Saturday, November 2, 2013

::: وقت کی اہمیت ::: نئے سال کا استقبال ::: Importance of time,,,New year celeberation

 
بِسمِ اللہ الرّحمٰن الرّحیم و الصَّلاۃ   ُوالسَّلام ُعَلیٰ رسولہِ الکریم مُحمد
::::::: وقت کی أہمیت  :::::::
:::::: نئے سال کا استقبال  اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے  ::::::
:::::: نئے سال کو کچھ اس طرح بھی گذاریا جا سکتا ہے ::::::
ہم مسلمانوں کا قمری  اِسلامی نظامء تاریخ  جو کہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی ہجرت سے مربوط ہے ، اُس نظامء تاریخ کے مطابق نیا سال شروع ہو نے والا ہے  ، ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو کچھ مجبوریوں کے تحت ،اور کئی ایسے ہیں جو کچھ مالی اور تجارتی لالچ کے تحت ، اور  کئی ایسے ہیں جو محض دیکھا دیکھی اور دُنیاوی رَسم و رِواج کے لیے اپنے اِسلامی نظامء تاریخ  کو چھوڑ کر عیسائیوں  کے بنائے ہوئے نظامء تاریخ  کے مطابق اپنے  دِن، مہینے  اور سال چلاتے ہیں ، اور مناتے ہیں ،
ہمارے ذہنوں ( دِماغوں ) میں """وقت کی أہمیت """کے اَحساس اور شعور کو  ختم کرنے  کے بنیادی اسباب میں سے ہماری اِسلامی تعلیمات دُوری اور اغیار سے مرعوبیت کی وجہ سے"""ٹائم کِلنگ Time Killing""" نامی بیماری بھی ہے ، 
میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے کیا  دُرُست ہے اور کیا غلط؟ اور مُسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کیا اپنانا چاہیےاور کیا نہیں ؟ بلکہ"""وقت کی أہمیت"""کے مد نظر اپنے سامنے آنے والےوقت کے ایک نئے بڑے حصے یعنی نئے سال کے اِستقبال اور اُس سال  کو اِستعمال کرنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، 
 مُسلمانوں کے نظامء تاریخ کے حساب سے  سالء نو ہو یا عیسائیوں کے نظامء تاریخ  کے حساب سے ، یا کسی جگہ رہنے والے لوگوں کے کسی اور نطامء تاریخ کے حساب سے ، اِس وقت میں صرف  اِس طرف توجہ دلوانا چاہتا ہوں کہ ختم ہونے والے سالوں کو رخصت کرنے اور آنے والے یا شروع ہو چکے نئے سالوں کو خوش آمدید کہنے کے سلسلے میں ہم لوگ جو کچھ کرتے ہیں کیا اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی ہے !!! ؟؟؟
ہماری زندگیوں کے وقت میں سے وقت کی ایک بہت بڑی اکائی گذر جانے کے بعد اور ویسی ہی ایک آنے والی نئی اکائی کی آمد کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں ،ہماری زندگیوں میں عملی طور پر اُن کی کیا قدر و قیمت تھی اور ہے اور ہو گی ؟؟؟
ہمارے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں یہ ہماری زندگی گذارنے کے لیے کائنات کے سب سے بہترین نمونہ ء زندگی کی خبر عطاء فرمائی ہے کہ (((((لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا :::تم  لوگوں کے لیےاللہ کے رسول(کے افعال و اقوال مبارکہ)میں بہترین نمونہ ہے(لیکن یہ )اس کے لیے جسے اللہ سے ملنے اور آخرت کے دِن کے واقع ہونے کا یقین ہو اور اللہ کا ذِکر کثرت سے کرتا ہو ))))) سُورت الاحزاب(33)/آیت 21،
ان شاء اللہ ہم سب اُن میں سے ہوں گے جن کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور کاموں میں بہترین نمونہ ہوتا ہے ، پس اِسی بہترین نمونے میں سے ، آپ سب محترم قارئین کے سامنے """وقت کی أہمیت"""کے بارے میں ایک دو  مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں ،
