Sunday, April 28, 2013

::::::: ماہ رجب کی فضیلت ، کونڈے ، اور کہانیاں ::::::


 
بِسمِ اللہ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی رَسولِ اللہِ سیّدُ الخَلقِ و خَیرُھا
::::::: ماہءِ رجب کی فضیلت، کونڈے ، اور کہانیاں ::::::
اللہ تعالیٰ کےمقرر کیے ہوئے مہینوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿اِنَّ  الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ، ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِى بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ:::سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور(ایک اُن سے الگ ہے ، اور وہ ہے)مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہےصحیح البُخاری حدیث /3197کتاب بدء الخلق/باب2۔
 دو جہانوں کے سردار مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس  ماہ رجب   کی صِرف یہی  فضیلت بیان فرمائی کہ یہ حرمت والا مہینہ ہے یعنی اِس میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہیے اِس کے عِلاوہ اِس ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے ، بلکہ اِس مہینے میں لڑائی اور قتال سے ممانعت بھی بعد میں اللہ کی طرف سے منسوخ کر دی گئی ، اُس کی تفصیل  سُورت البقرہ /آیت217 کی تفسیر میں ملاحظہ فرمایے ،
!!!!! حیرانگی کی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود اِس مہینے کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کے لیے خاص کیا جاتا ہے ،
!!!!! جِن کو کرنے کا اِسلام میں کوئی جواز نہیں بلکہ ممانعت ہے ، اِن رسوم اور عِبادات(رسموں اور عبادتوں) کو مُسلمانوں میں داخل کرنے کے لیے جھوٹی احادیث ( حدیثیں)بنائی گئیں ، تا کہ مُسلمان اُن کو اپنے دِین اِسلام کا حصہ سمجھ کر اپنا لیں ، یہ تو اللہ تعالیٰ  کا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت پر خاص کرم ہے کہ ہمیشہ اُس نے ایسے عالِم رکھے جو اُسکے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام پر پھیلائے جانے والے جھوٹ کواُمت پر ظاہر کرتے ہیں تا کہ اُمت دھوکے کا شکار نہ ہو یہ الگ بات ہے  کہ اپنی نالائقی، ضد ، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید کی وجہ سے اُمت کی اکثریت اللہ کی اِس خاص مہربانی کا فائدہ نہیں اُٹھا پاتی یہاں ہم ماہِ رجب کے بارے میں گھڑی ہوئی جھوٹی احادیث کا مختصراً ذِکر کر رہے ہیں ،   جن کی بنا پر لوگ اِس مہینے کو کچھ کا کچھ سمجھتے ہیں اور اِس کے بارے میں غلط عقائد کا شکار ہیں ،
:::::: رجب کے بارے میں جھوٹی ، مَن گھڑت ، خود ساختہ اور کمزور  روایات(حدیثیں)   :::::::
:::::  1  اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ::: اللہ ہمیں ر جب و شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا دے۔درجہء صحت   :::ضعیف یعنی کمزور  ہے ، لہذا ناقابل حُجت ہے ،ضعیف الجامع الصغیر /4395،
اِس کی سند میں زائدہ بن ابی الرقاد ، ابو معاذ الباھلی نامی راوی کو إِمام بخاری رحمہُ اللہ نے نے"منکر الحدیث"قرار دِیا ہے ،اور اِس نے  زیاد بن عبداللہ النمیری سے یہ روایت بیان کی ہے ، اور اِس زیاد کو بھی إِمام ابو حاتم بن حبان  نے "منکر الحدیث"قرار دِیا ہے ۔
