Wednesday, November 27, 2013

::::::: ماہ ءِ صَفر اور ہم ::::::: :::::کیا ماہءِ صِفر منحوس ہے ؟ :::::We And Month Of Safar






::::::: ماہ ءِ صَفر اور ہم :::::::

:::::کیا ماہءِ صِفر منحوس ہے ؟ :::::

 

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

بِسّم اللہِ و الحَمدُ  لِلہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی  مَن لا نَبی  ولا رسول َ و لا معصومَ   بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ، و ھُوَ محمد ً رسول ُ اللہ ،

اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور  نہ ہی کوئی رسول اور نہ ہی کوئی معصوم ، اور جس نے  کبھی بھی اپنے نفس کی خواہش کے مُطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی ، اور وہ ہیں  محمد رسول اللہ ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

ماہِ صفر ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے ، اللہ اور اُس کے خلیل اور آخری نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اِس مہینے کی نہ کوئی فضلیت بیان کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے میں کِسی بھی حلال اور جائز کام کو کرنے سے رُکا جائے ، ،

جو مہینے فضلیت اور حُرمت والے ہیں اُن کے بارے میں رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبٌ شَهْرُ مُضَرَ الَّذِى بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ :::سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس حالت میں اُس دِن تھا جب اللہ نے  آسمان اور زمین بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور(چوتھا ہے) مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبا ن کے درمیان ہے)))))صحیح البُخاری /حدیث 3197/کتاب بدء الخلق / باب 2، صحیح مُسلم /حدیث 4477/کتاب القسامہ/باب9،

اِس حدیث شریف میں دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب اللہ کے آخری نبی و رسول  مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حُرمت والے ہیں یعنی اُن چار مہینوں میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہیے ، اِس کے عِلاوہ  رمضان کے مہینے کی کچھ فضیلتیں مختلف احادیث مُبارکہ میں بیان فرمائی ہیں ، اِن کے عِلاوہ کِسی بھی اور مہینے کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے !!!!،

خیال رہے کہ میں بات مہینوں کے بارے میں کر رہا ہوں ، کِسی مخصوس  دِن یا وقت  کی نہیں ،

اب ذرا غور تو فرمایے ، قارئین کرام ، یہ ،  کیسا نا معقول معاملہ ہے کہ اللہ اور  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت، خود ساختہ  رسموں اور عِبادات کےلیے خاص کیا جاتا ہے،  اور کچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ وہ مہینے منحوس ہیں ، یا غم واندوہ والے ہیں ، لہذا منحوس کی نحوست سے بچنے کے لیے ، اور غم کا ماتم منانے کے لیے ، اُن مہینوں میں کوئی خوشی والا کام ، کاروبار کا آغاز ، رشتہ ، شادی بیاہ ، یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیے ،

 حیرانگی اِس بات کی نہیں کہ ایسے خیالات کہاں سے آئے ؟؟؟

کیونکہ  یہ تو معلوم ہے جِس کا ذِکر اِن شاء اللہ  میں  ابھی  کروں گا ،

 حیرانگی  تو  اِس بات کی ہے کہ جو باتیں اور عقیدے کِسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں ، دِلوں اور دِماغوں میں ڈالے جاتے ہیں اُنہیں تو فوراً  یا  دیر سے قُبُول کر لِیا جاتا ہے،

 لیکن جو بات اللہ اور اُس کے آخری رسول اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور پوری تحقیق کے ساتھ سچے اور ثابت شُدہ حوالہ جات کے ساتھ بتائی جاتی ہے اُسے مانتے ہوئے طرح طرح کے حیلے بہانے ، منطق و فلسفہ ، دِل و عقل ، وغیرہ کی کسوٹیاں اِستعمال کر کر کے راہ فرار تلاش کرنے کی بھر پُور کوشش کی جاتی ہے اور کچھ اِس طرح کہا جاتا ہے لکھا جاتا ہے کہ :::

أجی یہ بات دِل کو بھاتی نہیں ::: کچھ ایسا ہے کہ عقل میں آتی نہیں !!!!