سب سے پہلے تو میں اپنے اِسلامی سال کے آغاز کی نسبت سےاِس طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ ہم اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں سے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی ہجرت مبارک جس کی نسبت سے ہماری اِسلامی تاریخ چلتی ہے ، اُس ہجرت سے ملنے والے أسباق میں سے ایک أہم سبق """وقت کی أہمیت"""پر ایک نظر کرتے چلیں ، کہ،،،
 اُس ہجرت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کس قدر محنت اور جانفشانی سے اللہ جلّ و عُلا  کے دِین کے لیے ایک ایک لمحے کو استعمال فرمایا ، ہر تکلیف اور ہر دُشمنی کو برداشت کرتے ہوئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ، ہر گذرتی ہوئی آن میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے مشغول رہے ، نہ گذرے ہوئے لمحات کا سوگ منایا اور نہ آنے والے لمحات کی خوشی ، بلکہ عملاً یہ سبق سکھایا کہ گذرے ہوئے وقت کے بارے میں  یہ سوچو کہ کیا کر چکے ہو، اور اس کا کیا نتیجہ ہے؟اور گذرتے ہوئے ہر لمحے کے بارے میں یہ خیال رکھو کہ کیا کر رہے ہو اور اس کا کیا نتیجہ ہے؟اور آنے والے وقت میں ایسا کیا کیا جانا چاہیے جو ہمارے لیے دنیا اور آخرت کی خیر اور کامیابی کا سبب بن سکے ،
اللہ  سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اپنے خلیل رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حکم دیا (((((يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ o قُم ْفَأَنذِرْ  o ورَبَّكَ فَكَبِّرْ o وثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ::: اے کپڑا لپیٹ کر لیٹنے والے o  اٹھ کھڑے ہو اور (لوگوں کو) خبر دار کرو  o اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو o اور اپنا کپڑا پاکیزہ کرو)))))) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دِن رات اپنے رب کے دِین کی دعوت میں صرف کرنا شروع کر دیا ، اعلانیہ طور پر اور خُفیہ طور پر ، دِن میں، رات میں ، فرد  فرد کو ایک ایک کر کے ، میلوں ٹھیلوں میں ، بازاروں میں ، مجلسوں میں ،  ہر جگہ اللہ کے حکم پر عمل پیرا رہے ، یعنی ہر ایک لمحے کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ، اللہ کے دِین کی خدمت کے لیے ، اپنے رب کی رضا کے مطابق اِستعمال کیا ، اور ساری زندگی اِسی طرح بسر فرما کر دُنیا سے رُخصت فرمائی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِس تربیت کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر سب سے پہلے اِیمان لانے والے أبو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُنے بھی اپنا لیا اور اُسی تن دَہی سے اپنے وقت کو اِس طرح استعمال کرنا شروع کر دیا جس میں اُن کی آخرت کی خیر ہی خیر ہو ،
 دیکھیے کہ أبو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  کی دعوت سے  عُثمان بن عفان ، طلحہ بن عبید اللہ ، اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا تاج پہننا نصیب فرمایا ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو دا  ر أرقم میں تعلیم و تربیت دینا شروع فرما دی ، جس میں سب ہی ایسے عقائد کی تعلیم اور ایسے اعمال کی تربیت تھی جو سوائے فائدے اور خیر کے کسی اور نتیجے کا سبب نہیں ہو سکتی ، 
پس اُن کے سامنے وقت کی قدر و قیمت اِس قدر بڑھ گئی کہ وہ اپنے أوقات کو زیادہ سے زیادہ ایسے کاموں میں لگائے رکھتے تھے ،  اِس تربیت کے مطابق وہ اپنے سامنے آنے والے نئے محدود  وقت کی آمد پر خوشیاں منانے  کی بجائے ، آنے والے لا محدود وقت یعنی آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے غم میں رہتے ،
 رقص و سُرود کی محفلیں سجانے  کی بجائے ، اللہ کے ذِکر اور اللہ کے دِین کی تعلیم و تربیت کی محفلیں سجاتے ،