:::::  2  اِن فی الجنۃ نھراً یقال لہُ رجب ، ماؤہ أشد بیاضاً مَن اللبنِ و أحلیٰ مَن العَسلِ مَن صام یوماً مَن رجب سقاہُ اللہ مَن ذَلکَ النھر ::: جنت میں ایک دریا ہے جِس کا نام رجب ہے اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سُفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ہے ، جو کوئی رجب کے مہینے میں ایک دِن بھی روزہ رکھے گا اُسے اللہ اِس دریا کا پانی پلائے گا ۔
 درجہء صحت::: باطل روایت /سلسلہ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعہ /حدیث1898،
:::::  3  رجب شھر اللَّہ و شعبان شھری و  رمضان شھر اُمتی:::رجب اللہ کا مہینہ ، اور شعبان میرا مہینہ، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے ۔درجہء صحت    ::: ضعیف یعنی کمزور  ہے ، لہذا ناقابل حُجت ہے ،ضعیف الجامع الصغیر /حدیث3094،
:::::   4   فضل رجب علیٰ سائر الشھورِ کفضل القُرانِ علیٰ سائز الأذکار ::: تمام  مہینوں پر رجب کی فضیلت اُس طرح ہے جِس طرح تمام تر أذکار پر قُران کی فضیلت ہے ۔
  درجہء صحت     ::: جھوٹی، خود ساختہ ، مَن گھڑت روایت ہے ، تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب/روایت8، إِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ ۔
:::::   5  مَن صلی لیلۃ سبعۃ و عشرین مِن رجب اثنتی عشرۃ  رکعۃ ،،،،، حط اللَّہ عنہُ ذنوبہ ستین سنۃ ::: جِس نے رجب کی ستائیسویں رات میں بارہ رکعت نماز پڑھی اللہ اُس کے ساٹھ سال کے گناہ مِٹا دیتا ہے۔
  درجہء صحت     ::: ضعیف یعنی کمزور  ہے ، لہذا ناقابل حُجت ہے ،  تنزیۃ الشریعۃ / حدیث49،
:::::   6   إِن فی رجب یوم و لیلۃ مَن صام ذلک الیوم و قام تلک اللیلۃ کان کمن صام مِن الدھر مائۃ سنۃ و قام مائۃ سنۃ ::: بے شک رجب میں ایک دِن اور ایک رات ایسے ہیں کہ جو اُس دِن روزہ رکھے گا اور اُس رات نماز پڑھے گا تو گویا اُس نے سو سال مسلسل روزے رکھے اور سو سال مسلسل رات بھر نماز پڑھی ۔
درجہء صحت    ::: انتہا درجے کی منکر روایت،تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب /روایت14،،إِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ۔
:::::   7  مَن صام يوماً مِن رجب عدل له بصوم سنتين ، ومَن صام النصف مِن رجب عدل له بصوم ثلاثين سنة::: جِس نے رجب میں ایک دِن روزہ رکھا اُس کو دو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا، اور جِس نے رجب کے  آدھ مہینے کے روزے رکھے تو اُسے تیس سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
  درجہء صحت     ::: ضعیف یعنی کمزور  ہے ، لہذا ناقابل حُجت ہے ، سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث 4400،
 :::::   8  رجب شهر عظيم، يضاعف الله فيه الحسنات؛ فمن صام يوماً من رجب؛ فكأنما صام سنة، ومن صام منه سبعة أيام؛ غلقت عنه سبعة أبواب جهنم، ومن صام منه ثمانية أيام؛ فتحت له ثمانية أبواب الجنة،،،،،،،،،،،، ::: رجب عظمت والا مہینہ ہے ، اِس میں اللہ نیکیوں کو دوگنا کر دیتا ہے، پس جس نے رجب میں ایک دِن روزہ رکھا تو گویا اُس نے ایک سال روزہ رکھا،اور جس نے رجب میں ساتھ روزے رکھے تو اُس کے لیے جہنم کے سات دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور جس نے رجب میں آٹھ روزے رکھے تو اُس کے لیے جنّت کے آٹھ دروازے کھول دیے جاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،