اِن ہی خُرافات میں سے ماہ ِ صفر ، یعنی صَفر کے مہینے کو منحوس جاننا ہے ،

 پہلے تو یہ سُن لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کِسی چیز کو منحوس نہیں بنایا ، جی ہاں یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حِکمت ہے کہ وہ کِس چیزمیں کِس کے لیے بر کت دے اور کِس کے لیے نہ دے ، آیے اللہ کے آخری نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ایک فرمان آپ کو سُناؤں ، جو ہمارے اِس موضوع کے لیے فیصلہ کُن ہے ،

 عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نحوست کا ذِکر کِیا گیا تواُنہوں نے اِرشاد  فرمایا (((((إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِى شَىْءٍ فَفِى الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ::: اگر کِسی چیز میں نحوست ہوتی تو اِن تین میں ہوتی،عورت ، گھر اور گھوڑا))))) صحیح البُخاری / حدیث 5094 / کتاب النکاح / باب 17 ، صحیح مُسلم / حدیث 5945 ،کتاب السلام /باب34،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ اِرشاد کہ (((((اگر کِسی چیز میں   نحوست  ہوتی)))))صاف بیان فرماتا ہے کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی اور یہ بات بھی ہر کوئی سمجھتا ہے کہ جب ''' کِسی چیز ''' کہا جائے گا تو اُس میں مادی غیر مادی ہر چیز شامل ہو گی یعنی وقت اور اُس کے پیمانے بھی شامل ہوں گے،

 لہذا  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان مُبارک سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ نحوست کِسی چیز کا ذاتی جُز نہیں ہوتی ، اللہ تبارک و تعالیٰ جِس چیز کو جِس کے لیے چاہے برکت والا بنائے اور جِس کے لیے چاہے بے برکت بنائے یہ سب اللہ کی حکمت اور مشیئت سے ہوتا ہے نہ کہ کِسی بھی چیز کی اپنی  ذاتی صِفت سے ،

لوگوں کے ہاں  ہوتا کچھ یُوں ہے  کہ جِس چیز میں اللہ تبارک و تعالیٰ  کسی کے لیے برکت نہیں دیتا تو لوگ اُسے منحوس سمجھنے اور کہنے لگتے ہیں ، اور  اُس چیز میں بے برکتی کونحوست  سمجھتے اورکہتے ہیں ،

 دیکھ لیجیے کوئی  سے دو شخص جو ایک ہی مرض کا شِکار ہوں ایک ہی دوا اِستعمال کرتے ہیں ایک کو شِفاء ہو جاتی ہے اور دُوسرے کو اُسی دوا سے کوئی آرام نہیں آتا بلکہ بسا أوقات مرض بڑھ جاتا ہے ،

کئی لوگ ایک ہی جگہ میں ایک ہی جیسا کاروبار کرتے ہیں کِسی کوئی فائدہ ہوتا ہے کِسی کو نُقصان اور کوئی درمیانی حالت میں رہتا ہے ،

 کئی لوگ ایک ہی جیسی سواری اِستعمال کرتے ہیں، اور  کبھی تو ایک ہی سواری کے سوار ہوتے ہیں ، ایک اکٹھا سفر ہی کر رہے ہوتے ہیں ، لیکن ،  کِسی کا سفر خیر و عافیت سے تمام ہوتا ہے اور کِسی کا نہیں ،

اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے یہ معاملہ ہر ایک چیز میں رواں ہے ،

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برکت اور اضافے میں بہت فرق ہوتا ہے ، کِسی کے لیے کِسی چیز میں اضافہ ہونا یا کِسی  کے پاس کِسی چیز کا زیادہ ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ اُسے برکت دی گئی ہے ،

[[[ برکت اور تبرک کے بارے میں ، الحمد للہ ، ایک تفصیلی مضمون کافی عرصہ پہلے شائع ہو چکا ہے، جو میرے بلاگ پر بھی موجود ہے ، اور کتابی صُورت میں ، کتاب و سُنت(محدث)  لائبریری میں بھی موجود ہے  :  http://bit.ly/1s4f9PB   ]]]

عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کافروں ، اور بدکاروں کو مُسلمانوں اور نیک لوگوں کی نِسبت مال و دولت ، أولاد ، حکومت اور دُنیاوی طاقت وغیرہ زیادہ ملتی ہے ، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُنہیں برکت دِی گئی ہے ، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے اُن پر آخرت کا مزید عذاب تیار کرنے کا سامان ہوتا ہے ، کہ ، لو ، اور  لو، اور لو، اور خُوب آخرت کا عذاب کماؤ ،

محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان کے مُطابق یہ اللہ کی طرف سے اُن گناہگاروں کے لیے  اِستدراج ہے ، (مُسند احمد / حدیث 17349،17409

 ہمارا اِس وقت کا موضوع  یہ نہیں ہے لہذا میں  اِس کی تفصیل میں داخل ہو کر موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتا ،

بات صَفر کے مہینے کی ہو رہی تھی کہ نہ تو اِس کی کوئی فضلیت قُران و سُنّت میں ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے کو بے برکت ، منحوس ، یا  کِسی لحاظ سے بُرا سمجھا جائے ،

