Tuesday, April 29, 2014

::::::: معاف کر دینا ، جِسم و جاں ، اور دُنیا و آخرت کی خیر ہے ::::::::

::::::: معاف کر دینا ، جِسم و جاں ، اور دُنیا و آخرت کی خیر ہے ::::::::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
یہ حقیقت اب تقریباً ہر اُس شخص پر واضح ہو چکی ہے جو جدید علمی معلومات سے کچھ شغف رکھتا ہے کہ ہمارے دین اِسلام میں اللہ کی طرف سے اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دیے گئے احکام اور سکھائے گئے آداب، سب ہی، اِنسانوں کے لیے دنیاوی اور اُخروی  خیر اور فوائد کا سبب ہیں ،
اِن احکام اور آداب میں سے ایک حکم، ایک ادب عفو و درگذر کرنا ، یعنی معاف کر دینا بھی ہے،
شاید ہی کسی مُسلمان کو یہ پتہ نہ ہو کہ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے ،اِسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بارے میں عفو کرنے کی خوش خبریاں دی ہیں ، اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو عفو و درگذر والا معاملہ اختیار کرنے کا حکم دِیا ہے ،
 اور شاید ہی کسی مُسلمان کو یہ خبر نہ ہو کہ ہر وہ کام جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پسند کیا ، اور جو اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کر کے دِکھایا اور اپنی اُمت کو سِکھایا اُس میں یقیناً دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر ہے ، کیونکہ اللہ جلّ و عُلا خیر کے علاوہ کسی اور چیز ، کسی اور کام کو پسند نہیں فرماتا ، اور نہ ہی اُس نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف میں کوئی ایسا قول یا فعل رکھا جس میں خیر نہ ہو ،
آیے دیکھتے ہیں کہ معاف کر دینے کی صُورت میں ہمیں آخرت کے فوائد سے پہلے اللہ عزّ و جلّ  دُنیا میں کیا فائدے عطا فرماتا ہے ،
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ غصہ کرتے ہیں ، کسی سے کسی بھی وجہ سے کوئی انتقام لینا چاہتے ہیں ، تو آپ کے جسم میں کیا کچھ ہو رہا ہوتا ہے ؟ اور جب آپ کسی کو اُس کی غلطی یا آپ کے ساتھ زیادتی یا ظلم کرنے کی صُورت میں معاف کر دیتے ہیں تو آپ کے جسم میں کیا ہوتا ہے؟
جب آپ غصہ کرتے ہیں تو آپ کے جسم کے مدافعتی نظام (Self Immune System)کے کئی حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، خون کا دباؤ (Blood Pressure)بڑھ جاتا ہے ، دِل اور دِماغ اور اُن کی اندرونی اور قریبی شریانوں میں دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے ، اور جیسے جیسے  بدلے لینے ، انتقام لینے کی سوچ اُبھرتی ہے، ویسے ویسے جِسم کے اندرونی اور بیرونی أعضاء پر مختلف قِسم کے دباؤ بڑھتے جاتے ہیں ، جس کا کچھ مظاہرہ ، آنکھوں کی سرخی ، آواز کا اونچا ہو جاتا ، سانس کی تیزی اور بے ترتیبی ، ہاتھوں ، بازوؤں اور گردن کے پٹھوں کے اکڑنے وغیرہ کی صُورت میں دیکھا جاتا ہے ،
ایسا سب کچھ ہونے کا پہلا سبب جسم کے مدافعتی نظام کا کمزور پڑنا ہوتا ہے ،  یہ بات ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی چیز کا مدافعتی نظام کمزور ہو تو اُس چیز پر کچھ بھی حاوی ہو سکتا ہے ، اور وہ چیز کسی بھی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ،
اور اگر کمزور مدافعتی نظام والے جسم پر حملہ کرنے والا اُس کا اپنا ہی دِماغ ہو تو پھر باہر سے کسی دُشمن یا قاتل کی ضرورت نہیں رہتی،
موجودہ اِنسانی معاشرے میں  بہت سی ایسی بیماریاں معروف ہیں اور کثرت سے پائی جاتی ہیں ، جن پر اِنسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجودکچھ اختیار نہیں رکھتا ، نہ ہی اُن کا کوئی دُرُست یقینی سبب بتا پاتا ہے ، ایسی تمام بیماریوں کوعلم طب اور اُس سے متعلقہ علوم  کے عُلماء ، جسم کے اپنے ہی مدافعتی نظام کا حملہ قرار دیتے ہیں ، اور ذاتی مدافعتی نطام کی پیداوار بیماری (Self Immune Disease)قرار دیتے ہیں ،