درجہء صحت     ::: جھوٹی، خود ساختہ ، مَن گھڑت روایت ہے، سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث 5413،
:::::   9   مَن صلی  المغرب فی  أول لیلۃ  مِن رجب ، ثم صلی بعد ھا عشرین رکعۃ ، یقرأ فی کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب، و قل ھو اللَّہ احد مرۃ، و یسلم فیھن عشرَ تسلیمات،أتدرون ماثوابہ ؟ فإن رُوح الأمین جبریل علمنی ذلک، قلتُ ، اللہ و رسولہ اعلم ،
قال، حفظہ اللہ فی نفسہ و أھلہ و مالہ و ولدہ، أُجیر مِن عذاب القبر، و جاز علی الصراط بالبرق بغیر حساب و لا عذاب،:::
 جس نے رجب کی پہلی رات میں مغرب کی نماز پڑھی اور پھر اُس کے بعد بیس رکعت نماز پڑھی جِس کی ہر رکعت میں ایک ایک دفعہ سورت فاتحہ اور قل ھو اللہ أحد پڑھی، اور اِن (بیس رکعتوں)میں دس دفعہ سلام پھیرا، تو کیا تم لوگ جانتے ہو کہ ایسا کرنے والے کو کیا ثواب ملےگا ؟ مجھے تو روح الامین جبریل نے بتا دِیا ہے،
میں نے (یعنی راوی نے)کہا، اللہ اور اُس کا رسول جانتے ہیں،
فرمایا، اللہ یہ نماز پڑھنے والے کی اُس کی جان میں ، اُس کے گھر والوں میں ، اُس کے مال میں، اور اُس کی اولاد میں حفاظت کرتاہے،اور اُسے قبر کے عذاب سے نجات دے دی جاتی ہے،اور وہ کسی حساب کتاب کے بغیر ہی پل صراط پر سے بجلی کی طرف گذر جائے گا۔   
درجہء صحت    ::: جھوٹی ، مَن گھڑت ، خود ساختہ روایت ،تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب / روایت 15،إِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ۔
:::::   10   مَن صام یوم سبع و عشرین من رجب کُتب لہُ صیام ستین شھراً، و ھو الیوم الذی ھبط فیہ جبریل بالرسالۃ :::جس نے ستائیس رجب کو روزہ رکھا اُس کے لیے ساٹھ مہینے کے روزوں کے برابر ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ ہی وہ دِن ہے جِس دِن جبریل پیغام لے کر نازل ہوئے تھے ،
درجہء صحت    ::: موقوف، اور ضعیف اسناد والی ناقابل اعتبار و ناقابل حُجت روایت ،تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب / روایت 18،إِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ۔

إِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے اپنی اِسی کتاب یعنی """ تبیین العجب مما ورد فی فضل رجب """ میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ """ لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه، ولا في صيام شيء منه، - معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه - حديث صحيح يصلح للحجة، وقد سبقني إلى الجزم بذلك الإمام أبو إسماعيل الهروي الحافظ، رويناه عنه بإسناد صحيح، وكذلك رويناه عن غيره، ولكن اشتهر أن أهل العلم يتسامحون في إيراد الأحاديث في الفضائل وإن كان فيها ضعف، ما لم تكن موضوعة. وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة.
وقد صرح بمعنى ذلك الأستاذ أبو محمد بن عبد السلام وغيره. وليحذر المرء من دخوله تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكذابين". فكيف بمن عمل به.