ایک دوسرے کو خوشیوں کے پیغام دینے، اور کھیل کود میں مست ہونے  کی بجائے ایک دوسرے کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے اللہ کی تابع فرمانی پر قائم رہتے ہوئے زندگیاں بسر کرنے کی تلقین کرتے ،
عارضی مستقبل کی طرف ان کی توجہ صرف اتنی ہی ہوتی کہ اپنےدائمی مستقبل کو ہمیشہ کے لیے روشن بنانے کے لیے اس عارضی مستقبل کو کیسے اِستعمال کریں؟؟؟
 مُستقبل کی اِسی منصوبہ بندی کے مطابق وہ لوگ اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت میں اپنے گھر بار ، رشتے اور خاندان چھوڑ کر انجان علاقوں  اور اجنبی لوگوں میں جا بسے، اور اُس محبت اور تابع فرمانی ، صداقت و جرأت کی بے مثال،داستانیں اپنے خون سے رقم کرتے چلے گئے ، رضی اللہ عنہم و أرضاھم،
اور ہمارے ہاں وقت کی قدر و قیمت اتنی ہی ہے کہ اُسے کس طرح ہنسی مذاق اور کھیل کود میں صرف کر دیا جائے ، معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا جائے تو ایک بوجھ سمجھ کر ، دینی فرائض  کے لیے وقت نکالنا تو  ایک خوابء پارینہ سی چیز ہو چکی ہے ، اور اضافی طور پر یعنی نفلی طور پر  اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رضا مندی کے کام تو ایک لا شعور میں بسنے والا ایک  خیال ساہو چکے ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ۔  
قارئین کرام ، میر ی اِن گذارشات پر برُا مت منایے گا ، اور نہ ہی انہیں تنگ نظری ، قدامت پرستی اور مولویت کے غِلافوں میں  لیپٹ کر پرے ہٹایے گا ،  میں اِن سب کمزرویوں کا ذِکر اپنی ذات کو شامل کر کے کر رہا ہوں ،   
آیے، آنے والے نئے سال پر خوشیاں منانے اور اس کے بارے میں منصوبہ بندیاں کرنے سے پہلے گذرے ہوئے سال میں اپنے کیے ہوئے پر کچھ دیر کے لیے نظر کرتے ہیں کہ یہ ایک سال جو ہماری زندگیوں میں کم ہو گیا ، اور ہمیں موت کے ایک سال قریب کر گیا ، اِس دُنیا کے عارضی قیام کی مدت میں سے  لگ بھگ تین سو پچپن دن کم ہو گئے اور مستقل زندگی والی آخرت کے قریب ہوگئے ،
:::::  ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ پر  ذرا غور تو کریں  کہ عارضی قیام گاہ کے لیے کیا کچھ کر ڈالا ؟؟؟ اور مستقل رہائش گاہ میں کیا مُقام بنایا ؟؟؟
::::: جس دِن کےگُذرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا اُس دِن کو آرام سے گذارنے کے لیے کیا  کیا کرتے رہے ؟؟؟ اور جس دِن کو گُذرنے میں پچاس ہزار سال لگنے ہیں وہ دِن گُذارنے کے لیے کیا کرتے رہے ؟؟؟ 
ایک دفعہ پھر  یاد دہانی کرواتا چلوں کہ یہ سوالات صرف کسی ایک فرد کے لیے نہیں ، مُجھ سمیت سب ہی کے لیے ہیں ، اور صرف  اِنفرادی جائزے کے لیے نہیں ، فردء واحد کی ذات سے لے کر اِسلامی اُمت کی ہربڑی چھوٹی اکائی تک، اور ایسی تمام اکائیوں پر مشتمل ساری ہی اُمت  کے اعمال کے بارے میں سوچنے کے لیے ہیں،
افسوس، صد افسوس کہ قومی حیثیت میں  اِن مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سوائے خجالت اور شرمندگی کے کچھ اور نہیں دِکھاتے ،
لیکن سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا ہی چاہیے کہ  واقعہ یہی ہے کہ اب صدیوں سے  ہم بحیثیت مُسلمان قوم دِینی تو دِینی دُنیاوی لحاظ سے بھی کوئی قابل فخر کام نہیں کر پائے ،
 سوائے گمراہی، ذِلت، جھوٹی سچی بدنامی اور اِسی قبیل کی دوسری صفات کے اور کیا کمایا ہے ؟؟؟
اپنے رب اللہ جلّ جلالہُ  پر توکل چھوڑا ،،، غیر اللہ پر توکل کیا ،
اپنے اِیمان والے مُسلمان بھائیوں ، بہنوں سے نفرت کی ،،،معلوم شدہ منافقوں ، غیر مسلموں ، مشرکوں اور  کافروں سے دوستیاں اور محبتیں بڑھائیں ،
