Tuesday, January 28, 2014

:::::عید ءمحبت ، عید محبت ، عید الحب ، ویلنٹائن ڈے :::::valentine day :::::


:::::عید ءمحبت ،یا، ویلنٹائن ڈے :::::
بِسمِ اللَّہِ و الحَمدُ لله والصَّلاةُ والسِّلامُ علَى أشرفِ الأنبياءِ والمُرسلِين نَبِيّنا مُحمدٍ
پچھلے چند سالوں سے ہماری اُمت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک """دِن منانے""" کی رسم   کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اِسے بھی قبول کرتے ہی چلے  جا رہے ہیں ،
 جبکہ اِس رسم  اور اِس طرح کی دوسری غیر اِسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دِین سے جہالت اور ہمارے دِین حق اِسلام  کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،
جی میں یہاں اِس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے """ویلنٹائن ڈے """اور """عیدءِ محبت """ کہا جاتا ہے ، اور اِس رسم کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص دن """14چودہ فروری """مقرر ہے ، جس دن میں اِس رسم کی تکمیل کے لیے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت بھی جو شرعی طور پر نا محرم ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اِظہار و اِقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا  آغاز  یا تجدید کرتے ہیں ،
جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، ابتداء بھی ہوس و شہوت رانی کی جہنم اور انتہاء بھی آخرت کی جہنم ،
ٹھہریے ، رُکیے ،میری بات کو """بنیاد پرستی """،"""دقیانوسیت """، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق """دہشت گردی """کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ،
 میں نے دوستی اور محبت کے نام پرغیر محرم لڑکوں اور لڑکیوں ، مَردوں اور عورتوں کے درمیان حرام تعلقات بنانے کے بارے میں جو کچھ  کہا ہے اِس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں سے دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اِس """ویلنٹائن ڈے """یا """عیدء محبت """ کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ،
:::::: ویلنٹائن ڈے کی تاریخ ::::::
اور یہ تاریخ میری لکھی ہوئی یا بنائی ہوئی نہیں ، اُن کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ،
لیکن عِلم و حق کی کیسی  مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں   اُس کی اصلیت اور کوئی ایک متفق علیہ  تاریخ  بھی نہیں جانتے ،،،،، یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مُسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس ﴿بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا::: بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے باپ دادؤں کو پایاکی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں،
 جبکہ اُن باپ دادؤں  کا حال بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہی بیان فرما دِیا ہے کہ ﴿أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ:::اور خواہ اُن کےباپ دادےنہ تو کوئی (حق )جاننے والے رہے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ رہے ہوں ،
ہمارا حال تو اُن مشرکین مکہ سے بھی بد تر ہو چکا ہے کہ وہ تو اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کرتے تھے ، اور ہم تو نسلی مُسلمان ہونے کے باجود اُن  کافروں کے کفر پر مبنی عقائد اور عادات میں اُنکی تقلید کرتے ہیں جن سے ہماری کوئی ، حسبی نسبی یا نسلی تعلق  داری بھی نہیں،
 اور اگر ہوتی بھی تو بھی مُسلمان کو صِرف وہی کرنا اور ماننا ہے جس کی اِجازت اللہ جلّ و عَز َّ یا اُس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے عنایت فرمائی گئی ہو،
جی تو بات تھی """ویلنٹائن ڈے """ یا """عیدءِ محبت """ کی اصلیت اور تاریخ کی ، اِس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، اُن کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،
::::: (1) :::::   کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سےتخیلاتی باطل معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، غرض کہ کفر و شرک کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری تھا ، ایسے میں رومیوں کےایک مذہبی راہنما"""ویلنٹائن"""نےعیسائیت قبول کر لی ،جس کا اثر عام لوگوں پر کافی گہرا ہو سکتا تھا ، لہذاعیسائیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت روم کے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ """ویلنٹائن""" کو قتل کر دیا جاتا تا کہ اُن لوگوں کے آباءو ا جداد کا اور حکومت کا  دِین، مذھب و مسلک محفوظ رہے ،
 پس """ویلنٹائن"""کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں نے"""ویلنٹائن"""کے قتل کا دن """منانا """ شروع کیا ، تا کہ اُس بڑے عیسائی  کو یاد رکھا جائے اور اُس کے قتل پر ندامت کا اِظہار کیا جائے ، وہ اِظہار کیسے کیا جاتا تھا اِس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا ۔
