Saturday, September 28, 2013

::::::: حج کے مقاصد میں سے ایک أہم مقصد ::::::: An Important Aim Of Haj

:::::::  قُرآن کے سایہ میں :::::::
::::::: حج کے مقاصد میں سے ایک أہم مقصد :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
(((((وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ::: اور جب ہم نے اِبراہیم کے لیے (ہمارے ) گھر(کعبہ کی تعمیر کے لیے) جگہ کی نشاندہی کی اور (آسان کیا اور اسے حُکم دِیا)  کہ میرے ساتھ کسی کو شریک مت بنانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور نماز پڑہنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدے کرنے والوں کے لیے صاف کرو))))) سُورت الحج / آیت 26 ،
حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی علیہ وعلہ آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((بُنِيَ الْإِسْلَامُ على خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إلا الله وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ  ::: اِسلام کو پانچ بنیادوں پر بنایا گیا ہے(1) اس بات کی (قولی اور عملی )گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں  اور(2) نماز قائم کرنا(یعنی وقت اور جماعت کی حفاظت کرتے ہوئے ہوئے پابندی سے نماز پڑہنا اور پڑہوانا)،اور(3) زکوۃ ادا کرنا اور (4)(اللہ کے)گھر کا حج کرنا اور (5)رمضان کے روزے رکھنا)))))صحیح مُسلم /حدیث 16 /کتاب الاِیمان /باب 5 ،
حج بھی ایک ایسی عِبادت ہے جو خالصتاً اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید پر مبنی ہے ، بندے میں اللہ کی توحید کے قلبی اور عملی حصول کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عِبادت بھی مقرر فرمائی اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زُبان مبارک سے یہ تعلیم دِلوائی کہ اِس عِبادت کا آغاز ہی توحید بھری پکار سے کیا جائے اور اس پکار کو بلند کرتے کرتے اللہ کے گھر پہنچا جائے ، جی ہاں ، وہ پُکار جسے """تلبیہ """کہا جاتا ہے (((((لَبَّيْكَ اللهم لَبَّيْكَ،لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لك لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لك وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لك:::میں  حاضر ہوں اے میرے اللہ حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں  تیرا کوئی شریک نہیں  میں حاضر ہوں ،  بے شک تمام خالص اور سچی تعریف کا مستحق تُو ہی ہے اور تمام نعمتیں تیری (طرف سے ) ہی ہیں ، اور ساری بادشاہی بھی تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں)))))متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث 1474/کتاب الحج /باب 25،صحیح  مُسلم / حدیث 1184 / کتاب / باب3 ،     
اسی توحید کے لیے طواف کے دو رکعت نفل میں اللہ تعالیٰٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے یہ سکھایا کہ ان دو نوافل میں توحید سے بھرپور دو سورتیں  سورت الاخلاص ((((( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ))))) اور سورت الکافرون (((((قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ))))) پڑہی جائیں ، صحیح مُسلم /کتاب الحج / باب ۱۹ ، سنن النسائی ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ ،
اسی توحید کے لیے صفا اور مروہ پر چڑھ کر ، قبلہ رُخ ہو کر ( اور اگر رش کی وجہ سے قبلہ رخ نہ ہو سکے تو بھی چکر کی ابتداء کرتے ہوئے ) اللہ کی واحدانیت بیان کرتے ہوئے (((((لَا إِلَهَ إلا اللَّهُ::: اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں))))) کہنے ، اور اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے (((((اللَّہُ اکبرُ::: اللہ ہی سب سے بڑا ہے )))))کہنے کی تعلیم دِلوائی ،  اور یہ کہنے کی تعلیم دلوائی کہ(((((لَا إِلَهَ إلا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ له له الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وهو على كل شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إلا الله وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ثُمَّ::: اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اُسی کی ساری بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے ہے ساری سچی تعریف اور وہ ہی ہر ایک چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے ، اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اُس نےاپنا وعدہ پورا فرمایا اور اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کی مدد فرمائی اور تمام کے تمام ( کفار اور مشرکین اور دُشمن)گروہوں کو شکست دِی اکیلے ہی ))))) صحیح مُسلم / حدیث 1218 / کتاب الحج /باب  19 ،
::::::: اسی توحید کے لیے عرفات کے دِن ،  جو کہ حج کا دِن ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( الحَجُ  عَرفۃ ::: حج عرفات ( میں قیام کرنا ) ہے ))))) سنن النسائی /حدیث3016 /کتاب مناسک الحج /باب 203 ، سنن ابن ماجہ / حدیث /کتاب المناسک /باب 57 ،
یہ عرفات کا قیام بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی  توحید سے بھر پور ہے ، جس کی عملی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے عطاء فرمائی  ، اور بہت دیر تک قیام فرما کر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا فرماتے رہے ، سوال کرتے رہے ، طلب کرتے رہے ، اپنی اُمت کو یہ سبق دیا کہ حج اور اس کے تمام مناسک اللہ کی عبادت ہیں جن کے ذریعے اللہ کی توحید  سکھائی گئی ہے ، صرف ایک اکیلے لا شریک اللہ کی عِبادت ، اُسی سے دُعا کرنا جو کہ بذات خود ایک عِبادت ہے ، صرف اُسی سے حاجت روائی اور مشکل کشائی پر اِیمان رکھنا اور صرف اُسی سے طلب کرنا ، اُس کا ذکر صرف اسی طور کرنا جس طرح اُس نے یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتایا ، صرف اُسی کی خاطر اپنی جان ، مال اور وقت صَرف کرنا اور اُس پر صبر کرنا ، یہ سب اعمال جو ایک حاجی حج میں کرتا ہے ، اللہ کی توحید کے عملی اسباق ہیں ، اب اگر کوئی شخص یہ سارے اعمال کر کے بھی غیر اللہ سے ایسی امیدیں رکھتا ہو جو صِرف اللہ سے رکھی جانا اللہ کا حق ہے ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیوں پر عمل پیرا ہو  تو جان لینا چاہیے کہ اُس نے اپنی اس ساری  مالی اور بدنی مشقت سے اللہ کی توحید کو نہیں جانا اس کی یہ ساری مُشقت دُنیاوی فوائد پر مبنی تو ہو سکتی ہے لیکن شاید اُخروی طور پر اُس کے کام آنے والی نہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اُس کی توحید کا قولی اور عملی  مؤمن بنائے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ۔
 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ طلب گارء دُعاء ،آپ کا بھائی، عادِل سُہیل ظفر ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :

Friday, September 27, 2013

::::::: عمرہ اور حج کا طریقہ صحیح سُنّت کے مطابق ::::::: how to perform UMRA and HAJ accordig to authentic SUNNAH


::::::: عمرہ اور حج کا طریقہ صحیح سُنّت کے مطابق  (مُختصراً) :::::::