اپنے اوقات ، اپنے وسائل سب ہی کچھ صرف اپنی ہی ذات، اور اُس سے متلعق لوگوں اور معاملات  کے لیے اِستعمال کیے ،،، اللہ تبارک وتعالیٰ  کے لیے کچھ اِستعمال نہیں کیا ،
اور نتیجہ ،،،،،،یہ ہے کہ ،،،،،
 جس حال میں یہ دوڑ شروع کی تھی اُس سے زیادہ أبتر حالت میں آج بھی نکتہءآغاز کے قریب ہی  اُچھل پھاند رہے ہیں ،
ہم نے اپنے أوقات  کمزور بلکہ کمزور ترین اِیمان ،نافرمان، بے ایمان،مُطیعءشیطان اورمشغولء عصیان مخلوق کی خوشی اور محبت حاصل کرنے کے لیے خالق کی نافرمانی میں  اِستعمال کیے اور کیے چلے جارہے ہیں ، اور نئے آنے والے اوقات کے بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ محنت کا ارادہ رکھتے ہیں کہ ایسی مخلوق کو خوش کر کے ہی رہیں گے ، پچھلی ساری محنت اور خدمات کے بدلے میں ہم ابھی تک اس قابل بھی نہیں ہوئے کہ اپنی ایک  مظلوم بہن، ایک بیٹی  کو ہی اپنے آقاؤں سے واپس لے لیتے
معاشی بحران ، معاشرتی انحطاط،اخلاقی فقر ،دُنیا کی ذِلت اور آخرت کی تباہی،،،،، یہ کچھ کمانے پر ہمیں خوش ہونا چاہیے !!! ؟؟؟
اور پھر یہی کچھ کمانے  کے لیے اپنی زندگیوں میں  آنے والے نئے وقت کی آمد پر خوشیاں منانی چاہیں ؟؟؟
یا اپنے گذرے ہوئے وقت کے نقصانات کو جان کر پہچان کر آنے والے وقت میں بھی اُن نقصانات  یا اُن جیسے دیگر نُقصانات سے بچنے کی سوچ رکھتے ہوئے اپنے حال کو سدھارنے کے لیے کام کرنا چاہیے ؟؟؟
کیا ہم وہی لوگ نہیں جو اللہ پر ، اُس کی آخری مکمل ترین اور محفوظ ترین  کتاب قران الکریم پراِیمان رکھنے کے دعویٰ دار ہیں ؟؟؟
اور کیا ہم وہی قوم نہیں جنہیں اللہ نے جو ایک اکیلا لا شریک سچا اور حقیقی معبود ہے،اِسی اللہ نے  اپنی اِسی کتاب میں یہ سمجھایا ہے کہ (((((يَا أَيُّهَا الَذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ ولا أَوْلادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ومَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الخَاسِرُونَ o وأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَّرْتَنِي إلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ o  ولَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْساً إذَا جَاءَ أَجَلُهَا واللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ:::اے اِیمان لانے والو، تُمہارا مال اور تُمہاری اولاد تُم لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے اور (یاد رکھنا کہ)جو کوئی بھی ایسا کرے گا (تو)وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہوں گے o اور جو کچھ ہم نے تم لوگوں کو رزق دِیا  ہے اُس میں سے خرچ کرو اِس سے پہلے کہ تُم لوگوں میں سے کسی(ایسے ہی غافل )کی موت آجائےتو(پھر  اُس وقت )وہ کہنے لگے ، اے میرے رب تُو نے مجھے تھوڑا سا وقت اور کیوں نہیں دیا کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں شامل ہو جاتا o اور(حق یہ ہے کہ ) جب کسی کی موت آجاتی ہے تو پھر اللہ اسے ہر گز کوئی مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کی خوب اچھی طرح خبر رکھتا ہے)))))سورت المنافقون(63)/آیات 9 تا 11،
اِن مذکورہ بالا آیات شریفہ میں ہمیں اپنے اوقات کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچنے کی تربیت دی گئی ہے اور اپنے اوقات کو اِستعمال کرنے کے  مثبت طریقے سکھائے گئے ہیں ،
اِس کے عِلاوہ دیگر آیات شریفہ میں ہمارے رحمٰن و رحیم روؤف و کریم  اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا دِیا ہے  کہ آنے والے وقت  میں اُسی کے مطابق ملے گا جو کچھ ہم نے  اُس آنے وقت سے پہلے  گذرے ہوئے وقت میں کِیا ہو گا :::