::::: (2) :::::  کہا گیا کہ، 14 فروری رومیوں کی ایک معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) """یونو،Juno """ کا دِن تھا ، اِس معبودہ  کے بارے میں  رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ اُن کے سب معبودوں کی ملکہ ہے(کہیں یہ مذکور ہے کہ صِرف مؤنث معبودوں کی بڑی سرکار، اور اعلیٰ حضرت تھی)، اور سب معبودوں ،بادلوں اور آسمانی بجلی وغیرہ کے بادشاہ معبود جوپیٹر (Jupiter, or , Jove)کی بیوی تھی، اور اُس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اِسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اُس معبودہ کا دِن عورتوں سے محبت جتانے ، شادی کرنے  کے لیے ،یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص سمجھ  کر """منایا """جانے لگا ۔
::::: (3) ::::: رومیوں کی ایک اور معبودہ """لیسیوس """ نامی بھی تھی ، جسے کے بارے میں کہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ  ایک مؤنث بھیڑیا تھی ، اور کہیں اُسے انسان ہی بتایا جاتا ہے ،،،،،اور اِسے"""ریا سلیویا(Rhea Silvia)"""بھی کہا اور لکھا جاتا ہے ،،،،،رومیوں کے باطل خُرافاتی عقائد میں سے اُن  کایہ عقیدہ بھی تھا کہ اِس"""لیسیوس،یا،ریا سلیویا"""نے روم کے دونوں بانیوں"""رومیولیس(Rumulus)"""، اور """ریمویس(Remus)"""کو اُن کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ،کہیں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ اِن کی ماں ہی تھی، اوراِس بن بیاہی ماں کا دعویٰ تھا کہ اِن بچوں کا  باپ بھی ایک باطل معبود مارس ہے(یعنی یہ دونوں بچے ناجائز تعلق کی پیداوار تھے )،
پھر جب یہ دونوں بچے  بڑے ہوئے اور انہوں نےروم دریافت کیا ، اور وہاں اپنی حکومت بنا لی تو انہوں نے اِس 14 فروری کو """محبت """نامی عبادت گاہ میں  اِس بھیڑیا معبودہ کا دِن """منانا""" شروع کیا  ، اِس عبادت گاہ کو """محبت """نام اس لیے دیا گیا کہ اُن کے کفریہ عقیدے کے مطابق اُن کی یہ بھیڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی، (یا جِس ناجائز محبت کا یہ نتیجہ تھے اُس محبت کی یاد منائی جاتی تھی ، جِس کی یاد مناتے ہوئے آج بھی اِس دِن ناجائز تعلقات بنائے جاتے ہیں ، یا اُن کی تجدید کی جاتی ہے، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ)۔
::::: (4) :::::  قدیم رومی بادشاہ""" کلاڈیس 2 """نے رومی مَردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، جب اِس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اُس وقت روم کے ایک بڑے پادری """ویلنٹائن """نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اُس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی """ویلنٹائن""" کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ""" ویلنٹائن"""محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ۔
::::: (5) :::::   قتل کیے جانے سے پہلے""" ویلنٹائن""" اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران""" ویلنٹائن""" ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو """ویلنٹائن""" نے اسے ایک محبت نامہ دیا ، پس اِس محبت نامے کی یاد میں اِس تاریخ کو محبت نامے بانٹے جانے لگے ۔
::::: (6) ::::: قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل  جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک""" میلے یا عید """کے موقع پر جسے"""لیوپیرکالیا(Lupercalia)""" کہا جاتا تھا ،
یہ """میلہ یا عید """بھی ایک جھوٹے باطل معبود"""لیوپرکاس(Lupercus)"""کی تعظیم کے لیے""" منائی """جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
 اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی """عید Lupercalia""" تک ایک دوسرے کے ساتھ  تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی والا تعلق بنائے رکھتا ، ،،،،اِس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 15 فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ13سے 15 فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اِسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اِسی کیفیت تک محدود نہیں  جس کی تعلیم اس بے حیائی اور حرام تعلقات والی عید میں اور اِس کی کہانی اور اِس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
غور فرمایے ، محترم قارئین ، کہ ، 1969 تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اِس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے """منایا """ جاتا رہا ، اور اُس سے کچھ عرصہ پہلے تک اِسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا ، یعنی ابلیس کے اِن پیرو کاروں کو یہ بھی ہوش نہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اُس کی بنیاد کیا ہے ؟؟؟
::::: (7) ::::: پندرھویں صدی کے آغاز میں"""اگن کورٹ Agincourt""" کی جنگ میں  ایک فرانسی ریاست""" اورلینز(Orleans)""" کا نواب """ Duke of Orleans """، انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے  کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اُس کی شاعری کو جدید دور کے """ویلنٹائنز """ کا آغاز  سمجھا جاتا ہے۔
::::: (8) ::::: اس کے تقریبا دو سو سال بعد """ویلنٹائن کے دِن """ پر پھول وغیرہ دینے کی رَسم کا یُوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ """ہنری چہارم Henry IV """کی ایک بیٹی نے """پادری ویلنٹائن کا دن """ مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اُس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ۔
::::: (9) ::::: اُنیسویں صدی کے درمیان میں اِس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے اِن کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور اُن کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،