موضوعات
:::::::  مکہ اور مسجد ِ حرام میں داخلے کے آداب :::::::  2
:::::::  عُمرہ ، (اور حج کی صُورت میں )طوافءِ قُدُوم کرنے کا طریقہ ::::::  2
:::::::  طو افِ کعبہ :::::::  2
:::کتابی دُعائیں یا دِلی دُعائیں ::::  4
:::::::  طوافِ کعبہ کے بعد ، اور صفا و مروہ کی سعی کے درمیان کیے جانے والے کام :::::::  4
:::::::  صفا اور مروہ کی سعی :::::::  5
:::::::  آٹھ ( 8 ) ذی الحج میں کیے جانےوالے کام :::::::  7
:::::::  نو ( 9 ) ذی الحج میں کیے جانے والے کام :::::::  7
:::::::  دس ( 10 ) ذی الحج میں کرنے کے کام :::::::  8
:::::::  گیارہ (11)سے تیرہ (13)ذی الحج تک کے کام:::::::  9
::::::: ایامءِ تشریق  :::::::  10
:::::::  مکہ سے واپسی :::::::  10



بِسَّمِ اللہِ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیَ رَسولِ اللہِ و عَلیَ آلہِ و أصحابہِ و أزواجہِ أجمعین

:::::::  مکہ اور مسجد ِ حرام میں داخلے کے آداب :::::::

:::::::   اگر آسانی سے کیا جا سکتا ہو تو مکہ المکرمہ میں داخلہ کے لیے غُسل کرنا بہتر ہے ، صحیح البخاری/حدیث1573،
:::::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم مکہ میں ثنیہ العلیا (جِس طرف باب معلیٰ ہے اُس )والی طرف سے داخل ہوتے اور ثنیہ سُفلیٰ سے خارج ہوتے (صحیح البُخاری /حدیث 1575
اگر کسی شرعی یا قانونی طورپر ممنوع کام  میں ملوث ہوئے بغیر اس طرف سے داخل ہونا ممکن نہ ہو تو کِسی بھی طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے اور کِسی بھی طرف سے نکلا جا سکتا ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ  وعلی آلہ وسلم نے اِس کی اجازت عطاء فرمائی  ہے ، اِمام ا لالبانی رحمہُ اللہ  نے کہا یہ حدیث الفاکھی نے روایت کی ہے اور حسن ہے ۔
:::::::  أنس رضی اللہ عنہ ُ  کا کہنا ہے کہ ( سُنّت یہ ہے کہ جب مسجدِ میں داخل ہوا جائے تو پہلے دائیں پاؤں داخل کیا جائے اور خارج ہوتے وقت بائیں پاؤں پہلے نکالاجائے)مسجد الحرام اور مسجدِنبوی میں آتے جاتے ہوئے بھی اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے ، مستدرک الحاکم/ حدیث 791 ،سلسلہ احادیث الصحیحہ /حدیث 2478۔
:::::::  اورمسجد میں داخل اور مسجد سے خارج ہوتے وقت کی دُعا ؤں میں سے کوئی دُعا کرنا بھی نہیں بھولنا چاہیے ۔
:::::::  حرم شریف  میں داخل ہو کر جب کعبہ مبارکہ  نظر آئے تو ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی جا سکتی ہے کیونکہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ  سے ایسا کرنا ثابت ہے (سُنن البہیقی ، مُصنف ابن ابی شیبہ )،
 اِس موقع پر دوسرے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المؤمنین  عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے یہ دُعا کرنا ثابت ہے کہ""""" اللَّھُمَ انت َ السَّلام ، و مِنکَ السَّلام فَحیِّنَا بالسَّلامِ"""""،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم سے اِس موقع پر کوئی خاص دُعا کرنا ثابت نہیں ،لہذا دُعاکرنے والا جو دُعا بھی کرنا چاہے کر سکتا ہے ،اچھی طرح سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ  اپنی طرف سے بنائی ہوئی ، مختلف کتابوں میں لکھی ہو ئی دُعائیں کرنے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ أمیر المؤمنین ، خلیفہء راشد عُمر الفاروق  رضی اللہ عنہ ُ  کی سُنّت کو اپنایا جائے ۔اِسکے بعد عُمرہ کا آغاز کیا جائے گا ۔

:::::::  عُمرہ ، (اور حج کی صُورت میں )طوافءِ قُدُوم کرنے کا طریقہ ::::::

:::::::  حج کے اِرادے سے آنے والے کےلیے یہ عُمرہ طوافءِ قُدُوم کہلاتا ہے ، اوراگر کوئی صِرف عُمرہ کر رہا ہو تو بھی اُسکی ادائیگی کا طریقہ ایک جیسا ہی ہے ، حجِ قِران والا چاہے تو اپنے طوافءِ قُدُوم کو صِرف کعبہ کے طواف پر روک سکتا ہے ، اور صفا ، مروہ کی سعی طواف ءِ اِفاضہ کے ساتھ کر سکتا ہے ۔
:::::::  مسجد الحرام میں داخل ہونے کے بعد حجرِ اسود کی طرف جایا جائے گا اور مندرجہ ذیل ترتیب اور طریقے سے عُمرہ کی ادائیگی مکمل کی جائے گی :::

:::::::  طو افِ کعبہ :::::::