(((((وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ:::اور یہ (ہی حق ہے )کہ انسان کو اس کی کی ہوئی کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں ملے گا)))))سورت النجم(53)/آیت 39،
اور ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ آنے والا وقت اُسی کے لیے خوش کُن ہو گا جس نے اُس وقت کے لیے گذرے ہوئے وقت میں کچھ ایسا کیا ہو گا جو اُس آنے والے میں وقت  اُس کے لیے خوشیوں کا سبب بن سکے :::
(((((و َ  قِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ  قَالُوا خَيْرًا  لِّلَّذِينَ  أَحْسَنُوا  فِي  هَذِهِ  الدُّنْيَا  حَسَنَةٌ  وَ لَدَارُ  الْآخِرَةِ   خَيْرٌ  وَ لَنِعْمَ   دَارُ الْمُتَّقِينَ:::اور  پرہیز گاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تُمہارے رب نے کیا اُتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ، بہت اچھا ۔ جن لوگوں نے نیک  کام کیے اُن کے لیے  اس دُنیا میں (بھی)بہترین(بدلہ)ہے اور(اُن  نیک کام کرنے والوں کے لیے) آخرت والا گھر بہتر ہے ہی ،  اور(آخرت میں )تقویٰ والوں (پرہیز گاروں)کا گھر بہت ہی بہترین  ہے)))))سورت النحل(16)/آیت 30،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے ذریعے  ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ ماضی کے کاموں کا مُستقبل پر اثر انداز ہونا صِرف دُنیا کے کاموں کے آخرت پر اثر انداز ہونے تک محدود نہیں ، بلکہ دُنیا میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مشیئت اور قضاء کے مُطابق ایسا ہوتا ہے ،  
اِس کے عِلاوہ ہمارے رب کریم اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں  یہ بھی بتا دیا کہ ہم  جس مقصد سے جو کچھ کریں گے اس مقصد  کے مطابق اُس کام کا نتیجہ پائیں گے (((((مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ :::جو شخص آخرت کی کھیتی (حاصل کرنا )چاہتا ہے (تو) ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ دیں گے اور جو کوئی دُنیا کی کھیتی چاہتا ہو گا (تو)ہم  اُسے اُس(دُنیا )میں سے ہی دیں گے اور اس کے لیے آخرت(کی خیر ) میں کوئی حصہ نہ ہوگا)))))سورت الشوریٰ(42)/آیت 20،
اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِن سب فرامین مبارکہ کی روشنی میں اللہ کے حکم سے ہونے والی وحی  کے مطابق ،  صاحب القران  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی ہمیں یہ سمجھاتے اور سِکھاتے رہے کہ (((((نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ من الناس الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ ::: دو نعمتوں کے بارے میں لوگوں کی اکثریت غلط کاری کا شکار رہتی ہے (1)صحت اور (2) فراغت)))))صحیح البخاری/کتاب الرقاق کی پہلی حدیث ،
اور یہ تعلیم بھی فرما گئے کہ (((((اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ : شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ :::پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں سے فائدہ اُٹھا لو (1) تُمارے بڑھاپے سے پہلے تُمہاری جوانی (کا فائدہ اُٹھا لو)اور (2) تُمہاری بیماری سے پہلے تُمہاری صحت (کا فائدہ اُٹھا لو)اور (3)تُماری غُربت سے پہلے تُمہاری مالداری(کا فائدہ اُٹھا لو)اور(4) تُمہاری مشغولیت سے پہلے تُمہاری فراغت(کا فائدہ اُٹھا لو)اور (5) تُمہاری موت سے پہلے تُمہاری زندگی(کا فائدہ اُٹھا لو) )))))المستدرک الحاکم /حدیث 7846،صحیح الجامع الصغیر  1077،