مُسلمانو، اِس دِن کی نسبت اِن مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، اور اِس کی اصلیت اِن قصوں میں سے کسی کے بھی موافق ہو ،،  ، بہر صورت اِس کی اصلیت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اِس دِن کو  غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دِین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان نے ایک """عید""" کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر  کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے ہی تعلقات قائم کر لیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دِیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل  معاشرہ بھی اُس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ،
اِس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دِن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دِن میں کیا جاتا ہے اِسلام میں اِسکی کوئی گنجائش نہیں ، اِسلام تو بہت بلند و برتر ہے ،اِس میں ایسی اوردیگر بھی  کسی بھی قِسم کی بے ہودگی ، بے حیائی ، بے غیرتی اور فحاشی کی گنجائش نہیں ، اور تو اور عیسائی کنیسا نے بھی اِس ویلنٹائن دِن میں ہونے والی خرافات کو کسی دِین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمجھتے ہوئے اِس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ،
لیکن افسوس ، مُسلمانوں کو اِس کی کوئی  پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اِس غیر اِسلامی حرام دن کومنانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ أتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اِس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ،
اِس """عید """یا دن کو منانے میں اب ہمارے مُسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فِکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اِس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
اِس کفر و شرک ، بے حیائی، بے غیرتی اور گُناہ کی بنیاد پر""" منائے""" جانے والے دِن اور اِس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلیت بتانے کے بعد اب   میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ اِیمان والوں  کے لیے اِس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ ءِفرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اِس گُناہ کو گُناہ سمجھنے میں  تردد  محسوس کرے وہ اپنے اِیمان کی خبر لے ،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے﴿ لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ :::اِیمان والے ، اِیمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست (راہبر ، راہنما ، پیشوا )نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اُس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے )کوئی بچاؤ کرنا چاہو تو (صرف اِس صورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے ) اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب )سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے (پس یاد رکھوکہ اللہ کے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے)سورت آل عمران(3)/ آیت28،
اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ:::اے اِیمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست (راہبر ، راہنما ،پیشوا )نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں )اور تم لوگوں میں سے  جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ اُن ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتاسورت المائدہ (5)/آیت 51،
یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اِسلامی دینی تہوار ہیں اور اِن کو منایا جانا اِسلام کی بجائے  دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اِظہار ہے اور اِس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے  ، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ھُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ  :::اور جو کوئی اِسلام کے علاوہ کچھ اور کو دِین (بنانا ، اپنانا)چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان  اُٹھانے والوں میں ہو گاسورت آل عمران(3)/آیت 85،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ﴿مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم )میں سے ہےسُنن أبو داؤد /حدیث 4025/کتاب اللباس /باب 4 لبس الشھرۃ ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
جی ہاں یہ مذکورہ بالا بات میری کسی ذاتی سوچ  کا شاخسانہ نہیں، یا میری عقل کی کا رستانی نہیں ، بلکہ نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے بعد سے سے زیادہ پاکیزہ اور تقویٰ والی ، اور اللہ کے دِین کو دُرست ترین طور پر سمجھنے والی ہستیوں کے قول و فعل کے مطابق ہے ،