غصہ ایسی بیماریوں کے پیدا ہونے اور اُن کے برقرار رہنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے ، اور اِنسانی معاشرے میں ظاہر ہونے والے برائیوں اور جرائم کے بنیادی ترین اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ،
ہمارے اِس مضمون کا موضوع غصہ نہیں ، لہذا ہم اُس پر غصہ کیے بغیر ، اور اُس سے درگذر کرتے ہوئے ، اُسے معاف کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں،
اپنے غصے کے اپنے ہی جسم و جان پر ہونے والے نتائج کی کچھ خبر حاصل کرنے کے بعد آیے اب دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی کو اُس کی غلطی یا اُس کی طرف سے ہونے والے ظلم یا زیادتی پر معاف کرتے ہیں ، اُس سے عفو و درگذر والا معاملہ کرتے ہیں تو ہمارے جسم و جاں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟
بہت سیدھی اور صاف سمجھ میں آنا والا معاملہ ہے ، جو کہ طبی سائنس کی تائید بھی رکھتا ہے کہ  معاف کرنے کا عمل اِنسان کو غصے اور انتقام کی سوچ و فِکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تقریبا ً تمام تر منفی اثرات سے بچانے کا سبب ہوتا ہے ، کیونکہ عفو و درگذر ، یعنی معاف کرنے کا عمل  اُن منفی اثرات کے ظاہر ہونے اور نافذ ہونے کا وقت ہی نہیں آنے دیتا ،
جی ہاں ، کسی سبب سے غصہ آجانا ایک فطری سا عمل ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص خود کو ایسا بنا لے کہ اُسے کسی بات پر غصہ ہی نہ آئے ، لیکن ایسا ضرور ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کی مشئیت سے ، خود کو ایسا بنا لے کہ اُس کا غصہ اُس کی عقل کو نہ کھا سکے اور نہ اُس کا حاکم بن سکے ، ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو معاف کر سکنے کے عظیم اور دِینی ، دُنیاوی اور اُخروی طور پر کامیابی اور خیر پانے  والے عمل کا مکمل کر پاتے ہیں ،
معاف کردینے کے دُنیاوی فوائد حاصل کرنے کے مواقع تو مسلمان اور کافر سب کے لیے ایک ہی جیسے ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ جِسے جو چاہے عطاء فرما دے ،
لیکن آخرت کے فوائد جو کہ صِرف اِیمان والوں کے لیے ہیں اب ہم اِن شاء اللہ اُن فوائدکے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں ،
اپنی بات کےآغاز میں ، میں نے کہا تھا کہ """ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے ،اِسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بارے میں عفو کرنے کی خوش خبریاں دی ہیں ، اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو عفو و درگذر والا معاملہ اختیار کرنے کا حکم دِیا ہے""" ،
اب ہم اِن شاء اللہ ،  اِس کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اعلان ہے ﴿ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا:::بے شک اللہ معاف کرنے والا، بخشش کرنے والا ہےسُورت النِساء(4)/آیت43،
::::::: امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ """ اگر میں لیلۃ القدر پاؤں تو کیا دُعاء کروں  ؟ """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ تَقُولِينَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى ::: کہو، اے اللہ تُو معاف کرنے والا(درگذر کرنےو الا) ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے ، لہذا مجھے معاف فرما سُنن ابن ماجہ /حدیث /3982کتاب الدُعاء/باب5، سُنن الترمذی/حدیث /3855کتاب الدَعوات/باب89، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،  
::::::: اللہ جلّ و عُلا نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ :::اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگذر فرماتا ہے (گناہ معاف فرماتا ہے)اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو سب جانتا ہےسُورت الشُوریٰ (42)/آیت25،