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع. ::: رجب کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کے روزوں کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کے کسی دِن میں خاص طور پر کوئی روزہ رکھنے کی فضیلت میں ، اور نہ ہی اِس کی کسی خاص  رات میں قیام کرنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث ملتی ہے جو قابل حُجت ہو،
مجھ سے پہلے إِمام حافظ ابو إِسماعیل الھروی نے اِس معاملے کو یقینی قرار دیا ہے ، جیسا کہ ہم اُن کے بارے میں یہ بات صحیح اسناد کے ساتھ روایت کر چکے ہیں ، اور اِسی طرح اُن کے عِلاوہ دیگر(عُلماء اور أئمہ)کے بارے میں بھی ،
لیکن ، یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ عُلماء (میں سے کچھ)فضائل کے باب میں ضعیف (کمزور، غیر ثابت شُدہ، ناقابل اعتماد)احادیث ذِکر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ،بشرطیکہ وہ جھوٹی ، مَن گھڑت ، خود ساختہ نہ ہوں،
اِس اجازت کے ساتھ ،  یہ شرط بھی لگائی جانی چاہیے کہ ایسی کسی حدیث لانے والا یہ جانتا ہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، اور وہ اُس حدیث (کی کمزوری بتائے بغیر اِس )کو نشر نہ کرے ، تا کہ کوئی اِس کمزور حدیث  پر عمل نہ کرے ،اور کسی ایسے معاملے کو شرع نہ بنا لے جو شرع نہیں ہے ، یا  جاھلوں میں سے کوئی اُسے صحیح سُنّت ہی نہ سمجھ لے،
یہی بات  استاد ابو محمد بن عبدالسلام اور دیگر (عُلماء )نے صراحت کے ساتھ کہی ہے،
پس اِنسان کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان کے حد میں داخل ہونے سے بچنا ہی چاہیے کہ ﴿مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ :::جِس نے میرے بارے میں کوئی ایسی بات روایت کی جو (عُلماء کے ہاں)جھوٹی (غیر ثابت شُدہ)ہو تو  وہ (یعنی ایسی بات روایت کرنے والا)بھی جھوٹے لوگوں میں سے ایک جھوٹا ہے[[[صحیح مُسلم/مقدمے میں پہلی حدیث]]]    
(جب صرف روایت کرنے کا معاملہ اتنا سنگین ہے تو)اُس کا کیا معاملہ ہو گا جو ایسی روایت پر عمل کرے ؟؟؟
اور (حق بات یہ ہی ہے کہ)احکام میں ، یا فضائل میں حدیث پرعمل ایک ہی جیسا ہے کوئی فرق نہیں ، کیونکہ سب ہی شریعت میں ہیں ۔"""

إِمام صاحب رحمہُ اللہ کے اِن مذکورہ بالا فرامین میں اُن لوگوں کے لیے بہت اچھا جواب ہے جو فضائل کے نام پر ضعیف یعنی کمزور، غیر ثابت شُدہ، ناقابل اعتبار ، ناقابل حُجت روایات بیان کرنا درست کہتے ہیں اور ایسا کرتے بھی ہیں اور ایسے جھوٹے ، من گھڑت اور غیر ثابت شدہ فضائل سے سفحات بھر کر کتابیں لکھتے ہیں اور وہ کتابیں بغل میں دبا کر اور دوسروں کو تھما کر اپنے تئیں اِسلام کا پرچار کرتے ہیں، و لا حول ولا قوۃ اِلا باللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: میں نے یہاں اُن روایات کا ذِکر کیا ہے جو عام طور پر لوگوں کے درمیان گردش کروائی جاتی ہیں ، بالخصوص برقی ذرائع نشر و اشاعت میں ، ورنہ تورجب کے مہینے کے بارے میں جھوٹی اور کمزور روایات  اور بھی ہیں ،
اور  اِن سب غلط غیر ثابت شدہ ، ناقابل اعتماد، نا قابل حُجت روایات  کی بُنیاد پر ، اور  ،کچھ قبل از اِسلام رجب کے مہینے  کی بلا دلیل عِزت و توقیر کے باطل عقیدے کو زندہ رکھنے کے لیے جو  سومات (رسمیں)اور بدعات (بدعتیں)اُمت میں داخل کی گئیں اُن میں سے کُچھ یہ مندرجہ ذیل ہیں :::
::::::: قربانی کرنا :::::::  اِسلام سے پہلے عرب  رجب کو بڑی عِزت، برکت و رحمت والا مانتے تھے اور اِس مہینے میں قُربانی بھی کیا کرتے تھے  جِسے  عِتیرۃ کہتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن کے اِس عقیدے اور عمل کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا  ﴿لا فرع ولا عَتیرۃ:::نہ کوئی فرع ہے اور نہ ہی عَتیرہ صحیح البخاری /کتاب العقیقہ/باب 3 ،