 وہ ہستیاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، جن کے تقوے اور دلوں کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے دی ، جن سے محبت صرف سچے اِیمان والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے ، جِن سے بغض اور عدوات منافقت کی واضح نشانیوں میں سے ، آیےہمارے زیر مطالعے موضوع یعنی کافروں کی نقالی جس میں  کافروں کے تہوار وغیرہ منانا ، یا اُن تہواروں میں کسی طور شمولیت کرنا سے متعلق ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے اور اللہ کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین کو  اُن پاکیزہ ہستیوں کے اقوال  کے ذریعے سمجھتے ہیں ، ملاحظہ فرمایے:::
:::::::   دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ  کا فرمان ہے (((((أجتنبُوا أعداءِ اللَّہُ فی عیدھم ::: اللہ کے دشمنوں سے اُن کی عیدوں (کے دنوں )میں دُور رہو)))))سنن البیہقی الکبُریٰ / کتاب الجزیۃ / باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر اُن کی عیدوں کے دنوں میں اُن سے دور رہا کرو ،
:::::::  چوتھے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کو ایک دِن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما هذه ؟ :::یہ کیا ہے ؟)))))،
بتایا گیا """اے امیر المؤمنین یہ نیروز(تہوار )کا دن ہے (اور یہ اِس تہوار کا تحفہ ہے )"""،
أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُنے اِرشادفرمایا (((((فاصنعوا كل يوم نيروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اُسامہ ،جو اِس روایت کےروایوں میں سےہیں ، فرماتے ہیں کہ """ كَره أن يقول نيروز ::: علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ  نے اِس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے """ سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح ،
غور فرمایے ، کہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ نے کسی دِن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دِیا ہوا تھا ، یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
آج ہم اُنہی شخصیات سے محبت اور اُن کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، اِیمان و عمل اِن سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، اِنّا للہ و اِنّا اِلیہ راجعون،  
 :::::::  عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے (((((مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبہ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور اُن کے تہوار اور میلے منائے اور اُن کی نقالی کی یہاں تک کہ اِسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن  اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ،
ایسی روایات کو حکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ ُ  کی طرف سے ایسی کوئی خبر اُس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ، اور یہ خبر بھی اللہ عزّ و جلّ کے فرمان ﴿وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ھُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ  :::  اور جو کوئی اِسلام کے علاوہ کچھ اور کو دِین (بنانا ، اپنانا)چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان  اُٹھانے والوں میں ہو گا، اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مذکورہ بالا فرمان مبارک  ﴿مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی (یعنی اُسی قوم )میں سے ہےکے موافق ہے ، یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں اُس فرمان مبارک کی مزید تشریح و بیان ہے ،
EEEاپنی بات کو ختم کرنے سے پہلے میں یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں ،
میں نے آغاز میں کہا تھا:::
""" جی میں یہاں اِس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے """ویلنٹائن ڈے """اور """عیدءِ محبت """ کہا جاتا ہے ، اور اِس رسم کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص دن """14چودہ فروری """مقرر ہے ، جس دن میں اِس رسم کی تکمیل کے لیے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت بھی جو شرعی طور پر نا محرم ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا  آغاز  یا تجدید کرتے ہیں """،
اور اس بات میں""" شرعی طور پر نا محرم ہوتے ہیں """کو تحت لفظی رنگ دے کر واضح کیا تھا ،
اب یہاں تک مہیا کی گئی معلومات کی روشنی میں یہ واضح کرنا چاہتا  ہوں کہ اِس دِن ، یا کسی بھی اور ایسے دِن جو کافروں کے عقائد کے مطابق اختیار کردہ ہو ،کافروں کی عادات کے مطابق ہو،  کسی محرم سے بھی محبت جتانے کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ رشتہ خواہ جائز ہو ، اظہار محبت کا ذریعہ ناجائز ہی رہے گا ،
 اوریُوں بھی اگرہم اپنے اللہ ، اور اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں تو ہمارے سارے ہی دِن ، سارے ہی اوقات محبت سے بھرے رہ سکتے ہیں، ہمیں نہ تو محبتوں کی""" عیدیں منانے"""کی حاجت محسوس ہو ، اور نہ ہی کوئی ماں ، باپ یا کسی اور کا کوئی  دِن"""منانے """ کی ضرورت محسوس ہو ،
قاریئن کرام ، ویلنٹائن کے دِن ، یا عیدءِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اِس میں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور اِن غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا:::بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہےسورت الا سراءَ(بنی اسرائیل،17)/ آیت 27 ،
کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اِس دِن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے توخرچ کرنے والا سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مُسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو اِن شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