::::: صفر کے مہینے کو بُرا ، یا منحوس سمجھنے جانے کے اسباب :::::

جی ہاں ، اِسلام سے پہلے عرب کے کافر اِس مہینے کومنحوس اور باعثِ نُقصان سمجھتے تھے ، اور یہ سمجھتے تھے کہ صَفر ایک کیڑا یا سانپ ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جِس کے پیٹ میں ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیتا ہے اور دُوسروں کے پیٹ میں بھی مُنتقل ہو جاتا ہے ، یعنی چُھوت کی بیماری کی طرح اِس کے جراثیم مُنتقل ہوتے ہیں ،یا ماورائی تخیلات کے بِناء  پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ کیڑا ایک شخص کو قتل کرنے کے بعد مقتول کے پیٹ سے کسی دُوسرے شخص کے پیٹ میں چلا جاتا ہے ، اور اِنہی بدخیالیوں کی وجہ سے وہ لوگ اپنے ہی طور پر ایک سال چھوڑ کر ایک سال میں اِس مہینے کو محرم سے تبدیل کر لیتے ، یعنی ، مُحرم کی حُرمت اِس مہینے صَفر پر لاگو کردیتے کہ شاید اِس خود ساختہ حُرمت کی وجہ سے حضر ت  صَفر  صاحب اِن سے خوش ہو جائیں اور اُن کی نحوست کم یا ختم ہو جائے،

مُحرم کی حُرمت صَفر میں منتقل کرنے کا دُوسرا سبب یہ ہوتا  تھا کہ مُحرم کی حُرمت صَفرپر لاگو کرکے مُحرم کو دُوسرے عام مہینوں کی طرح قرار دے کر اُس میں وہ تمام کام کرتے جو حُرمت کی بنا پر ممنوع ہوتے  تھے،

( تفصیلات کے لیے دیکھیے ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری / الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی ، عُمدۃ القاری شرح صحیح البُخاری / عِلامہ بدر الدین العینی، شرح اِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، عَونُ المَعبُود شرح سُنن أبی داؤد /علامہ شمس الحق العظیم آبادی ،الدیباج علیٰ صحیح مُسلم /امام السیوطی ، فیض القدیر شرح جامع الصغیر / عِلامہ  عبدالرؤف المناوی )

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن مندرجہ بالا سب کے سب ،  اور اِن جیسے دوسرے عقیدوں کو غلط قرار فرما دِیا ،

::::::  ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لاَ عَدْوَى ، وَلاَ طِيَرَةَ ، وَلاَ هَامَةَ ، وَلاَ صَفَرَ::: نہ (کوئی ) چُھوت ( کی بیماری )ہے ، نہ ھامہ ہے ، نہ پرندوں (یا کِسی بھی چیز )سے شگون لینا (کوئی حقیقت رکھتا)ہے ، نہ صفر (کوئی بیماری یا نحوست والا مہنیہ ہے اور نہ اِس کی کِسی اور مہینہ کے ساتھ تبدیلی )ہے))))) صحیح البُخاری /حدیث 5757 /کتاب الطب / باب 45 ، صحیح مُسلم / حدیث 5920 /کتاب السلام/باب 33،

[[[اِلفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین و أرضاھُم سے بھی روایت کی گئی ہے اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے ، میں نے حوالے کے لیے صِرف صحیح البُخاری اور صحیح مُسلم پر اِکتفاء کِیا ہے کہ اِن کے حوالے کے بعد کِسی اور حوالے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور قوسین () کے درمیان جو اِلفاظ لکھے گئے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نہیں لیکن سب کے سب اِن احادیث کی شرح سے اور جِن کتابوں کا حدیث کے ساتھ حوا لہ دیا گیا ہے اُن میں سے لیے گئے ہیں اپنی طرف سے نہیں لکھے گئے ]]]

قبل از اِسلام کے کافر اور مُشرک عرب صَفر کے مہینے کے منحوس ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ،

 افسوس کہ اِسی قِسم کے خیالات آج مُسلمانوں میں بھی پائے جاتے ہیں ، اور وہ اپنے کئی کام اِس مہینے میں نہیں کرتے ، آپ نے دیکھا کہ اللہ کے آخری نبی اور  رسول محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس مہینے کے بارے میں پائے جانے والے ہر عقیدے کو مُسترد فرما دِیا ، سال کے دیگر مہینوں کی طرح اِس مہینے کی تاریخ میں بھی ہمیں کئی نیک  کام کیے جانے کے ثبوت ملتے ہیں ، سب سے پہلے تو یہ کہ :::