::::::: اور اِرشاد فرمایا ﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ:::اور جو کچھ مُصیبت تُم لوگوں پر آتی ہے تو وہ تُمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے ، اور اللہ( تو) بہت سے معاملات میں معاف( ہی)  کر دیتا ہے سُورت الشُوریٰ (42)/آیت30،
::::::: اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو، اُن کے ساتھ وعدہ خلافی کرنے والے کافروں کے بارے میں  حکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ :::پس آپ اُن درگذر فرمایے اور انہیں معاف کرتے رہا کیجیے ، یقیناً اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےسُورت المائدہ(5)/آیت13،
::::::: اور اِیمان والوں کو عفو و درگذر کرنے ، معاف کر دینے کا حکم فرماتے ہوئے اور اُس کا انجام سمجھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ::: اور اُنہیں چاہیے کہ وہ درگذر کیا کریں ، اور معاف کر دِیا کریں، کیا تُم لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تُم لوگوں کی بخشش  کر دے ، اور اللہ بخشش کرنے والا ، رحم کرنے والا سُورت نُور(24)/آیت22،
ذرا غور فرمایے کہ اِ س مذکورہ بالا آیت شریفہ میں معاف کر دینے کا کس قدر عظیم انجام بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کو معاف کرنے والوں کی بخشش فرما دے گا ،  اور ہم میں سے کون ایسا ہے جِس کے اعمال نامے میں گناہ نہیں ، پس خوب یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہمیں اپنے گناہ معاف کروانے کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے  دوسروں کو معاف کرنے کا سنہری موقع کبھی ضائع نہیں کرنا چاہیے ،  
::::::: دوسروں کو معاف کر دینے کی  نیکی کا یہ مذکورہ بالا آیت شریفہ میں مذکور أجر تو ہوا آخرت میں ، اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس نیکی کا أجر آخرت کے ساتھ ساتھ  دُنیا میں بھی  مل سکتا ہے ، اور کس طرح مل سکتا ہے ﴿ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ::: اور بُرائی کا بدلہ تو اُسی طرح کی بُرائی ہی ہے ، لیکن جو معاف کر دے ، اور اصلاح کرے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہوا ، بے شک اللہ ظُلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا سُورت الشُوریٰ (42)/آیت40،
اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ کے مطابق یہ سمجھ آتا ہے کہ معاف کر دینے کی صُورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ وہی کچھ معاف کرنے والے کو عطاء فرمائے گا جو کچھ اُس سے کسی ظلم کسی زیادتی کے ذریعے لے لیا گیا ، اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب معاف کرنے کا اجر اللہ نے اپنے ذمے لے لیا تو پھر وہی  جانتا ہے کہ وہ معاف کرنے والے کو اُس پر ہونے والے ظلم یا زیادتی کے عوض میں دُنیا اور آخرت میں  کیا کچھ عطاء فرمائے گا ،  
::::::: کچھ وضاحت :::::::   
آخرت کے فوائد صِرف اور صِرف اُسی صُورت میں مل سکتے ہیں جب یہ کام ، یا کوئی بھی اور نیک کام اللہ کی رضا کی نیت سے کیا جائے، اگر دُنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لیے ، صحت ، خوش نمائی ، یا خوش ادائی وغیرہ کی نیت سے ایسا کوئی کام کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ شاید وہ دُنیاوی فوائد تو عطاء فرما دے گا ، لیکن آخرت میں ایسے کسی کام کا کوئی فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو گا ، کیونکہ وہ ایسا کام ہو گا جو اللہ کی رضا کے لیے کیے جانے کی بجائے کسی اور نیت سے کیا گیا ،