جو لوگ اِس عیدءِ محبت کو گوارہ کرتے ہیں  اور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اِس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں اپنے رب اللہ القوی القدیر  کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا:::اور زنا کے قرب (بھی)مت جاؤ ، بے شک زنا  بڑی ہی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے سورت الا سراءَ(بنی اسرائیل،17)/ آیت 32 ،
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بعد والی کچھ آیات مبارکہ میں کچھ دیگر کاموں کا ذِکر کرنے کے بعد ، اِس زنا سمیت سب ہی کاموں کے بارے میں اپنا یہ فیصلہ سُنایا﴿كُلُّ ذَٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا:::اِن سب کاموں کی برائی آپ کے رب کے ہاں بہت نا پسندیدہ ہےسورت الا سراءَ (بنی اسرائیل،17)/ آیت 37 ،
جو کام اللہ کے ہاں نا پسندیدہ ہے،اُس کام اور اس سے متعلق تمام حرکات و سکنات ، آلات و اسباب کا انجام اللہ کے ہاں کچھ اچھا نہیں ہوگا، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حِکمت ہے کہ وہ برے لوگوں کو برے کام کرنے کی خوب مہلت دیتا ہے اور انہیں ان کی غلط فہمیوں میں ہی چھوڑ دیتا ہے ،
لہذا میرے وہ بھائی بہن جو ویلنٹائن ڈے ، یا ، عیدء محبت """منانے"""میں ، یا اس میں کسی انداز میں  شراکت کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ، یا دوسروں کو مشغول کرتے ہیں وہ یہ بات سمجھ لیں کہ جن  برائیوں اور گُناہوں کی طرف وہ جاتے ہیں ، یا دوسروں کو مبتلا کرتے ہیں وہ سب ہی اُن سب کی آخرت تباہ کرنے والی ہیں ،
 اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر دُنیا میں  کوئی پکڑ نہیں ہوتی تو اِس پر خوش نہ ہوں اور نہ کسی دھوکے کا شکار ہوں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اپنائے ہوئے قوانین میں سے یہ بھی ہے کہ وہ گُناہ گاروں کو، اُس کی آیات مبارکہ کا قولی یا عملی طور پر اِنکار کرنے والوں کو  ڈھیل دیتا ہے یہاں تک وہ اپنے گُناہوں میں مگن اپنی آخرت کو مکمل طور پر تباہ کرتے رہتے ہیں اور اِسی حال میں اللہ کی طرف سے موت کا فرشتہ انہیں اللہ کا عذاب پانے کے لیے موت دے کر اگلے جہاں پہنچا دیتے ہیں ،
﴿وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَOوَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ :::اور جو ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں ہم ایسے طریقوں سے اُن لوگوں کو دھیرے دھیرے ہلاکت کی طرف لیے جاتے ہیں جن طریقوں کا وہ علم نہیں رکھتے  اور میں اُن لوگوں کو مہلت دیتا ہوں ، بے شک میری تدبیربڑی زبردست ہے سورت الاعراف (7)/ آیت 182، 183،
چلتے چلتے،ویلنٹائن ڈے ، یا ، عیدء محبت منانے اور منوانے والے ، اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ہمارے ایک عظیم المرتبہ إِمام ، محمد بن اِدریس الشافعی رحمہُ اللہ کی  یہ نصیحت سناتا چلوں :::
عِفّوُا تُعِفَّ نِساؤُكُم في المَحرَمِ *** وتَجنَّبُـــــــوا ما لا يَليقُ بِمُسلمِ
اپنی عِفت کی حفاظت کرو ، تمہاری عورتوں کی عِفت گھروں میں محفوظ رہے  گی
اور دُور رہو اُس سے جو کسی مسلمان کی شان کے مطابق نہیں
إِنَّ    الزِّنا   دَین   فإن   أقرضتَہُ     کان       ***       الوفاء   مِن    أھل    بیتکَ    فاعلمِ                                    
  زنا  قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا  ***  اِس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی، پس یاد رکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی اور نصیحت کرنے والے نے اِن اشعار میں مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھا:::
مَن يَزنِي يُزنَى ولَـــــــو بِجدارهِ *** إن كُنتَ يا هذا لَبيباً فَافهمِ                                              جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے
اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ (اور ایسے کاموں سے باز رہو )
يا هاتكاً حَرمَ الرِّجالِ وقاطعاً *** سُبل الموّدة عِشـــــــتَ غير مكـرمِ
لوگوں کی عزتیں خراب کرنے والے ، اور کاٹنے والے ***   محبت کی راہوں کو ، تم بے عزت زندگی گذار رہے ہو
لو كنتَ حُراً مِن سُلالةِ طــاهرٍ       ***    ما كـــنتَ هتــــاكاً لِحُرمةِ مسلمِ
اگرتُم کسی پاکیزہ نسل سے آزاد اِنسان ہوتے  ***  تو مسلمان کی عزت خراب کرنے والے نہ ہوتے۔
اللہ تعالیٰ میرے یہ اِلفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دِین دُنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے،اور ہمیں توفیق عطاءفرمائے کہ ہم کسی بھی قِسم کی ضد ، تعصب ،منطق و فلسفے، یا اپنی ذاتی سوچ و فِکر کی جولانیوں اور گمراہیوں  کا شکار  نہ ہوں اور حق پہچانیں ،اُسے  قبول کریں اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور یوم قیامت اُسی پر ہمارا حشر ہو ،
و السلام علیکم۔ طلبگارء دُعاء، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :16/02/1430 ہجری ، بمطابق 12/02/2009 عیسوئی ،،،،، تاریخ تجدید:11/03/1435 ہجری ، بمطابق 13/01/2014 عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل لنک سے اتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