مُشرکین عرب  ہر سال میں جب اُن کے جانور پہلی دفعہ بچے دیتے تو اُس پہلی کھیپ میں سے ایک جانور وہ اپنے جھوٹے معبودوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور اُس کو فرع کہا کرتے تھے۔
  :::::::  صلاۃ الرغائب ،  نمازءِرغائب :::::::
رجب کی پہلی جمعرات کی رات ، یا جمعہ کی رات، یا درمیانی رات ، یا آخری رات میں خاص مقرر شدہ طریقے سے رغائب نامی نماز پڑھنا ، ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں۔
  ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا سفرِ معراج :::::::
پندرہ یا ستائیس رجب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی معراج والی رات سمجھنا اور اِس رات کو کِسی بھی عِبادت یا جشن  یا کام کے لیے خاص کرنا ،
  ::::::: رجب کے مہینے میں خاص طور پر روزہ رکھنا  :::::::
 یہ بھی ایک ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ملتی ، اِمام محمد بن اسحاق الفاکھی نے اپنی کتاب """  اخبار مکہ""" میں نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ ایسے لوگوں کے ہاتھ پر مارا کرتے تھے جو رجب  کا روزہ رکھتے تھے  ۔
درجہء صحت      :::  اِمام الالبانی  رحمہُ اللہ نے کہا کہ یہ روایت اِمام بُخاری اور اِمام مُسلم کی شرائط کے مُطابق صحیح ہے ،  
   ::::::: زکوۃ ادا کرنے کے لیے رجب کے مہینے کو خاص کرنا  ::::::: یہ بھی ایسا کام ہے جِس کی سُنّت میں کوئی دلیل نہیں ملتی ،
 اور اِسی طرح :::::::  عمرہ کرنے کے لیے اِس مہینے کو اِختیار کرنا بھی بلا دلیل ہے ،
:::::::  رجب کے کونڈے ، یا  ،  جعفر(صادق)رحمہُ اللہ کے کونڈے  :::::::
اب ہم آتے ہیں ایسے کام کی طرف جورجب کے مہینے میں خاص طور پر پاکستان ، ہند ، ایران ، بنگلہ دیش وغیرہ میں عِبادت اور ثواب والا کام سمجھ کر کِیا جاتا ہے ، اور اُس کی بُنیاد بھی سراسر جھوٹ ہے ،
 ایک جھوٹے اِفسانے""لکڑ ہارے کی کہانی ""کو بنیاد بنا کر جعفر(صادق )رحمہُ اللہ سے مشکل کشائی کروانے کے لیے22 رجب کو میٹھی چیز بنا کر کھائی ، کھلائی ، اور بانٹی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دِن ہے لہذا اُن کی پیدائش کی خوشی میں یہ جشن کیا جاتا ہے ،اور اِسے""" رجب کے کونڈے، یا ، اِِمام جعفر کے کونڈے """وغیرہ   کا نام دِیا جاتا ہے ۔
  :::::::    کِسی کی پیدائش کی خوشی منانا یا کِسی کے موت کے دِن پر غمی کرنا  ایسے کام ہیں جِن کا نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں ، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کی زندگیوں میں اور نہ ہی تابعین ، تبع تابعین أئمہ کرام فقہا ، محدثین کی زندگیوں یا کتابوں میں کوئی ذِکر ملتا ہے ، یہ کام یقیناً دین میں سے نہیں ہیں ، کافروں کی نقالی ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِشادِ گرامی ہے کہ﴿مَن تَشبَھَہ بِقَومٍ  فَھُوَ مِنھُم:::جِس نے جِس قوم کی نقالی کی  وہ اُسی قوم میں سے ہے سنن أبو داؤد /حدیث/4033کتاب اللباس/باب5، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے حَسنٌ صحیح قرار دِیا ،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و أطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اور کِسی کا یومِ پیدائش منانا مسلمانوں کی رسم نہیں ، اور اگر وہ تاریخ پیدائش جِس پر کِسی کی پیدائش کا جشن منایا جا ئے جھوٹی ہو تو پھر "یک نہ شُد ، دو شُد "،