ہر ظلم یا زیادتی معاف کیے جانے کی حقدار نہیں ، اِس معاملے میں ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق، ذاتی اور اجتماعی حقوق،  اور مسلمان اور کافر کے حقوق کا فرق سمجھ کر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو  ہمت عطاءفرمائے کہ ہم اللہ کے بندوں کو ، اللہ کی رضا کے لیے معاف کرتے رہا کریں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اِس عمل کو قبول فرما کر ہمیں معاف فرماتا رہے ۔
و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 20/05/1435 ہجری ، بمطابق ، 21/03/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, April 28, 2014

::::::: قران کے سایے میں ، قران فہمی ::::::: قران کریم میں خوف کے معانی و مفاہیم :::::::

٦٦ ٦  قران کے سایے میں ، قران فہمی٥ ٥   ٥
::::::: قران کریم میں خوف کے معانی و مفاہیم :::::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ۔
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد:::
السلام علیکم ور حمۃُ اللہ و برکاتہ ،
"""خوف""" ایسی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کو کہا جاتا ہے  جو کسی ذی شعور مخلوق ( اِنسان یا جانور یا کچھ نباتات وغیرہ) پر اُس وقت طاری ہوتی ہے جب اُسے اپنی  کسی چیز کے بارے میں کوئی ایسا خطرہ لا حق ہو ،جِس خطرے سے نمٹنے کی وہ  صلاحیت نہ رکھتی ہو ، یا کسی پسندیدہ چیز کے کھو جانے کے اندیشے کی بنا پر ہو ،
"""خوف """کا متضاد """أمن """ ہوتا ہے ، جو ایسی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کو کہا جاتا ہے جِس میں کوئی اِنسان ،جانور یا ذی شعور و فہم مخلوق     اپنے اور اپنی کسی بھی چیز کے بارے میں کسی خطرے کا، کسی پریشانی کا شِکار نہیں ہوتا ،
اللہ تبارک  وتعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اِنسانوں کی دینی ، دُنیاوی اور اُخروی زندگی میں اِن دونوں کیفیات کے ہونے کا ذِکر فرمایا ہے ،
اِن شاء اللہ میں اِس مضمون میں ، مختصر طور پر """خوف """کے معانی اورمفاہیم کا بیان پیش کروں گا ،     
اِنسانوں میں سے اللہ پر اِیمان لانے والوں میں کی زندگیوں میں سب سے بہترین ، اور حقیقی طور پر ہر لحاظ سے فائدہ مند اور خیر والا"""خوف""" اللہ تبارک وتعالیٰ سے """خوف"""ہے ،   جو اللہ جلّ و عُلا کی عبادت کرنے والوں کی اعلیٰ ترین منازل تک پہنچنے کا ایک أہم اور بنیادی سبب ہے ،
::::: قارئین کرام ، توجہ فرمایے ، سمجھ لیجیے ، اور پھر ہمیشہ یاد  رکھیے ،کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے """خوف"""کچھ اُس طرح کا رُعب یا خوف نہیں جو کسی خونخوار درندرے ، یا کسی ظالم اِنسان ، یا کسی تباہ کُن موسم یا چیز کا سامنا کرنے کے خیال سے یا سامنا کرنے سے پیدا ہوتا ہے
بلکہ ، اللہ القوی العظیم الجبار القہار کی ناراضگی اور اُس کے عذاب سے بچنے کے لیے اُس کی نافرمانی کو ترک کرنا ہے اور اُس کی تابع فرمانی اختیار کرنا ہے ، اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ""" لا يُعَدُّ خائفاً مَن لم يكن لِلّذُنوبِ تاركاً ::: جو گناہ ترک کرنے والا نہیں ہوتا وہ(اللہ سے)خوف کرنے والا شُمار نہیں ہوتا"""،
::::::: خوف  کی اِقسام :::::::
خوف کو بنیادی طور پر دو اِقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ،
::::: (1) ::::: تعریف کیا گیا خوف ، مطلوب خوف  :::::::
یہ وہ خوف ہے جو بندے اور اللہ کی نافرمانی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اوربندے کو اللہ کی نافرمانی سے روکنے کا سبب بنتا ہے ، اور اگر  یہ خوف مطلوبہ حد سے تجاوز ہو جائے تو یہ خوف اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوسی میں داخل ہو جائے ۔
::::: (2) ::::: برا کہا گیا  خوف ، غیر مطلوب خوف  :::::::
یہ وہ خوف ہے جو بندے کو اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس کردیتا ہے ، اور بندے کو اُس کے گناہوں میں کمی کرنے کی بجائے ، مزید گناہوں پر اکساتا ہے ، اور اللہ کی مزیدنافرمانی پر مائل کرتا ہے ، مثلاً لوگوں کا یہ سوچنا کہ میں تو فلاں فلاں گناہ کرچکا ہوں یا کرتاہوں ، میری بخشش کہاں ہو گی ، لہذا اب کچھ اور بھی کر لوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ، وغیرہ ،