::::::: ہجرت کے بعد جہاد کی آیات اللہ تعالیٰ نے اِسی مہینے میں نازل فرمائیں ،

اور کئی  ایسے کام بھی جو  اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے اُس کے بندوں نے کیے ، مثلاً :::

::::::: اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے پہلا غزوہ اِسی مہینے میں کِیا ، جِسے غزوہ """ الأبوا """ بھی کہا جاتا ہے اور """ ودّان """ بھی ،

::::::: اِیمان والوں کی والدہ مُحترمہ خدیجہ بنت الخویلد رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نکاح مُبارک اِسی مہینے میں ہوا ،

:::::::  عرب یہودیوں کے ہیڈ کوارٹر خیبر کی فتح اِسی مہینے میں ہوئی ،

 یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون مُسلمان ایسا ہو گا جو اِس مہینے کو یا کِسی بھی مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اُس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ،

ابھی جو حدیث نقل کی گئی اُس میں """ ھامہ """ کا ذِکر تھا ، بہت اختصار کے ساتھ اُس کا معنی بیان کرتا چلوں ، یہ بھی عربوں کے غلط جھوٹے عقائد میں سے ایک تھا ، کہ جِسے قتل کیا جاتا ہے اس کی روح اُلّو بن جاتی ہے اور اپنا انتقام لینے کے لیے رات کو نکلتی ہے ، اور جب تک اُس کا اِنتقام پورا نہیں ہوتا وہ اُلّو بن کر راتوں کو گھومتی رہتی ہے ، اور سانپوں کے بارے میں بھی ایسا ہی عقیدہ پایا جاتا تھا ، اور کُچھ اور معاشروں میں اِسی قِسم کا عقیدہ چمگادڑ وغیرہ کے بارے میں پایا جاتا ہے ،

 عرب اپنے اِس باطل عقیدے کی وجہ سے اُلّو کی آواز کو بھی منحوس جانتے اور اُس کو دیکھنا بھی بدشگونی مانتے ، اور آج مُسلمانوں میں بھی اِس قِسم کے عقائد پائے جاتے ہیں ،

 سانپوں کے انتقام ، چمگادڑوں اور اُلّوؤں کے عجیب و غریب کاموں اور قوتوں اور اثرات کے بارے میں بے بُنیاد جھوٹے قصے آج بھی مروج ہیں اور اُسی طرح کے جھوٹے عقائد بھی لوگوں کے دِلوں و دِماغوں میں گھر بنائے ہوئے ہیں ،اور اُن لوگوں میں مُسلمان بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں ،

جبکہ  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن تمام عقائد کو باطل قرار دِیا ہے جیسا کہ ابھی بیان کِیا گیا ہے ،

پس، جو کچھ خبر  ہمیں ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی ثابت شدہ احادیث مُبارکہ میں ملتی ہے اُس پر اِیمان رکھیے ، اُنہی خبروں میں سے یہ بھی ہے کہ کِسی چیز میں نحوست نہیں ہوتی ، یعنی ، کوئی چیز بذاتہ منحوس نہیں ہوتی ،

سچ ہے کہ جب اللہ القوی العزیز کا ڈر نہیں رہتا تو ہر  باطل  چیز سے ڈر لگتا ہے ، اور جب اللہ کا ڈر جاگزیں ہو جائے تو پھر ہر باطل کا خوف غائب ہو جاتا ہے ،  بس اپنے اکیلے خالق و مالک اللہ عزّ و جلّ سے ہی ڈریے ، وہ ہر خوف سے بالا کر دے گا ،

اللہ تعالیٰ اِن مختصر معلومات کو سُننے ،  پڑھنے والوں کی ہدایت کا سبب بنائے اور میری یہ کوشش قُبُول فرمائے اور میرے لیے آخرت میں آسانی اور مہربانی اور مغفرت کا سبب بنائے ، اور ہم سب کو اور ہمارے سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم  ضِد اور تعصب سے آزاد ہو کر صِرف اُس کی اور اُس کے آخری رسول اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل تابع فرمانی والی زندگیاں گذارتے ہوئے اُس کی رضا پا کر اُس کے دربار میں حاضر ہوں ۔

و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،

طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت :  21/01/1429 ہجری، بمُطابق، 30/01/2008 عیسوئی،

تاریخ تجدید و تحدیث : 07/01/1442 ہجری، بمُطابق،  25/08/2020 عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ (PDF)  : http://bit.ly/12sT90y 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخہ (MP3آڈیو فائل ) :  https://archive.org/details/20200828_20200828_1503  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب (MP4 ویڈیو فائل )  : https://youtu.be/0JRyzM0pub0     

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