جی تو ، بات ہو رہی تھی جھوٹ پر مبنی جشنِ ولادت یا سالگرہ کی ،  جِسے""" رجب کے کونڈے"""یا"""  اِمام جعفر کے کونڈے"""  کہا جاتا ہے ،کہ ،  یہ کونڈے کرنے ، کروانے والوں میں سے شاید ایک فیصد بھی یہ نہیں جانتے کہ ، جِس سبب کو بُنیاد بنا کر وہ یااپنے اِیمان کا کونڈا کر رہے ہیں وہ سب ایک تاریخی جھوٹ ہے ،
 جی ہاں ثواب کی نیّت سے کیے جانے والے اِس کام یعنی عِبادت کا سبب جناب جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش کو بنایا جاتا ہے ، جبکہ یہ تاریخی جھوٹ ہے ،
 اِمام ابنِ کثیر علیہ رحمۃ اللہ نے""" البدایہ والنہایہ""" میں بیان کیا ہے کہ جناب جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش 8 رمضان 80 ہجری اور تاریخ وفات شوّال148ہجری ہے، تو پھر یہ 22 رجب کیا ہے ؟؟؟ کہاں سے ہے ؟؟؟
 آیے ،  اِس کا جواب بھی تاریخ میں ڈھونڈتے ہیں :::
  :::::::  راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ایک گروہ نے اِس رسم کو ہند و پاک کے مُسلمانوں میں داخل کیا اور اِس کا سبب اُن کا صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بُغض اور نفرت کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ، لیجیے ، ذرا دیکھیے تو ،کہ، کب، اور کہاں یہ خرافات ہمارے معاشرے میں داخل کی گئی ،
:::::::  پیر جماعت علی شاہ کے ایک مرید مصطفیٰ علی خاں نے اپنے کتابچے """  جواہر المناقب """میں احمد حسین قادری کا بیان درج کیا """ 22 رجب کی پوریوں والی کہانی اور نیاز سب سے پہلے 1906سن عیسوئی میں  رامپور میں أمیر مینائی لکھنوئی کے خاندان میں نکلی ، میں اُس زمانے میں أمیر مینائی صاحب کے مکان کے متصل رہتا تھا،،،"""  
 ::::::: مولوی مظہر علی سندیلوی اپنے 1911کے ایک روزنامچے میں لکھتے ہیں"""  آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی ، جو میرے اور میرے گھر والوں میں رائج ہوئی اور اِس سے پہلے میری جماعت میں نہیں آئی تھی ، وہ یہ کہ21 رجب کو  بوقتِ شام میدہ  شکر اور گھی دودھ ملا  کر ٹکیاں پکائی جاتی ہیں اور اُن پر اِمام جعفر صادق کا فاتحہ ہوتا ہے 22 کی صبح کو عزیز و أقارب کو بلا کر کھلائی جاتی ہیںو یہ ٹکیاں باہر نہیں نکلنے پاتیں جہاں تک مُجھے عِلم ہوا ہے اِسکا رواج ہر مقام پر ہوتا ہے ، میری یاد میں کبھی اِسکا تذکرہ بھی سماعت میں نہیں آیا ، یہ فاتحہ اب ہر ایک گھر میں بڑی عقیدت مندی سے ہوا کرتا ہے اور یہ رسم برابربڑہتی جا رہی ہے"""   
:::::::   عبدالشکور لکھنوئی رحمہُ اللہ نے رسالہ""" النجم """کی أشاعت جمادی الاؤل سن 1348 ہجری میں لکھا،
""" ایک بدعت ابھی تھوڑے دِنوں سے ہمارے اطراف میں شروع ہوئی ہے اور تین چار سال سے اِسکا رواج یوماً  فیوماً بڑہتا جا رہا ہے ، یہ بدعت کونڈوں کے نام سے مشہور ہے ،،،،،،، """   
:::::::  اُسی دور کے شعیہ عالم محمد باقر شمسی کا کہنا ہے""" لکھنؤ کے شیعوں میں22 رجب کونڈوں  کا  رواج  بیس  پچیس سال  پہلے شروع ہوا تھا """بحوالہ رسالہ النجم لکھنؤ ۔
کہنے اور بتانے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر صاحب اِیمان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ رسم بدعت ہے اور مُنافقین ، دُشمنانِ صحابہ رضی اللہ عنہم  کی طرف سے مُسلمانوں میں داخل کی گئی ہے ، اور اگرسالگرہ کے طور پر میں منائی جائے تو کافروں کی نقالی ہے اور حرام کام ہے ،            
::::::: کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر  آپ بھی یہ کام کرنے والوں میں سے ہیں تو یہ کونڈے بھر کر اپنے اِیمان اور عمل کا کونڈا کرتے ہیں ؟؟؟