[[[الحمد للہ ،  اللہ سے خوف ، اور اُس کی مغفرت کی اُمید کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان """اِیمان والا اُمید اور خوف کے درمیان رہتا ہے""" پہلے نشر کر چکا ہوں، تفصیل جاننے کے خواہش مند حضرات اُس کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاءاللہ  فائدہ مند ہو گا ، یہ مضمون میرے بلاگ پر  درج ذیل ربط پر میسر ہے، http://bit.ly/1nvQa6p اور اِس کے عِلاوہ دیگر کچھ فورمز پر بھی نشر کیا گیا تھا]]]
::::: قران کریم میں لفظ """ خوف""" کا اِستعمال مختلف صیغوں میں ، اور مختلف انداز و کیفیات کا ذِکر لیے ہوئے ایک سو چوبیس (124)دفعہ ہوا ہے ،
:::::فعل کے طور پر ، جیسا کہ﴿إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ:::میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوںسُورت المائدہ(5)/آیت28،
::::: اسم کے طور پر ، جیسا کہ ﴿فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ:::لہذا جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو اُنہیں کوئی ڈر نہ  ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گےسُورت البقرہ (2)/آیت3،
::::: لا ناھیہ(ممانعت والے حکم )کے ساتھ، جیسا کہ﴿لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ:::ڈرو نہیں ، تُمہیں ظالموں کی قوم سے بچا لیا گیا  ہےسُورت القصص (28)/آیت25،
::::: لا نافیہ (کسی کام کے نہ ہونے کے بیان کے طور پر )کے ساتھ، جیسا کہ﴿وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا:::اور جوکوئی اِیمان والا نیک کام کرے گا ، تو اُسے کسی ظلم کا ڈر نہ ہو گا اور نہ ہی کسی حق تلفی کا سُورت طہٰ (20)/آیت112،
:::::  لفظ """ خوف""" قران کریم میں سات7 مختلف معانی میں استعمال فرمایا گیا ہے  :::::
::::: پہلا معنی  ٰ ::::: دُشمن سے خوف :::::
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ::: اور ہم ضرور تُم لوگوں کو ڈر و خوف ، فاقہ کشی، اور مال اور جان اور کمائی میں نقصان کے ذریعے آزمائیں گے ، اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجیےسُورت البقرہ (2)/آیت155،
اِس آیت شریفہ  کی تفسیر میں مفسر القران عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ""" اِس میں خوف سے مُراد دُشمن سے ڈر نا  ہے"""،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان﴿الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ::: جِس نے اُن لوگوں کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا ، اور اُنہیں (دُشمن  کے)خوف سے أمن دِیاسُورت قریش(106)/آیت4،
إِمام مجاھد رحمہُ اللہ نے کہا کہ"""اِس کا مطلب ہے کہ انہیں اُن کے گھروں میں ہر دُشمن سے امن دِیا (یعنی محفوظ رکھا)"""،
یاد رہے کہ دُشمن سے مُراد کوئی بھی ایسی چیز ہے جو جان ، مال ، عزت ، کمائی ، آمدن وغیرہ میں کمی یا اُس کا خاتمہ کرنے والی ہو ۔
::::: دوسرا معنی ٰ ::::: جنگ سے خوف :::::
جیسا کہ اللہ جلّ و عُلا کا فرمان ہے کہ﴿أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا::: جو لوگ تُم لوگوں  کا ساتھ دینے میں کنجوس ہیں ، جب خوف (جنگ کا خطرہ) آتا  ہے تو اُس شخص کی طرح آنکھیں پھیر پھیر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جِس شخص پر موت کی وجہ سے غشی طاری ہو رہی ہو ، لیکن  جب خوف (جنگ کا خطرہ)ٹَل جاتا ہے، تو  یہ لوگ  مال کے لالچ میں تیز زبانوں سے تم لوگوں کو اُبالتے ہیں (یعنی طعنے مارتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے خون اُبلنے لگے )، یہ لوگ(در حقیقت)اِیمان نہیں لائے ،لہذا (ان لوگوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے)اللہ نے اِن کے سارے اعمال تباہ کر دیے ،اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہےسُورت الاحزاب(33)/آیت19،