:::::::  صِرف طواف ِکعبہ کے لیے اپنے دائیں(سیدھے) کندہے کو ننگا کیا جائے گا ، اور صِرف کعبہ شریفہ کے  طواف کے دوران ہی اِس کندھے کو ننگا رکھا جائے گا ، کعبہ شریفہ کے طواف کے عِلاوہ ، صفاو مروہ کی سعی کے دوران یا ، حج اور عُمرے کے کسی بھی اور منسک کی ادائیگی کے دوران ، اِس کندھے کو ننگا رکھنا بدعت ہے ۔
 :::::::  حجرِ اسود کے سامنے کھڑا ہو کر تکبیر کہی جائے گی یعنی "اللہ ُ اکبر"(صحیح البُخاری /حدیث 1613)، اورتکبیر ایک دفعہ کہی جائے گی تین دفعہ نہیں جیسا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں، اگر کوئی اِس تکبیر سے پہلے " بِسمِ اللہ "بھی کہے تو جائز ہے کیونکہ ایسا کرنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے(مناسک الحج و العمرہ ، للالبانی)۔
 :::::::  اِسکے بعد حجرءِأسود کو چُھوا جائے گا ، اُسے چُوما جائے گا اور اُس پر سجدہ کیا جائے گا ، جِس ہاتھ سے حجرءِأسود کو چھوا جائے ، حجرءِأسود کی بجائے صِرف اُس ہاتھ کو چُومنا بھی درست ہے ، یہ سب کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہیں ، صحیح البُخاری/حدیث 1610،1611، اِرواءَ الغلیل / حدیث 1112۔
 :::::::   حجرءِأسود اوراُس کو چُھونے کی بڑی فضیلت ہے (سُنن الترمذی حدیث 959 ،877 ، صحیح ابنِ خزیمہ/ حدیث 2733، 2736 ، مُستدرک الحاکم /حدیث1680،مسنداحمد /حدیث190۔
لیکن یہ بات اِس  فضیلت سے زیادہ اہم ہے کہ یہ سب کام سُنّت کے درجے میں ہیں اور کِسی مُسلمان کو اذیت پُہنچانا حرام ہے لہذا اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حجرءِ أسود کو چُھونے اور چُومنے کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے کِسی حرام کام کا شکار نہ ہو جائیں ،اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے اور اُس کے  نبی  کریم محمد صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے دُوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنے کا حُکم دِیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خاص طور پر یہ حکم فرمایا گیا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔
 :::::::   اگرطواف کرنے والا کِسی چیز پر سوار ہو تو حجرءِأسودکو کِسی چھڑی وغیرہ سےچھو کر اُس چھڑی وغیرہ کو چُوم سکتا ہے ۔ صحیح البُخاری /حدیث1607 ، صحیح مُسلم /حدیث 1275 ۔
 :::::::   اگرلوگوں کو تکلیف دئیے بغیر حجرءِأسودکو ہاتھ سے چُھونا ممکن نہ ہو تو اُس کی طرف اشارہ کیا جائے گا(صحیح البُخاری/ حدیث 1612 ، 1613) ہاتھ کو چوما نہیں جائے گا ، یہ خلافِ سُنّت ہے یعنی بدعت ہے ۔
 :::::::   اِسکے بعد کعبہ کے گرد سات چکر لگائیں جائیں گے حجرءِأسودسے حجرءِأسودتک ایک چکر ، ہر چکر کے آغاز میں حجرءِأسودکو چُھوا جائے گا ، اُوپر بیان کی گئی باتوں کو اچھی طرح سے یاد رکھ کرایسا کیا جانا چاہیے ۔
 :::::::   کِسی کو تکلیف دئیے بغیر اگر ممکن ہو تو طواف کے ہر چکر میں رکنِ یمانی کا اِستلام بھی کیا جائے گا ، یعنی اُسے چھویا جائے گا ،لیکن اُسکو چُھو کر ہاتھ چومنا ، یا نہ چُھونے کی صُورت میں اُس کی طرف اِشارہ کرنا، یا اِشارہ کر کے ہاتھ چُومنا خِلافِ سُنّت ، یعنی بدعت ہے ۔(رکن یمانی کعبہ شریفہ کا وہ کونہ ہے جو طواف ختم ہونے میں رکنِ حجرِ اسود سے پہلے آتا ہے )۔
 :::::::   طواف کرتے ہوئے کعبہ کے جو دو کونے حجرِ اسود کے بعد آتے ہیں اُنہیں رُکنین شامین یعنی دو شامی کونے کہا جاتا ہے ، اِنہیں نہیں چھویا جایا گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اِن دونوں کونوں کو نہیں چھویا (صحیح البُخاری /حدیث 1609 )لہذا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے اِن دونوں کونوں کو نہیں چُھونا چاہیے ۔
 :::::::   رکن یمانی اور رکنِ حجر کے درمیان یہ دُعا کی جائے گی(((((رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ::: اے ہمارے رب ہمیں دُنیا میں (بھی)اچھائی عطاء فرما، اور آخرت میں (بھی)اچھائی عطاء فرما ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما)))))صحیح ابو داؤد /حدیث 1653۔
 :::::::   اِسکے عِلاوہ کعبہ کے طواف میں کوئی دُعا یا ذِکر نبی کریم محمد  صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم  کی ذات مبارک سے ثابت نہیں ، لوگوں نے ہر چکر کے لیے اور ہر کونے کے لیے اور میزابِ رحمت وغیرہ کے لیے جو دُعائیں مقرر کر رکھی ہیں اُن کی سُنّت میں کوئی اصل نہیں لہذا کِسی مُقام کے لیے کِسی دُعا کوخاص کرنادُرُست نہیں ۔
 :::::::   رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے((((( گھر (یعنی اللہ کے گھر) کا طواف نماز ہے لیکن اِس میں اللہ نے بولنا حلال کر دِیا ہے لہذا جو بولے تو خیر کے عِلاوہ کُچھ نہ بولے[ایک اور روایت میں ہےکہ]لہذا اِس (یعنی طواف )میں بولنے میں کمی رکھو)))))صحیح ابن حبان/حدیث/3836کتاب الحج/باب دَخُول مَکۃ،صحیح ابن خزیمہ /حدیث2739،سُنن الترمذی /حدیث 960 ،کتاب الحج/باب 112 باب مَا جَاءَ فِى الكلاَمِ فِى الطَّوافِ، سُنن النسائی حدیث2922/کتاب مناسک الحج/ باب136إباحة الكلام في الطواف ،مستدرک الحاکم / 3056 ، 3057،احادیث شریفہ کا درجہ صحت " صحیح"ہے ، دیکھیے ،  اِرواءَ الغلیل/حدیث 121۔

:::کتابی دُعائیں یا دِلی دُعائیں ::::

لہذاکعبہ شریفہ کے طواف کے دوران ، کوئی بھی دُعا مانگی جا سکتی ہے اور کِسی بھی ز ُبان میں مانگی جا سکتی ہے، اللہ تعالیٰ ہر ز ُبان کو جاننے والا ہے اگر ہاتھ میں کِتابیں تھام کر اُن میں لکھے ہوئے الفاظ کو کِسی سمجھ کے بغیر دُہرایا جائے اور وہ بھی غلط تلفظ میں تو دِل کی حاضری کیا ہو گی ؟؟؟ اور جِس عبادت میں دِل حاضر نہیں دماغ اور زبان کا آپس میں کوئی واسطہ نہیں اُس کا کیا فائدہ اور اثر؟؟؟کہ  پڑہنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے؟؟؟ کِس سے کیا کہہ رہا ہے؟؟؟کیا مانگ رہا ہے ؟؟؟
محترم قارئین ، یاد رکھیے کہ سُنّت کے خلاف اور دِل و دماغ کی غیر حاضری کی حالت میں کی گئی لاکھوں عبادتوں سے بہتر وہ ایک عبادت ہے جو سُنّت کے مُطابق اور دِل و دماغ کی حاضری کے ساتھ کی جائے ۔
:::::::   کعبہ کے طواف میں پہلے تین چکروں میں """رَمَل"""کیا جائے گا (صحیح البُخاری/حدیث 1602، 1603، 1604) """رمل """کا مطلب ہے ، کِسی چاق و چوبند آدمی کی طرح کندہے ہلا ہلا کر ہلکی رفتار سے دوڑنا ، اِس کیفیت کو سعی بھی کہتے ہیں یعنی وہ کیفیت جو ہلکے ہلکے بھاگنے اور جلدی جلدی چلنےکے درمیان کی کیفیت ہو ، جسے ہم کچھ ہلکے انداز میں کی گئی جاگنگ(Slow tempo jogging) بھی کہہ سکتے ہیں۔

:::::::  طوافِ کعبہ کے بعد ، اور صفا و مروہ کی سعی کے درمیان کیے جانے والے کام :::::::

 :::::::   کعبہ کا طواف مکمل کرنے کے بعد ، اپنےسیدھے  کندہے کو ڈہانپ لیا جائے گا ، جِسے طواف کے لیے ننگا کیا گیا تھا ، اور پھر ملتزم کے ساتھ سینہ ، چہرہ اور ہتھیلیاں اور کہنی تک بازو لگا کر کُچھ دیر کھڑا رہا جائے گا ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/ حدیث 2138،"منسک " شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ ۔[[[ملتزم کعبہ مشرفہ کے اُس حصہ کو کہا جاتا ہے جو حجرءِأسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے]]]
 :::::::   اِسکے بعد مُقام ابراہیم کے دو نفل ادا کیے جائیں گے ، اِس طرح کہ مُقامِ ابراہیم نمازی اور کعبہ کے درمیان میں آئے اور اِس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ کِسی کو اپنے سامنے سے نہ گزرنے دِیا جائے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے حُکم دِیا ہے ،اور یہ حُکم ہر نماز اور ہر جگہ کے لیے عام ہے ، اِس حُکم میں سے مسجد الحرام یا مسجدِ نبوی یا کِسی اور جگہ کو نکالنے کی کوئی دلیل نہیں،جی ہاں ، اگر وہاں رش ہو جو یقیناً ہوتا ہے تو پھر مقامِ ابراہیم کے نفل حرم میں کہیں بھی ، لیکن کِسی نہ  کِسی چیز کی آڑ میں پڑہے جائیں ، یاد رہے کہ آڑ لیے بغیر نماز پڑہنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے(صحیح ابن خزیمہ)اور یہ حُکم ہر جگہ کےلیے ہے ۔
[[[سُترہ کے وجوب اور مسائل کے بارے میں ایک مضمون الگ سے نشر کیا جا چکا ہے، وللہ الحمد ]]]
 :::::::   اِس کے بعد زمزم کی طرف جا کر اور زمزم پیا جائے اور سر پر ڈالا جائے ۔
 :::::::   پھر حجرِ اسود کی طرف واپس آ کر تکبیر کہی جائے گی اور اُس کا استلام کیا جائے گا یعنی اُسے چھویا جائے گا ۔

:::::::  صفا اور مروہ کی سعی :::::::

:::::::   طواف کعبہ ، مقامِ ابراہیم کے دو نفل ، زمزم پینے اور سر پر ڈالنے ، اور حجرِ اسود کے استلام کے ساتھ تکبیر کہنے کے بعد صفا کی طرف جانا ہے اورصفا کی طرف جاتے ہوئے جب صفا کے قریب پہنچیں تویہ آیت پڑہی جائے گی(((((اِنَّ الصَّفا والمروۃَ مِن شعائرِ اللَّہ فَمَن حجَّ البَیتَ او اعتمَرَ فلاجُناحَ عَلیہِ ان یَطوَّفَ بِہِمَا ، و مَن تَطوعَ خیراً فاِنَّ اللَّہَ شاکرٌعَلیم:::بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سےہیں ، لہذا جو گھر کا حج کرے یا عُمرہ کرے اور اِن دونوں کا طواف کرے تو اُس پرکوئی گناہ نہیں اور جو  خود اپنا کر (یعنی اُس پر فرض ہوئے بغیر)کوئی نیک کام کرتا ہے تو اللہ قدرکرنے والا اور سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے )))))سورت بقرہ(2)/ آیت 158 ،
 اور یہ کہے (((((نَبداَ بِمَا بَداَ اللَّہُ بِہِ:::ہم بھی اُسی سے شروع کرتے ہیں جِس سے اللہ نے شروع کیا)))))سُنن ابو داؤد، سُنن النسائی،سُنن الترمذی، و غیرھُم۔
:::::::   پھرصفا پر چڑھا جائے گا یہاں تک کہ کعبہ دیکھا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کعبہ کی طرف رُخ کر کے اللہ کی توحید بیان کی جائے ، اور اُس کی بڑائی بیان کی جائے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے کیا ، تین دفعہ تکبیر کہی جائے اور کہا جائے(((((لا اِلہَ اِلَّا اللَّہَ وحدَہُ لا شریکَ لہُ لہُ المُلکُ ولہُ الحمدُ یُحی و یُمیتُ و ھُوَعلیٰ کُلِّ شي ٍ قدیرٌ:::اللہ کے علاوہ کوئی سچا  اور حقیقی معبود نہیں(اُس کے عِلاوہ جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل اور جھوٹے معبود ہیں)اللہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں،(حقیقی اور سچی )تعریف اسی کی ہے ، اور (حقیقی اور حتمی )بادشاہی اُسی کی ہے ،وہی زندہ کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہی  ہر چیز پر قُدرت رکھتا ہے)))))،
اور تین دفعہ کہا جائے(((((لا اِلہَ اِلَّا اللَّہَ وحدَہُ لاشریکَ لہُ انجز َوعدَہُ ونَصرَعبدَہُ وھزمَ الاحزاب وحدَہُ :::اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہےاُس کا کوئی شریک نہیں،اُس نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اور اپنے بندے کی مدد کی ، اور سب گروہوں کو اکیلے ہی شکست دِی)))))، اور اِس تکبیر ، تہلیل اور حمد کے درمیان کوئی دُعا بھی کی جا سکتی ہے ۔
 :::::::   اِسکے بعد صفا سے اُترتے ہوئے، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا آغاز کیا جائے گا ۔
 :::::::   صفا سے مروہ کی طرف جاتے ہوئے تھوڑے ہی فاصلے کے بعد وہ جگہ آتی ہے جہاں سے سعی کرتے ہوئے ( یعنی تیزی سے چلتے ہوئے جو تقریباً ہلکے ہلے بھاگنے اور تیز چلنے کی سی کیفیت ہوتی ہے ، اُس کیفیت میں )گزرنے کا حُکم ہے ، یہ جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں چھوٹی چھوٹی کنکریوں والی ایک وادی کی شکل میں ہوتی تھی اور اِس کو بطحا کہا جاتا تھا آج کل اِس جگہ کو دور سے دیکھ کر جانا جا سکتا ہے، کیونکہ حرم کی انتظامیہ نے اِس جگہ کے آغاز اور اختتام پر سبز روشیناں لگا رکھی ہیں اور فرش پر بھی بھورے رنگ کا پتھر لگا ہوا ہے ۔
 :::::::  سعی کرنے کا طریقہ طوافِ کعبہ میں بیان کیا جا چُکا ہے ، سعی کرنے میں مرد اور عورت کے لیے کو ئی فرق نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے (((((لاَ يُقْطَعُ الْوَادِى إِلاَّ شَدًّا:::وادی(بطحاء، جسے بطن المسیل بھی کہا گیا ہے)کو پا ر نہیں کیا جائے ، سوائے شدت کے ساتھ)))))سُنن ابو داؤد /حدیث 2987 ،سُنن  النسائی/ حدیث 2980 ،
لیکن اِس  بات کا یقیناً خیال کیا جائے گا کہ عورت اِس طرح حرکت نہ کرے جِس میں اُس کی بے پردگی ہو ، جیسا کہ اب دیکھنے میں آتا ہے ، کیونکہ لوگوں نے اِس جگہ کو سعی کی صُورت میں پار کرنے کی بجائے دوڑ لگا کر پار کرنا سعی بنا لیا ہے جبکہ یہ سراسر غلط ہے  اور جب یہ کاروائی خواتین کی طرف سے ہوتی ہے تو اُن مقدس مُقامات پر  بے پردگی اور بے ہودگی کا مزید مظاہرہ ہوتا ہے ، کیونکہ عُمرہ اور حج کرنے والی خواتین، خصوصاً ہمارے ہاں کی خواتین جِن اکثریت نے اپنے آپ کو اِسلامی پردے کی پابندیوں سے کافی حد تک آزاد رکھا ہوتا ہے ، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی اور احرام کی حالت میں بھی  ، تو،ایک تو کریلا دوسرا نیم چڑھا کے مصداق جب وہ خواتین اپنے بے ہودہ لباسوں میں دوڑیں لگاتی ہیں ، ولا حول ولا قوۃ  اِلا باللہ ، والیہ نشتکی،
میں نے کہا ، بے ہودہ  لباس ، کِسی کو یہ گمان نہ گذرے کہ ہمارے ہاں کی خواتین نے تو شلوار قمیص پہن رکھی ہوتی ہے اور چادر بھی یا دوپٹہ بھی ہوتا ہے تو یہ لباس بے ہودہ کیسے ، تو گذارش ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اُن خواتین نےعموما لون اور وایل وغیرہ نامی کپڑوں کے لباس پہن رکھے ہوتے ہیں  جو جسم کے ساتھ چپکے رہتے ہیں اور کافی باریک اور شفافیت والے ہوتے ہیں اور کچھ گیلے ہونے کی صُورت میں اُن کا چپکنا اور شفافیت بڑھ جاتا ہے ، اِس لیے میں نے اُن کپڑوں کے لباسوں کو بے ہودہ لباس کہا ہے ۔  
 :::::::   سعی کی جگہ سے نکلنے کے بعد اپنی عام چال پر چلتے ہوئے مروہ کی طرف آئیے اور جِس طرح صفا پر چڑھا گیا ، اور جو کچھ وہاں کیا گیا وہ سب کام کیے جائیں گے ، اِس طرح یہاں تک ایک چکر مکمل ہو گا ۔
 :::::::   پھرجِس طرح مروہ سے صفا کی طرف آئے تھے اُسی طرح صفا کی طرف جایا جائے گا ، اِس طرح دو چکر ہوں گے ۔
 :::::::   اِن چکروں کی بیان کردہ کیفیت کے مُطابق باقی پانچ چکر پورے کیے جائیں گے ۔
 :::::::  سات چکر پورے ہونے پر اپنے سر کے بال کٹوائے جائیں گے یا سر مُنڈوایا جائے گا ،سر کے بال مُنڈوانے یا کٹوانے کے بعد عُمرہ مکمل ہو جاتا ہے اور حالتِ احرام ختم ہو جاتی ہے ۔
خُوب اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ سر کے چند حصوں کے بال کاٹنا صِرف عورتوں کے لیے ہے، مَردوں کے لیے سارے سر سے بال کٹوانے یا منڈوانے کا حکم ہے ، جو کوئی عورتوں کی طرح سر کے کچھ حصوں سے کچھ بال کاٹتے  یا کٹواتے ہیں وہ شرعی طور پر  احرام کی حالت سے خارج نہیں ہوتے ۔
::::::: سر کے بال کٹوانے  یا مُنڈوانے کے بعد ،صِرف عُمرہ یا حج ِ تمتع کرنے والا احرام کی کِسی پابندی میں نہیں رہتا ۔
:::::::  حج تمتع کرنے والا، اِس عمرے کے بعد ، آٹھ ذی الحج تک حلال رہے گا ، اور آٹھ ذی الحج جِسے یومِ ترویہ کہا جاتاہے ، کو دوبارہ حالت احرام میں آئے گا اور حج کا تلبیہ کہے گا ۔
حج کی اِقسام کا ذِکر ایک الگ مضمون کی سورت میں نشر کیا جا چکا ہے ،
:::::::  حج قِران : حجِ قِران کرنے والا قُربانی کا جانور ساتھ لائے گا او ر عُمرہ یعنی طوافِ قُدُوم کرنے کے بعد حلال نہیں ہو گا بلکہ اپنے حج کے سارے ہی مناسک ادا کرنے تک حالتِ احرام میں رہے گا [[[تمتع اور قِران کے بارے میں حج کی اِقسام کے  بیان میں ذِکر کیا جا چکا ہے کہ اِن میں صِرف دو ہی فرق ہیں ، اُن دو کے عِلاوہ سب مناسک اور کام ایک جیسے ہیں]]] ۔
:::::::  حجِ اِفراد کرنے والا چاہے تو طوافِ قُدُوم کر سکتا ہے جِس میں صفا اور مروہ کی سعی نہیں ہوتی ،اگر کوئی چاہے تو سعی بھی کر سکتا ہے ، یہ سعی اُس کےلیے طوافِ افاضہ کی سعی کا متبادل ہو سکتی ہے ، اگر اِفراد کرنے والا طوافِ قُدُوم نہیں کرتا تو اُسے حج کا تلبیہ کہتے ہوئے حالتِ احرام میں داخل ہو کر آٹھ ذی الحج کو سیدھا مِنیٰ جاناہوتاہے اور پھر طوافِ اِفاضہ کرنے تک تمتع اور قِران کرنے والوں کی طرح باقی مناسک ا دا کیے جاتے ہیں ، سوائے قُربانی اور طوافِ وداع کے ،
حجِ اِفراد کرنے والا یہ دونوں کام نہیں کرے گا ۔

:::::::  آٹھ ( 8 ) ذی الحج میں کیے جانےوالے کام :::::::  

:::::::   جِس طرح عُمرہ کے لیے احرام میں داخل ہو ا گیا تھا اُسی طرح حج کی نیت سے حالتِ احرام میں داخل ہو ا جائے گا ، حج کے لیے آنے والے لوگ مکہ یا اُسکے اِرد گرد جہاں بھی ٹھہرے ہوں وہیں سے حالتِ احرام میں داخل ہوں گے،حتی کہ مکہ والے بھی مکہ سے ہی احرام میں داخل ہوں گے ، مکہ سے نکل کر کِسی بھی اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔صحیح البُخاری/حدیث1524،صحیح مُسلم/ حدیث1181 ، 1183 ۔
 :::::::   حالتِ احرام میں داخل ہو کر ظہر تک منیٰ پہنچا جائے گا ، اور ظہرعصر مغرب عِشاءَ اور نو ذی الحج کی فجر منیٰ میں ہی ادا کرنا ہے ، اِن میں سے جو نمازیں قصر کی جا سکتی ہیں وہ قصر کرکے ادا کی جائیں گی ۔
 :::::::   نمازوں کے علاوہ وقت کو بھی اللہ کے ذِکر میں ، اور تلبیہ کہتے ہوئے گزارا جائے گا (صحیح مُسلم/ حدیث 1218)فالتو باتیں کرتے ہوئے ، کوئی کھیل کھیلتے ہوئے یا آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے نہیں ،اور مِنیٰ میں قیام کے دوران با جماعت نماز کی ادائیگی کا خا ص اہتمام کیا جائے ، اگر آسانی سے مُیسر ہو تو مسجد خیف میں جا کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائے ۔

:::::::  نو ( 9 ) ذی الحج میں کیے جانے والے کام :::::::  

 :::::::   نمازِ فجر ادا کر کے سورج نکلنے کے بعد مِنیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوا جائے گا ، اِس سے پہلے مِنیٰ سے نکلنا درست نہیں ، اور مِنیٰ سے عرفات جاتے ہوئے ، تلبیہ ، تکبیر اور تہلیل کُچھ بھی پڑھا جا سکتاہے ۔ صحیح البُخاری /حدیث 1659 ، 1663،
 :::::::   منیٰ کے قریب نمرہ میں رکا جائے گا ، نمرہ عرفات کے قریب دائیں طرف ایک جگہ ہے ، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں ایک بستی آباد تھی( منسک ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ
 :::::::   زوال کے بعد نمرہ سے نکل کر عُرنہ پہنچ کر اِمام کا خطبہ سننے کے بعد ظہر اور عصر ایک اذان اور الگ الگ اقامت کہہ کر ، جمع اور قصر کر کے پڑہی جائیں گی ، اس کے بعد عرفات میں داخل ہوا جائے گا ،
شیخ الاسلام  اِمام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ  کا کہنا ہے کہ """ رش یا کِسی اور جائز سبب کی وجہ سے اگر کوئی نماز سے پہلے ہی عرفات میں داخل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ، اِن شاءَ اللہ"""۔
خیال رہے کہ  عُرنہ وہ جگہ ہے جو مشعرِ حرام اور عرفات کے درمیان اور عرفات کی حدود کے بالکل قریب ہے جہاں آج کل ایک مسجد ہے جِس کا اگلا حصہ عُرنہ میں اور پچھلا حصہ عرفات میں ہے ،اکثر لوگ غلطی کرتے ہوئے  اِس مسجد کے اگلے حصے میں بیٹھ کر اپنا قیامِ عرفات مکمل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ عرفات کی حُدود میں ہیں ، جب کہ وہ عرفات سے باہر ہوتے ہیں، گو کہ سعودی حکومت کی طرف سے اِن تمام مقامات کی حدود کی بڑی واضح نشاندہی کی جاتی ہے ،مختلف زبانوں میں لکھے ہوئے بورڈز آویزاں ہوتے ہیں ،  اور ز ُبانی طور پر بھی وہاں موجود لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ لوگ صِرف اپنی ضِد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنا حج خراب کر لیتے ہیں۔
 :::::::   رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے عرفات کے تقریباً درمیان میں واقع جبلِ رحمت نامی پہاڑ کے قریب چٹانوں کے پاس قیام کیا اور قبلہ رُخ ہو کر دُعا کرتے رہے ۔ (صحیح مُسلم (1218،
اچھی طرح سے یاد رکھیے گا کہ اِس پہاڑ پر چڑہنا اور اِس کے اُوپر جا کر دُعائیں کرنا یا نماز پڑہناوغیرہ  سب کام خِلافِ سُنّت ، یعنی بدعت ہیں ۔
 :::::::   عرفات میں داخل ہو کر کِسی بھی جگہ قیام کیا جا سکتا ہے ۔صحیح مُسلم/ حدیث1218،سُنن النسائی/حدیث3015 ۔
 :::::::   حج کرنے والا اِس دِن روزہ نہیں رکھے گا ۔ سُنن النسائی/حدیث 3004، ابو داؤد /حدیث 2419 ، الترمذی / 773۔
 :::::::   مغرب تک اللہ تعالیٰ کے ذِکر اور اُس سے دُعا میں مشغول رہنا ہو گا ، سورج غروب ہو جانے کے بعد عرفات سے نکلنا ہو تاہے اگر کوئی مغرب سے پہلے عرفات کی حدود سے نکل گیا تو اُ س کا قیام پورا نہیں ہو گا اور اِسی طرح  عرفات کی حدود سے باہر رہنے سے قیامِ عرفات نہیں ہوتا اور قیام نہ ہونے سے حج نہیں ہوتا ۔سُنن ابو داؤد /حدیث 1949 ،سُنن النسائی /حدیث 3016، الترمذی/ حدیث 889 ۔
 :::::::   سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے نکل کر بڑے اطمینان اور سکون سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوا جائے گا جلد بازی کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نےمنع فرمایا ہے ۔ صحیح البُخاری/حدیث 1671۔
 :::::::   مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عِشاءَ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑہی جائیں گی جیسا کہ ظہر اور عصر پڑہی گئی تِھیں ۔ صحیح البُخاری /حدیث 1672 ۔
 :::::::   یاد رہے کہ قصر کرتے ہوئے بھی مغرب کی تین رکعت ہی پڑہی جائیں گی ، اِن میں کمی نہیں کی جاسکتی ، اِسکے بعد کوئی اور نماز نہیں پڑہی جائے گی ، نہ کوئی نفل اور نہ ہی کوئی سُنّت بلکہ اِس رات میں اور اِس مقام پر سُنّت یہ ہے کہ مغرب اور عِشاءَ کو جمع اور قصر کر کے ادا کرنے کے بعد سویا جائے ۔ صحیح البُخاری /حدیث 1672 ، 1673 ، 1675 ۔
:::::::  دس ( 10 ) ذی الحج میں کرنے کے کام :::::::
 :::::::   فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد مشعر الحرام نامی پہاڑ پر کُچھ اُوپر چڑھ کر تکبیر ، تہلیل ، تلبیہ اور دُعا کی جائے گی ، جب سورج نکلنے سے پہلے سُفیدی اچھی طرح پھیل جائے تو پھر وہاں سے منیٰ کی طرف روانہ ہوا جائے گا ۔ صحیح البُخاری/ حدیث 1684 ، صحیح مُسلم /حدیث1218۔
 :::::::   مزدلفہ کی طرف روانگی اور مِنیٰ سے مزدلفہ تک کا راستہ بھی اطمینان اور سکون سے طے کیا جائے گا ، سوائے مِنیٰ کے قریب آنے والی ایک جگہ وادی مُحسِّرکے ، اِس جگہ کو جلد از جلد پار کرنا ہوتا ہے اور شیطان کو مارنے کے لیے پتھر بھی اِسی راستے میں سے چُن لیے جائیں گے یہ پتھر چنے کے برابر ہونا چاہیں ، نہ بڑے اور نہ چھوٹے ۔ سُنن  النسائی/ حدیث 3059 ، ابن ماجہ /حدیث 3029 ، مُسند ابو یعلی /حدیث 2467 ، مُسند احمد/ حدیث 1851 ، مُستدرک الحاکم /حدیث 1711۔
 اِن پتھروں کو دھونا ، اِن کا وضو کروانا اِنہیں کلمہ پڑھ کر پاک کرنا، اور اِسی طرح کے دیگر کام، سب  ہی خِلافِ سُنّت، یعنی بدعات ہیں ۔
 :::::::   بوڑہے ، معذور لوگوں اور عورتوں کے علاوہ سورج نکلنے سے پہلے پتھر مارنا منع ہے ۔سُنن الترمذی /حدیث 960 ، سُنن الدارمی /حدیث 1885 ، 1886 ،مُستدرک الحاکم/ حدیث 1723۔
 :::::::   بوڑہے لوگ یا عورتیں اگر چاہیں تو فجر سے پہلے رات کے کِسی حصے میں مِنیٰ روانہ ہو سکتے ہیں ، اور وہاں پہنچ کر پتھر مار سکتے ہیں ۔ صحیح البُخاری /حدیث 1676 تا 1681 ۔
 :::::::  :::::::   مِنیٰ میں داخل ہو کر سب سے پہلے جمرۃ العقبۃ(بڑے شیطان)کو پتھر مارے جائیں گے ، بڑا شیطان وہ ہے جو مکہ کی طرف سے پہلے آتا ہے ، پتھر مارتے ہوئے ہر پتھر کے ساتھ صِرف """ اللہ اکبر """کہا جائے گا اور کُچھ نہیں ،پہلا پتھر مارنے کے بعد سے تلبیہ روک دِیا جائے گا ۔صحیح البُخاری /حدیث 1685 ، 1686۔
 :::::::   دس ذی الحج کو صِرف جمرۃ العقبۃ(بڑے شیطان)کو پتھر مارنے ہوتے ہیں دوسرے دو جمرات کو نہیں ۔
 :::::::   پتھر مارنے کے بعد حاجی پر ہر وہ چیز جو حالتِ احرام میں حرام تھی حلال ہو جاتی ہے سوائے بیوی کے ، لہذا وہ اپنے کپڑے تبدیل کر سکتا ہے۔ ابو داؤد /حدیث 1997 ، صحیح ابن خزیمہ /حدیث 2940 ۔
 :::::::   پتھر مارنے کے بعد قُربانی کی جائے گی ، قُربانی کے بعد سر مُنڈوایا جائے گا ، یہ تینوں کام اِس ترتیب سے کرنا سُنّت ہے اور یقیناً بہتر یہی ہے کہ اِس ترتیب کے مُطابق کیئے جائیں لیکن اگر ترتیب برقرار نہ رہے تو بھی کوئی گُناہ نہیں ۔ صحیح البُخاری /حدیث 1721 ، 1722 ، 1723 ۔
 :::::::   اِس دِن مغرب سے پہلے پہلے طوافِ اِفاضہ کیا جائے گا جو شخص مغرب سے پہلے طوافِ اِفاضہ نہ کر سکا تو وہ اپنا لباس بدل کر احرام والا لباس پہنے گا اور پھر سے حالتِ احرام میں داخل ہو جائے گا ، جیسے کہ وہ پتھر مارنے سے پہلے تھا ، اور احرام کی ہر پابندی اُس پر لاگو رہے گی ، جب تک وہ طوافِ اِفاضہ نہیں کرتا۔ ابو داؤد /حدیث 1997، صحیح ابن خزیمہ /حدیث 2940۔
 :::::::   طوافِ افاضہ میں تمتع کرنے والا کعبہ کا طواف بھی کرے گا اور صفا اور مروہ کی سعی بھی ، قِران اور اِفراد کرنے والے نے اگر طوافِ قُدُوم کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی بھی کی ہو تو پھر طوافِ افاضہ میں کعبہ کا طواف کافی ہے ۔