اور صاحب القران صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیکھ سیکھ کر جو  اہل الذکر ہوئے ، حقیقی معنوں میں اہل القران ہوئے وہ ایک دوسرے کو یہ سمجھاتے رہے اور ہمارے لیے بھی یہ پیغام چھوڑ گئے کہ """"" إذا أمسيتَ فلا تَنتَظِر الصباحَ وإذا أصبحتَ فلا تنتظر المساءَ ، وخُذ مِن صحتكَ لِمرضك ومِن حياتكَ لِموتك :::تُم پر اگر شام آجائے تو صُبح کا انتظار مت رکھو اور اگر صبح ہو جائے تو اگلی شام کا انتظار مت رکھو ، اور اپنی صحت میں سے اپنی بیماری کے لیے حصہ لے لو ، اور اپنی زندگی میں سے اپنی موت کے لیے حصہ لے لو """""صحیح البخاری /کتاب الرقاق /باب3،
لیکن ہم پر اِن سب کا کچھ اثر نہیں ہوا ، اِنّا لِلّہِ و اِنّا اِلیہِ رَاجِعُون ،
 بلکہ ہم تو اِس قدر پکے سچے مُسلمان ہو گئے کہ ہم قران خوانی بھی دُنیا کمانے کے لیے ، نیک کہلوانے کے لیے ، اہل قران اور اہل اللہ ظاہر ہونے کے لیے اور اپنے مُردوں کو  بخشوانے کا سرٹیفائیڈ نسخے کے طور پر کرنے لگے  ، اور اِس کے عِلاوہ بھی  ایسے کاموں میں اپنے اوقات کو ضائع  کرتے ہیں چلے آ رہے ہیں جو کہیں تو دِینی اور اُخروی لحاظ سے تباہ کُن ہیں ، اور کہیں دُنیاوی لحاظ سے  بھی ،  اِنہی کاموں میں سے ایک کام نئے سال کی آمد پر ، اُس سال کا اِستقبال کرنے ، اور گذرے ہوئے سال کو رُخصت کرنے کے نام پر کیے جانے والے کام ہیں ،
پچھلے سال کو رُخصت کرتے ہوئے ، نئے سال  کا اِستقبال کرتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی پر مشتمل خوشیاں مناتے ہوئے ، اور کہیں اِس کو اِسلامی رنگ روپ دیتے ہوئے ، ایک دوسرے کو مُبارک باد دیتے ہوئے ، اپنے مُسلمان بھائیوں اور بہنوں سے گذارش کرتا ہوں کہ ،پچھلے سال  پر بھی نظر کرتے چلیے کہ،،،،،
:::::  اِس سال میں ہمارے اپنے پیاروں ، رشتہ داروں دوستوں یاروں میں سے کس کس کی صحت رخصت ہو گئی،
::::: کس کس کی مالداری یا مالی خوش حالی ہوا ہو گئی اور وہ غربت یا مالی تنگی کا شکار ہوا بیٹھا ہے ، 
::::: کس کس کی فراغت رخصت ہوگئی اور اب وہ نیک کام کرنے کے لیے دُنیا اورآخرت کے فائدے والے کام کرنے کے لیے تڑپتا ہے ،
:::::  کس کس کی زندگی کے گلستان کو موت کی آندھی تاراج کر گئی ، دُنیا کی چمچماتی ، جِھلملاتی رنگینیوں سے نکال کر اسے قبر کے خوفناک اندھیروں میں دھکیل گئی ،
اس کے ساتھ یہ بھی  سوچیے کہ اگر کِہیں  اس نئے سال میں آپ بھی اُن میں سے کسی جیسے ہونے والوں میں ہوں تو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اور سوچیے کہ ،،،،،،،،،،،،،،،،
::::: نیا سال آیا تو ہے ، لیکن ایک سال گذرا ہے تو یہ نیا سال آیا ہے ،
::::: اب اس کے بعد کوئی نیا سال ہماری زندگیوں میں آئے گا یا نہیں ،
::::: اس نئے سال کی خوشیاں منانا تو تب ہی درست ہو گا جب گذرے ہوئے سالوں میں اپنے کاموں کا جائزہ لینے کے بعد خوش ہونے والی کوئی بات دکھائی دے اور یہ اُمید رکھی جائے کہ اِن شاء اللہ اس نئے سال میں گذرے ہوئے سالوں سے بڑھ کر ، دِین  دُنیا اور آخرت کی خیر اور نیکی والے کام کیے جائیں گے ،
اگر ہم اپنے گذرے ہوئے وقت میں اپنے اعمال کا کڑی تنقیدی نظر سے جائزہ نہیں لیں گے تو یقین جانیے کہ آنے والے نئے اوقات سے بھی ہم کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکیں گے بلکہ گذرے ہوئے وقت کی طرح ہی انہیں بھی بلا فائدہ ، بلکہ عموماً نقصان والی حالت میں  کاٹ ڈالیں گے ،