::::: تیسرا معنی  ٰ ::::: قتل ہونے یا شکست پانےسے خوف :::::
جیسا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کا فرمان ہے کہ﴿وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ::: اور جب اِن لوگوں کے پاس أمن یا خطرے کی کوئی بات  آتی ہے تو اُس بات کو پھیلانا شروع کر دیتے ہیںسُورت النِساء(4)/آیت83،
إِمام البغوی رحمہُ اللہ کہا کہ""" اِس آیت(شریفہ)میں """خوف """ کا معنی  ٰقتل ہونے یا شکست پانے کا ڈر ہے """، اور إِمام  القُرطبی رحمہُ اللہ نے اِس آیت(مُبارکہ)میں خوف کا معنی  ٰ یہ بتایا کہ"""لوگوں کا اُن کے دُشمن کے ہاتھوں نقصان اُٹھانے  کا خوف ہے """،
::::: چوتھا معنی  ٰ ::::: کسی کام کے بارے میں جان لینا ، یا اُس کے بارے میں سمجھ جانا( العِلم و الدِّرایۃ) :::::
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ::: پس جس نے یہ جان لیا کہ وصیت کرنے والے نے طرفداری کی ہے یا گناہ (والی وصیت کی ہے)تو  وہ وارثوں کے درمیان اصلاح کر دے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ، یقیناً اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہےسُورت البقرہ (2)/آیت182،
إِمام البغوی رحمہُ اللہ """اِس آیت(شریفہ)میں"""خَافَ ، ڈرا """کا معنی  ٰ ،"""عَلِمَ ، جان گیا """ بیان کیا ،
اِس معنی  ٰ کی دوسری مثال اللہ العلیم کا یہ فرمان ہے﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ::: اور اگر بیوی یہ جان لے کہ اُس کا شوہر اُس سے جفا کر رہا ہے ، یا اُس سے بے رُخی برت رہا ہے تو  پھر  وہ دونوں دونوں میاں بیوی (کچھ لینا دینا طے کر کے )آپس میں اِصلاح کر لیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں ، اور اِصلاح کرنا ہی خیر ہے ، اور نفس تو تنگ دلی اور لالچ پر مائل رہتا ہے ،اور اگر تُم لوگ  نیکی والا معاملہ کرو ، اور  تقویٰ اختیار کرو(یعنی اللہ کی ناراضگی اور خوف سےبچو)تو یقیناً اللہ وہ سب جانتا ہے جو تم لوگ  کرتے ہوسُورت النِساء(4)/آیت128،
اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں  إِمام الطبری رحمہُ اللہ نےکہا"""بیوی کا اُس کے شوہر کا کسی اور طرف مائل ہونے کے بارے میں جان لینا """،
::::: پانچواں معنی  ٰ ::::: گُمان ، اندیشہ  :::::
 جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ﴿إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ :::سِوائے اِس کے کہ وہ دونوں(میاں بیوی) یہ گمان کریں کہ وہ دونوں اللہ کی حُدود قائم نہ رکھ سکیں گے، تو اگر تُم لوگ یہ گمان کرو کہ وہ دونوں اللہ کی حُدود قائم نہ رکھ سکیں گے  تو ایسے میں  اگر عورت کچھ(مال وغیرہ) دے کر(خاوند سے) آزادی  لے لے تو اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیںسُورت البقرہ (2)/آیت229،
إِمام الطبری رحمہ ُ اللہ نے اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھا کہ"""عرب اپنی بات چیت میں کبھی """ظن (گُمان ،اندیشہ)"""کو """خوف"""کی جگہ اور کبھی """خوف """کو """ظن (گُمان ،اندیشہ)""" کی جگہ اِستعمال کرتے ہیں (اور کرتے تھے) کیونکہ اِن دونوں (یعنی ظن ، اور خوف )کے معانی (مفہوم )ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں"""،
::::: چَھٹا معنی  ٰ ::::: نُقصان ، کمی  :::::
 جیسا کہ اللہ  جلّ جلالہُ کا فرمان ہے کہ ﴿أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ :::یا(اللہ تعالیٰ ) اُن لوگوں کو نقصان (اور کمی) کی حالت میں پکڑ لے ، بے شک تُم لوگوں کا  رب بہت ہی شفیق اور رحم کرنے والا ہےسُورت النحل (16)/آیت 47،
