم پٹی ، پانی پلانے کے کام کروں گی،
    اس طرح انہیں جہاد میں شمولیت کی اجازت مل گئی ، حضرت خولہ رضی اللہ عنھا کا ذکر سابقہ شُماروں میں سے ایک میں ہو چکا ہے اس لیے میں یہاں اُن کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کروں گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُکے حُکم پر اسلامی لشکر اپنی مہم پر روانہ ہوا ، اور شام کے مرکزی شہر دمشق کا محاصرہ جا کیا ابھی یہ محاصرہ جاری تھا کہ تاریخ اسلام ہی کیا تاریخ انسانی کے ایک عظیم جرنیل  اللہ کی تلوار ،خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ شاہِ روم ہرقل ایک بڑا لشکر لے کر فلسطین کے مشہور مقام اجنادین میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکا ہے ، اس کی کوشش یہ ہے کہ لشکرِ اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جائے،

سیف اللہ (اللہ کی تلوار) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ نے لشکرِ اسلام کے تجربہ کار، فدا کار اور جانباز ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس نازک ترین صورتحال کا کس طرح مقابلہ کیا جائے ، انہوں نے مشورہ دیا کہ سردست دمشق کا محاصرہ ترک کر دیا جائے اور شاہِ روم ہرقل کی فوج کا مقابلہ کیا جائے تجربہ کار ساتھیوں کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے،سیف اللہ  خالد رضی اللہ عنہ ُ نے لشکرِ اسلام کو فلسطین کے سرحدی مقام اجنادین کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں رومی لشکر ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا ، جب لشکر دمشق کا محاصرہ ترک کر کے روانہ ہوا تو دشمن نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اچانک پیچھے سے حملہ کر دیا ،یہ حملہ اس قدر اچانک سے ہوا کہ لشکرِ اسلام کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا ، رومی بگولے کی طرح آئے اور لشکرِ اسلام کے پیچھے محو سفر خواتین کو گرفتار کر کے بڑی تیز رفتاری سے پیچھے ہٹ گئے ، گرفتار ہونے والی خواتین میں حضرت ضِرار رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت خولہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، انہوں نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خواتین کو منظم کیا اور خیموں کی چوبیں پکڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا، پہرہ دینے والوں کے سر پھوڑ دئیے ، خواتین نے جس انداز میں اپنا دفاع کیا ، یہ کارنامہ بھی تاریخِ اسلام کا ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے ، اجنادین فلسطین کی سرحد پر واقع سر زمین شام کا معروف و مشہور مقام ہے، یہاں شاہِ روم نے ایک لاکھ مسلح رومی فوج بھیجی اور خود حمص میں قیام کیا ، اللہ کے مجاھدوں نے  روم کے ابلیسی لشکر کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ نے اپنے مجاھدوں کو فتح کا تاج پہنایا اور ابلیسی لشکر کو شکست و ذلت کا طوق ،

اس جِہاد میں مؤمنین کے  چند مشہور جرنیلوں کو بھی  اللہ تبارک و تعالیٰ نے طمغہء شہادت سے سرفراز فرمایا ، جن میں سے فدائی کاراوئیوں کا آغاز کرنے والے عظیم کمانڈو عکرمہ رضی اللہ عنہ ُ بن ابی جہل ، جارشا بن ہشام ، یعم بنعبداللہ البعدوری، ہشام بن عاص بن وائل السعجی ،فضل بن عباس بن عبد المطلب، ابان بن سعید بن عاص اورہماری آج کی محفل میں بیان کی جانے والی مثالی شخصیت ضرار بن الأزور رضی اللہ عنہم اجمعین سر فہرست ہیں ،
     ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ نے اس معرکے میں بھی اپنی اللہ داد بہادری کے مطابق ایسی جنگ کی کہ کوئی بڑے سے بڑا جری بہادر بھی ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا ، رومی جرنیل روان کو ضرار رضی اللہ عنہ نے موت کے گھاٹ اتارا، ضرار رضی اللہ عنہ نے اسلام کی قبولیت کے بعد ہر معرکے میں جوانمردی ، جانفشانی، جانبازی ، شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے ایسے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیئے جو قیامت تک تاریخِ اسلام کے اوراق میں جگمگاتے رہیں گے اور جن سے ہر دور میں اسلام کے مجاھد ایمانی حرارت حاصل کرتے ہوئے میدانِ جہاد میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیتے تھے، دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے ،

معرکہ ء اجنادین جسے جِہاد یمامہ بھی کہا جاتا ہے ،  میں  ضِرار رضی اللہ عنہ ُ نے دشمنوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ وہ سب کچھ بھول کر صرف انہی کے گرد ہو گئے اور ضِرار  رضی اللہ عنہ ُ کی دونوں پنڈلیاں کٹ گئیں تو وہ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اللہ کے دشمنوں پر اللہ کا عذاب بنے رہے اور وہ سب کے سب مل کر بھی اللہ کے اس مجاھد پر  اس حال میں بھی قابو نہ پاسکے ،

اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرنے کے شوقین ، اللہ  اور اس  کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی نہ جھکنے والا اللہ کا یہ سچا ولی اسی طرح اپنے گھٹنوں کے بل اللہ کی راہ لڑتا رہا یہاں تک  گھوڑوں کے پیروں تلے روندے گئے ، لیکن معرکہ رکنے تک میدان ء جِہاد سے نہ نکلے ، معرکہ رکنے پر اپنے امیر اللہ کی تلوار ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ کے پاس پہنچائے گئے  جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ اس میدانءِ جِہاد سے رخصت ہونے والے تھے تو ان کے رُخصت ہونے سے ایک دِن پہلے اللہ کا یہ سچا ولی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سچا محب اپنے رب کی طرف روانہ ہو گیا ،     
یہ تھے اللہ کے سچے ولی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقیقی اور عملی محب ،  اللہ کرے کہ ہم انہیں اپنے آئیڈیلز بنائیں ،

 اللہ ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔     

مصادر و مراجع ::: المستدرک الحاکم ،  الأصابہ فی تمیز الصحابہ ،  تھذیب التھذیب ، مقدمۃ ابن خلدون ، الأستعیاب فی معرفۃ الأصحاب،  معجم  البلدان ، تاریخ الطبری ، معجم الصحابہ ، معجم مااستعجم ، فتوح الشام ، البدایہ و النھایۃ،