جن لوگوں  کی نقالی میں ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیے بغیر گذرے ہوئے سال کوعموماً  اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی   نافرمانی کرتے ہوئے گذراتے ہیں اور پھر اُسی حالت میں اُس سال کو رُخصت کرتے ہیں اور اُسی طرح  آنے والے نئے سال کا جشن مناتے ہیں ، کبھی اُن لوگوں کی عادات میں سے کسی اچھی بات کی طرف بھی توجہ دی ہے کہ وہ لوگ صرف جشن ہی نہیں مناتے بلکہ اپنے گذرے ہوئے وقت میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خوب اچھی طرح محاسبہ کرتے ہیں اور آنے والے وقت میں ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کی منصوبہ بندی  کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ، قطع نظر اِس کے کہ اُن کے ہاں اعمال کی درستگی یا نا درستگی کا معیار ہمارے اِسلام میں کیا حیثیت رکھتا ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم صرف اُنہی کاموں اور حرکات کو کیوں اپناتے ہیں جن میں ہمارے دِین، دُنیا اور آخرت کی ناکامی اور رسوائی ہی ہوتی ہے ،
دِینی زوایہ نظر سے دیکھنے کے علاوہ اگر ہم دُنیاوی اور تاریخی زوایہ نظر سے بھی دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ امریکہ نے جاپان پر اٹیم بم گرا کر اور اس پر اقصادی پابندیاں لگا کر گویا اُسے عملی طور پر ایک مفلوج قوم کا مسکن بنا دیا ، لیکن اُن لوگوں نے اپنے ماضی پر نظر کی اور اپنے سامنے آنے والےنئے  وقت میں صرف اُن کاموں میں  اَن تھک محنت کی ،  جِن کی مدد سے وہ ایک طاقت ور، آزاد اور با عزت قوم بن سکیں ، اور انہوں نے ایسا کر دِکھایا ،
اِسی طرح دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں نے جرمن کا جو حال کیا اس کے بعد دُنیا کے حکمت دانوں کے ہاں یہ تصور نا پید سا ہو گیا کہ اب دُنیا کی تاریخ میں جرمن کبھی کوئی نام دار قوم بن سکیں گے ،
جرمنوں نے اپنے گذرے ہوئے وقت کو ہماری طرح صرف جشن منا  منا کر رخصت نہ کیا ، اور نہ آنے والے وقت کو صرف جشن منا منا کر  خوش آمدید کہا ،
چند لوگوں نےجشن منانے کے علاوہ  حقائق پر کڑی نظر کی اور گذرے ہوئے وقت میں اپنی غلطیوں اور اپنے نقصانات کا خوب اچھی طرح سے اندازہ کیا،اپنے  ضائع شدہ ، تباہ شدہ وقت کو اپنے حال اور اپنے مستقبل میں دوبارہ سے داخل کیا ،ہر ایک شخص نے اُن کی اِس مثبت سوچ کو درست مانا اور سب نے گویا ایک جاں ہو کر ایک لمبے عرصے تک اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے اپنے ذاتی اوقات میں سے دو دو گھنٹے روزانہ بلا معاوضہ کام کیا ، اور وہی جرمن تھوڑے سے ہی وقت میں ایک دفعہ پھر ، بلکہ پہلے سے زیادہ شان و شوکت ،علمی اور عملی قوت کے ساتھ اُبھر پڑا ،
آخر ہماری عقلوں پر ایسا پردہ کیوں پڑا ہوا ہے کہ ہم ان لوگوں کی گندگی کو تو اپناتے ہیں لیکن ایسے کاموں کی طرف دھیان نہیں دیتے جو کم از کم دُنیاوی عزت اور ترقی کا سبب تو بن سکتے ہیں،بِاِذن اللہ ،  
اور اگر ہم اُن کاموں کو اپنے اِسلامی قوانین کے مطابق چھان پھٹک کر صاف ستھرا کر کے اپنا لیں ، اور اللہ کی رضا کے لیے ، اللہ کے دِین کی سر بلندی کے لیے ، اپنی اُمت کی دُنیاوی اور اُخروی عزت کے لیے کریں تو ہم اُن لوگوں سے کہیں زیادہ با عزت ، طاقتور اور عظیم قوم ہو سکتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،اور ضرور ہو سکتے ہیں کہ اگر ہماری نیت خالص اللہ کے لیے ہو اور ہم ایسے کامیاب اور مجرب وسائل اپنائیں تو ہمیں وہ قوت بھی میسر ہوگی،  جو ان قوموں کو کبھی میسر نہ تھی اور نہ ہو سکتی ہے ،اور وہ قوت ہے اللہ القویّ العزیز  کی مدد ، اور ہم اُسی طرح کے طاقتور ، حکمران اور باعمل مسلمان بن سکتے ہیں جیسا کہ پہلے تھے ،