:::::::  کیا آپ جانتے ہیں کہ اِس دِن آپ کو جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا دھوکہ دے کر منافق رافضی آپ کو مومنین کے ماموں جان  معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہما کی موت کے جشن میں شامل کرتے ہیں ،
 کیونکہ 22 رجب سن60 ہجری  اِیمان والوں کے ماموں جان معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہُما کی موت کا دِن ہے ، جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کی پیدائش کا نہیں ،
:::::::    کیا آپ جانتے ہیں معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہما کون تھے ؟؟؟ اور اِن مُنافقین کو اُن  پر کیوں غُصہ ہے ؟؟؟
:::::::     أمیر المؤمنین معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہما ہدایت پائے ہوئے ، ہدایت پھیلانے والے ، جِن کے ہاتھ اور قلم کو اللہ نے اپنی وحی لکھنے کا شرف بخشا ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے جلیل القدر صحابی ، جِن کا دورِ خلافت اسلام کے کھلے اور چُھپے ہوئے دشمنوں کے لیے بڑا ہی بھاری تھا ، اور جنہوں نے اِن مُنافق رافضیوں کا اور اِن کی شر انگیزیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا ، رضی اللہ عنہ ُو أرضاہُ ۔ 
::::::: ::::::: ::::::: جی ہاں ، 22 رجب60ہجری ، اِس عظیم المرتبہ صحابی  ، حقیقی اِیمان والوں کے ماموں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہدایت یافتہ ، اور ہدایت پھیلانے والے خلیفہ معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہما کی وفات کا دِن ہے ، ،،،،اور مُنافقین کے لیے خوشی اور جشن کا دِن ہے ،
جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ پر حملہ کرنے والے بد بخت أبو لؤلؤ فیروز مجوسی کا جشن ، باباشجاع  کے نام پر منایا جاتا ہے ، اور آخری چہار شنبہ کے دِن کو اِس حملے کی خوشی میں """عید بابا شجاع""" بنا دِیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی صحت یابی کی کہانی میں اِس عید کی حقیقت چھپائی گئی ، اور ،،،، اور ،،،،، 
  :::::::  مُسلمانو ، اپنی أصلیت کو چھوڑ کر کافروں اور مُنافقوں کے ہاتھوں میں کھلونا کیوں بنتے ہو؟؟؟  
  :::::::   اِیمان والو ، اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کے نام پر نذر و نیاز اور چڑھاوے شرک نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟
  :::::::  مُسلمانو ، سالگرہ منانا کِس کی نقالی ہے ؟؟؟
  :::::::  إِیمان والو ، کونڈے بھرنے سے پہلے ذرا سوچناتو کہ، 22 رجب کِس کی موت کا دِن ہے ؟؟؟
اے میرے مُسلمان بھائیو اور بہنوں ، کہیں سے ڈھونڈ نکالیے ، اپنی اِسلامی حمیت اور رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اُن کے اہلِ بیت یعنی اُمہات المؤمنین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت جو مُنافق رافضیوں نے آپ کو دہوکہ دہی کا شکار بنا کر چھین لی ہے،
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو پہچاننے اور اُسے قبول کر کے اُس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔
 طلبگارءِ دُعا ،آپ کا بھائی ،عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت:01/01/1429ہجری،بمُطابق،10/01/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث:02/07/1437ہجری،بمُطابق،09/04/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 comments:

mahmood ali نے لکھا ہے کہ
This comment has been removed by a blog administrator.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