إِمام محمد بن علی الشوکانی رحمہُ اللہ نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھا کہ"""وَقِيلَ: مَعْنَى «عَلَى تَخَوُّفٍ» : عَلَى تَنَقُّصٍ. قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، أَيْ: عَلَى تَنَقُّصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ حَتَّى أَهْلَكَهُمْ. قَالَ الْوَاحِدِيُّ: قَالَ عَامَّةُ الْمُفَسِّرِينَ: عَلَى تَخَوُّفٍ، قَالَ: تَنَقُّصٍ إِمَّا بِقَتْلٍ أَوْ بِمَوْتٍ، يَعْنِي بِنَقْصٍ مِنْ أَطْرَافِهِمْ وَنَوَاحِيهِمْ يَأْخُذُهُمُ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ حَتَّى يَأْتِيَ الْأَخْذُ عَلَى جَمِيعِهِمْ. قَالَ: وَالتَّخَوُّفُ التَّنَقُّصُ، يُقَالُ: هُوَ يَتَخَوَّفُ الْمَالَ أَيْ: يَتَنَقَّصُهُ، وَيَأْخُذُ مِنْ أَطْرَافِهِ، انْتَهَى::: اور کہا گیا کہ ﴿عَلَىٰ تَخَوُّفٍ کا معنی ہے """نقص کی حالت میں """، ابن الاعرابی کا کہنا ہے کہ ، اموال ، جان اور کمائیوں میں کمی کرتے کرتے اُن پر گرفت کرے ، یہاں تک کہ انہیں ھلاک کر دے ، الواحدی کا کہنا ہے کہ ، عمومی طور پر مفسرین کا یہ ہی کہنا ہے کہ ، تخوف کا معنی ہے ، نقصان اور کمی ، یا (ایک دوسرے کے )قتل کے ذریعے یا (کسی اور سب سے )موت کے ذریعے ، یعنی اُن لوگوں کے دائیں بائیں اور پہلوؤں سے کمی اور نقصان کے ذریعے ابتداء ہو ، یہاں تک کہ سب پر ہی گرفت ہو جائے ، اور کہا ، التخوف ، کا معنی ہے نُقص (کمی)، اور (جیسا کہ )کہا جاتا ہے کہ ، وہ شخص مال پر تخوف کرتا ہے ، یعنی اُس مال کو اُس کے بیرونی حصوں سے کم کرتا ہے """،
::::: ساتواں معنی  ٰ ::::: جو کہ عام طور پر معروف ہے ، یعنی ، ڈر   :::::
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ  کا فرمان ہے کہ ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ::: لہذا اُن لوگوں پر نہ کوئی ڈر ہو گا اور نہ ہی وہ لوگ غم زدہ ہوں گےسُورت بقرہ (2)/آیت 38، قران کریم میں یہ الفاظ مُبارکہ اِس  آیت شریفہ کے علاوہ گیارہ 11دیگر آیات مبارکہ میں بھی فرمائے گئے ہیں ،
إِمام الطبری رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ""" اُن لوگوں کو کوئی ڈر نہ ہو گا ، کیونکہ وہ اللہ کے عذاب سے بچا دیے گئے ہوں گے ، اور انہیں اپنے بارے میں اللہ کی خوشنودی کا یقین ہو چکا ہو گا ، لہذا اُنہیں اُس ڈر سے (یعنی اللہ کے عذاب کے ڈر سے )نجات دی جا چکی ہو گی جِس ڈر کا وہ دُنیا میں شِکار رہتے تھے"""،
اور جیسا کہ اللہ الغفور الرحیم کا اِرشاد گرامی ہے کہ﴿ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ:::بے شک جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے ، اور پھر(اِس بات پر) ڈٹے رہتے ہیں، اُن لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (جو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں )کہ تُم لوگ ڈرو نہیں ، اور نہ ہی غم زدہ ہو ، اور تم لوگوں کو جنّت کی خوشخبری دِی جاتی ہے، جِس جنّت کا تُم سے وعدہ کیا جاتا تھا سُورت فُصلت (41)/آیت 30،
مفسرین نے اس آیت آیت شریفہ کی تفسیر میں کہا کہ"""تم لوگ اپنی موت کے بعد جس طرف جا رہے ہو اُس کے بارے میں مت ڈرو ، اور نہ ہی اپنے پیچھے کے معاملات کے بارے میں """،
قران کریم میں اس مذکورہ بالا معنی  ٰ اور مفہوم کے مطابق """خوف """ کا اِستعمال کئی دیگر مقامات پر بھی ہوا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اُس کا کلام اُس کی مُراد کے مطابق سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور ہمیں بد عقلوں  کی گمراہ عقلوں ، فلسفوں  اور افکار کے شر سے محفوظ رکھے جو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام کو اُن کی مُراد کے خِلاف سمجھنے اور سمجھانے کی طرف مائل کرتے ہیں ،  والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 21/04/1435 ہجری ، بمطابق ، 22/04/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