 :::::::   حجِ اِفراد کرنے والے پر قُربانی  فرض نہیں ہے، لیکن اُسے بھی دوسرے حاجیوں کی طرح، یعنی دوسری اِقسام کے حج کرنےو الوں کی طرح  طوافِ اِفاضہ کرنا ہوتا ہے ۔
 :::::::   طوافِ افاضہ اِس دِن میں کیے جانے والا آخری کام ہے ، دِن کا باقی وقت مِنیٰ یا حرم میں اللہ کی عبادت بسر کیا جائے گا ، اگر طوافِ افاضہ اِس دِن میں نہ کیا جاسکے تو بعد میں کِسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے لیکن اُس وقت تک مکمل طور پر حالتِ احرام میں رہنا ہوگا ، جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے ۔
:::::::  گیارہ (11)سے تیرہ (13)ذی الحج تک کے کام:::::::
::::::: ایامءِ تشریق  :::::::
گیارہ سے تیرہ ذی الحج کے دِنوں کو ایامِ تشریق کہا جاتا ہے ، اِن دِنوں کو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مِنیٰ میں گُزارنا ہوتا ہے ، دِن کے وقت مِنیٰ سے نکلا جا سکتا ہے ، لیکن رات مِنیٰ میں ہی گزارنی ہو گی ،بغیر کِسی شرعی عُذر کے مِنیٰ کی حدود سے باہر رات گزارنا دُرُست نہیں ہے ، لہذا اِس چیز کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ بغیر کسی شرعی عُذر کے آدہی رات سے لے کر فجر تک مِنیٰ کی حدود سے باہر نہ رہا جائے ۔
 :::::::   اِن دِنوں میں ہر دِن تینوں  جمرات (شیطانوں )کو پتھر مارنا ہوں گے پہلے چھوٹے کو ،
اور اُس کا طریقہ یہ ہے کہ مِنیٰ سیدہے ہاتھ کی طرف رہے اور مکہ اُلٹے ہاتھ کی طرف،
 پتھر مارنے کے بعد تھوڑا سا دور ہٹ کر قبلہ رُخ ہوکر دُعا کی جائے گی ، پھر اِسی طرح درمیانے اور پھر بڑے شیطان کو پتھر مار کر دُعا کی جائے گی ، پتھر مارتے ہوئے ہر پتھر کے ساتھ صِرف تکبیر کہی جائے گی ، اور ہر شیطان کو صِرف سات پتھر مارے جائیں گے (صحیح البُخاری /حدیث 1751، 1752، صحیح مُسلم/ حدیث 1218
اور پتھر ظہر کی نماز کے بعد سے لے کر مغرب کے وقت سے پہلے مارنے ہیں ، اِسکے علاوہ کِسی اور وقت میں پتھر مارنے کی اجازت صِرف بوڑہے ، بیماریا کمزور لوگوں ، عورتوں یا کِوئی شرعی عذر رکھنے والے لوگوں کےلیے ہے،
اور یہ بھی خوب یاد رکھا جائے کہ رمی جمرات (شیطانوں کو پتھر مارنا)،صِرف پتھر مارنا ہے ، نہ کہ جوتے اور دُوسری چیزیں ، اور پتھر مارنے کے دوران کوئی دُعا ،کوئی ذِکر اذکار نہیں ہیں ، اور نہ وہاں اصل میں شیطان بندھا ہوتا ہے جو یہ خیال کیا جائے کہ یہ پتھر اُس کو لگ رہے ہیں ، اور نہ ہی گالی گلوچ اور فحش کلامی کی جانا چاہیے ،
 :::::::   اگر کوئی شخص مِنیٰ میں دو دِن رکنے کے بعد بارہ ذی الحج کو پتھر مار کر وہاں سے واپس آنا چاہے تو آ سکتا ہے لیکن اگر مغرب سے پہلے مِنیٰ سے خارج نہ ہوا تو پھر اگلے دِن یعنی تیرہ ذی الحج کو زوال ہونے کے بعد پتھر مارنے کے بعد مِنیٰ سے خارج ہو گا ۔
 :::::::   رمی الجمرات ، یعنی پتھر مارنے میں ، اُوپر بیان کی گئی ترتیب اور طریقے کا خیال رکھنا چاہیے ۔
:::::::  مکہ سے واپسی :::::::  
 :::::::   حج کے تمام مناسک ادا کرنے کے بعد اور اپنے دوسرے سارے کام نمٹانے کے بعد مکہ چھوڑنے سے پہلے سب سے آخری کام طوافِ وداع ہے ، یہ طواف کرنے سے پہلے حج کے اِرادے سے آئے ہوئے کِسی بھی شخص کو مکہ چھوڑنے کی اجازت نہیں،خواہ وہ مکہ مکرمہ کی قریبی بستی یا شہر سے ہی آیا ہو ، جی ہاں حیض والی عورت کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ طوافِ وادع کیے بغیر اپنے گھر کی طرف واپس جا سکتی ہے ۔ صحیح البُخاری/حدیث 1755، 1761، صحیح مُسلم/حدیث 1327، 1328۔
 :::::::   مکہ المکرمہ کے مکین،  یاجدہ اور دیگر قریبی شہروں اور بستیوں سے آنے والے اکثر یہ کہتے ہوئے  سُنائی دیتے ہیں کہ ہم تو اہلِ میقات ہیں ہمارے لیے طوافِ وداع ضروری نہیں ، اور کُچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شِکار ہوتے ہیں کہ ہم کِسی اور وقت آ کر طوافِ وداع کر سکتے ہیں ، دونوں ہی خیال اور کام سراسر غلط ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی خلاف ورزی ہیں ۔
 :::::::   طوافِ وداع صِرف حج کے اِرادے سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے ہے ، عُمرہ والوں کے لیے نہیں ، مکہ کے رہنے والوں کے لیے نہیں ، یا روز گار کے سلسلہ میں مکہ یا مکہ کے قریب آ کر رہنے والوں کے لیے نہیں ، جیسا کہ عموماً جدہ ، مدینہ طائف وغیرہ میں رہنے والے اپنے وطن واپس یا چُھٹی جاتے ہوئے طواف وداع کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور یہ طواف کرتےبھی ہیں ۔
 :::::::  حج کے تمام تر مناسک مکہ ، مِنیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں ادا کیے جاتے ہیں ، حج کا کوئی منسک یا کوئی عِبادت یا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو مدینہ منورہ  میں ادا کیا جاتا ہو ، حتیٰ کہ مسجدِ نبی صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کی زیارت کا بھی حج سے کوئی واسطہ نہیں ، اگر کوئی شخص مسجدِ نبی صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کی زیارت نہ کرے ، یا مدینہ منورہ نہ جائے تو اُس کے حج میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ رہا مسجدِ نبوی کی زیارت کا معاملہ اور حج کے موقع پر یا ویسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کی قبر مُبارک کی زیارت کا معاملہ تو وہ ایک الگ موضوع ہے ، جِس کا ذِکر """زیارتِ مدینہ """والی مجلس میں کیا جا چکا ہے ،  وللہ الحمد۔
 :::::::  کُچھ لوگ ہر سال حج کرنے کے لیے غیر قانونی راستے اور ذریعے اپناتے ہیں ، اور اپنے ولی الامر کی نافرمانی کا گُناہ کمانے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مُشکلوں میں پڑتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی مُشکلات کا سبب بنتے ہیں ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ، لیکن ولی الامر کی اعاعت فرض ہے ، جب تک وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کی ، یا دونوں کی نافرمانی کا حُکم نہ دے ، اور حج کے بارے میں سعودی حکومت ، اُن کے ملک میں رہنے والے ہر شخص کو ہر پانچ سال بعد اجازت دیتی ہے اور ایسا کرنا بالکل ٹھیک ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے فرمایا(((((قال اللہُ ، اِنَّ عَبداً صَحَّحت ُ لَہ ُ جَسمَہ ُ ، وَ وَسَّعت ُ عَلیہِ فی المَعِیشَۃِ ، یَمضِی عَلیہِ خَمسَۃُ اَعوَامٍ لا یَفِدُ اِلَيَّ لَمَحرُومٌ ::: اللہ کہتا ہے ،جِس بندے کو میں نے جسمانی صحت دی ، اور اُس کے رزق کو وسیع کیا ، اور اِس حالت میں اُس کے پانچ سال گذرے ، اور وہ میری طرف نہیں آیا تو یقینا وہ محروم ہے)))))صحیح ابن حبان/حدیث 3695،کتاب الحج/باب فضل الحج و العُمرہ ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 1662 ،
لہذا ہمیں غیرقانونی اور غیر شرعی راستے پر چلتے ہوئے کِسی گُناہ اورپریشانی میں پڑنے کی بجائے قانونی اور شرعی راستہ اپنانا چاہیے۔
طوافِ وداع کرنے کے بعد حج کے تمام اعمال مکمل ہو جاتے ہیں اور حج پورا ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ،آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 03/12/1430ہجری ، بمُطابق،20/11/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 05/11/1435ہجری ، بمُطابق ، 31/08/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