::::: کیا میں یہ اُمید رکھوں کہ میری یہ باتیں سننے ، پڑھنے والے میرے بھائی بہنیں اپنے مستقبل میں آنے والے  نئے اوقات کو دنیا اور آخرت کی ذلت و ناکامی کی حالت میں منانے کی بجائے اُنہیں دنیا اور آخرت کی عزت اور کامیابی والا بنانے کی کوشش کریں گے ؟؟؟
::::: کیا یہ ہو سکتا ہے ہم مُسلمان بھی واقعتا ایک قوم بن جائیں، اور ایک جسم کے مختلف أعضاء کی طرح ایک دوسرے کی صحت  اور طاقت کے ضامن ہو جائیں ؟؟؟
::::: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے اوقات میں اپنے رب کی رضا کے حصول کی خاطر ، اپنی امت کی عزت اور رفعت کی خاطر کچھ وقت صِرف ایسے کاموں میں  صَرف کرنے لگوں جن سے میرے بھائی بہن خصوصی طور پر اور بنی نوع انسان عمومی طور پر اپنے اوقات کی حقیقت جان لیں اور انہیں اپنے رب کی تابع فرمانی میں استعمال کرنے لگیں؟؟؟
::::: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنی کچھ خواہشات کو تگ کر ، اپنے کچھ شوق پس پشت ڈال کر اپنے دِین اور اپنی  قوم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ تھوری سی اضافی محنت کر لوں ؟؟؟
::::: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میری یہ باتیں سننے پڑھنے والوں کو اُن کے وقت کی أہمیت کا احساس دلانے کا سبب بن جائیں اور وہ نئے اوقات کی آمد کی خوشی میں مدہوش ہونے کی بجائے گذرے ہوئے وقت کے نتائج کی روشنی میں با ہوش ہو جائیں ؟؟؟
::::: کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میری اِن گذارشات کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں میں اُن کی زندگیوں میں سے کم ہوجانے والے اوقات کے نقصانات کا شعور جاگ اُٹھے ؟؟؟
::: کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کہا اُس کے سبب ہم اپنے وقت کی قدر و قیمت جان لیں اور اپنے اللہ سے عہد کریں کہ اب ہم اللہ کے دیے ہوئے ہر ایک لمحے کو اُس کی رضا کے مطابق، اُس کے دِین اور اُس کے مُسلمانوں کی بلندی کے لیے اِستعمال کرنے کی کوشش کرتے ہی رہیں گے ؟؟؟
جی ہاں ، ہو سکتا ہے ،اوریقیناً ہو سکتا ہے ، میرے رب کے حکم سے کچھ خارج نہیں ، میرے رب کی رحمت کی وُسعت لا محدود ہے، میرے رب کی عطاء کسی کی پابند نہیں ، بس ہمیں اُس کے حصول کے لیے سچی نیّت سے کوشش  کرنی ہے،
اے اللہ ہمیں اُن میں سے بنا دے جن کے بارے میں تو نے اِرشاد فرمایا (((((الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ::: وہ لوگ جو کہ بات سُنتے ہیں اور اُس میں سے اچھی بات پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہی ہیں عقل والے)))))سورت الزُمر(39)/آیت 18،
اور اے اللہ ہمیں اُن جیسانہ بنانا جو کہا کرتے تھے ، اور جو اب بھی   کبھی ز ُبان ء قال سے اور کبھی ز ُبانء حال سےکہتے ہیں (((((وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ::: اور انہوں نے کہا جس کی طرف تُم ہمیں بلاتے ہو اُس کے بارے میں ہمارے دِل پردوں  میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بھاری پن(یعنی بہرا پن)ہے اور ہمارے اور تُمہارے درمیان پردہ ہے لہذا تُم(اپنا)کام کرو ، ہم بھی (اپنا ہی ) کام کریں گے)))))سورت فُصلت(41)/آیت4 ۔ و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ فورمز پر اس مضمون کے مطالعے کے روابط درج ذیل ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ """ پاکستانی کا پیغام پاکستانی کے نام """ بھی ضرور  پڑھیے ، اِن شاء اللہ مزید فائدے کا سبب  ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