Wednesday, July 30, 2014

::::::: یہود و نصاری اور دیگر کافروں کا انجام :::::::

 :::::::یہود و نصاریٰ اور دیگر کافروں کا انجام ::::::: 
بِسّمِ اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم
الحَمدُ للّہِ الَّذی لا اِلہَ اِلَّا ھُوَ و الذی اَرسلَ رَسولَہُ بالھُدیٰ و أنزلَ عَلیہِ  کِتاباً تَبیاناً لِکُلِ شیءٍ و أَعطاءہُ مع الکِتابِ مِثلَہُ
تمام تر خالص اور سچی تعریف صِرف اللہ کے لیے ہے ، اُس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، اللہ وہی ہے جِس نے ہدایت کے ساتھ  اپنا رسول بھیجا اور اُس رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر کتاب نازل فرمائی جو ہر ایک چیز کی وضاحت لیے ہوئے ہے اور اُس رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس کتاب کے ساتھ مزید  اُسی کتاب کے جیسا علم و عرفان بھی عطاء فرمایا،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام شریف قران حکیم میں سے دو فرامین کے بارے میں کچھ اوہام اور سوالات پڑھنے سننے میں آئے ،تو خیال ہوا کہ اِن فرامین کی دُرُست تفسیر کا ذِکر کروں ، اور جو اوہام ، اور سوالات اِن آیات کریمہ کو غلط طور پر سمجھنے کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں ، یا کیے جاتے ہیں ، اُن  کی غلطی  اللہ  ہی کے کلام مُبارک اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ (جو کہ اللہ کی وحی ہیں)کی روشنی میں واضح کر دیا جائے ، اللہ تبارک و تعالیٰ میری اس کوشش کو قبول فرمائے اور اسے میرے اور سب ہی پڑھنے سننے والوں کے دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر اور کامیابیوں کے اسباب میں بنادے،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک قران کریم  میں سے جِن دو آیات مُبارکہ کی میں نے ابھی بات کی کہ کچھ لوگ  اُنہیں غلط طور پر  سمجھتے اور سمجھاتے ہیں ، وہ دو آیات شریفہ  درج ذیل ہیں ،
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ   :::بے شک وہ لوگ جو اِیمان لائے ، اور وہ جو یہودی  تھے اور عیسائی تھے اور صابی تھے ، (اُن میں سے )جو کوئی  اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان لایا اور نیک عمل کیے تو اُن لوگوں کے لیے اُن کے رب کے پاس أجر ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے سورت البقرہ (2)/آیت 62،
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وعَمِلَ صَالِحاً فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ:::بے شک وہ لوگ جو اِیمان لائے ، اور وہ جو یہودی  تھے اور نصاریٰ (عیسائی) تھے اورصابی تھے ، (اُن میں سے )جو کوئی  اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان لایا اور نیک عمل کیے تو اُن لوگوں کے لیے اُن کے رب کے پاس أجر ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے سورت المائدۃ (5)/آیت 69،
کچھ لوگ اِن دو آیات مبارکہ میں اِستعمال شدہ الفاظ کی وجہ سے اِس وہم کا شکار ہوجاتے ہیں کہ""" اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ، عیسائی ، صابی وغیرہ یا کوئی بھی اور غیر مُسلم اگر صرف اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نیک عمل کریں تو ان کو آخرت میں اجر و ثواب ملے گا """، اور اس غلط فہمی  کا ایک فلسفیانہ نتیجہ یہ بھی نکال لاتے ہیں  کہ """ جو کوئی اللہ  اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے کافر نہیں کہا  جا سکتا ،اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دِن پر ایمان رکھنے کے ساتھ نیک عمل کرتا ہو اُس کے لیے آخرت میں اجر و ثواب بھی ہے""" ،  
جی تو چاہتا ہے کہ ان سے یہ پوچھا ہی جائے کہ یہودی اور نصاری تو جانے  پہچانے لوگ ہیں ، ذرا مصدقہ طور پر یہ تو بتایے کہ یہ صابی کون تھے یا ہیں ؟؟؟
بہرحا ل ،،،،،اِ ن لوگوں کے اِس مذکورہ بالا وہم اور غلط نتیجے تک پہنچنے  کا سبب پہنچنے والوں کی تفسیر القران کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مناہج سے دُوری ہے،  جِس دُوری کا عمومی سبب اُن مناہج سے لاعلمی ہوتا ہے ، ان مناہج کا تعارفی سا  ذِکر اِن شاء اللہ میں آگے کروں گا ،
اِن شاء اللہ ، میں  اِس مضمون  میں اِن غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے اللہ  تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک قران کریم میں سے ہی بہت سے دلائل پیش کروں گا ، 
لیکن اُس سے پہلے میں انہی دو آیات مبارکہ  میں بیان کردہ  دو أہم نکات ، دو أہم مسائل کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، کہ اگر انہیں سمجھ لیا جائےتو مزید کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، لیکن اِن شاء اللہ ، جیسا کہ میں نے ابھی ابھی کہا ، کہ میں اِن آیات مُبارکہ کو غلط طور پر سمجھنے اور سمجھانے والوں کی غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے بہت سے دلائل پیش کروں گا ،
::::: دو أہم نکات ، دو أہم مسائل :::::
::::: (1) ::::: اِن دو  آیات مُبارکہ میں  اللہ تبارک و تعالیٰ نے فقط سابقہ امتوں میں سے ہو گذرے  ایسے لوگوں کے لیے آخرت کے انعام کی خبر دی ہے ، جنہوں نے ان تک پہنچنے والے نبی یا رسول علیہ السلام کے ذریعے ملنے والے ، اللہ کے فرامین اور احکام کے مُطابق، اللہ پر ، یومء آخرت پر اور اُس نبی یا رسول علیہ السلام  پر اِیمان لائے ، اور پھر کسی تحریف اور تبدیلی وغیرہ کے بغیر  انہی احکام اور تعلیمات کے موافق عمل کیے  ،
:::::(2) ::::: جو کوئی اللہ کی نازل فرمودہ آخری کتاب قران کریم پر ایمان نہیں رکھتا ، اور اللہ کے رسولوں میں سے کسی ایک  کی رسالت کا بھی انکاری ہے،اور  اِس بات پر ایمان نہیں رکھتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول تھے ، اور آخری رسول تھے،اُن کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں تھا ، اور نہ ہی ہونے والا ہے ،
 اور اللہ کے اور اللہ کے احکام اور وحی کے مطابق ہی  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کیے ہوئے حلال و حرام کو حلال و حرام نہیں مانتا ، وہ اللہ کے ہاں کافر ہے ، اور دُنیا میں بھی اُس کا شمار کافروں میں ہی ہے ،
ہم اگر صِرف یہاں زیر مطالعہ ، مذکورہ بالا دو آیات مُبارکہ کے الفاظ پر ہی غور کریں تو میری طرف سے بیان کیے گئے مذکورہ بالا دونوں نُکات ، دونوں مسائل کی دلیل میسر ہو جاتی ہے ،
تحمل ، تسلی اور توجہ کے ساتھ غور فرماتے ہوئے پڑھتے چلیے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بات کا آغاز فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ:::بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے  
اور پھر ایک الگ گروہ کا ذِکر فرمایا ،  جو اِیمان والوں میں شُمار نہیں ہوتا ، کفر والوں  کا گروہ ، کافروں کا گروہ،
جیسا کہ ایک اور (درج ذیل)فرمان میں  اِیمان والوں کے علاوہ دو ایسے گروہوں کا ذِکر فرمایا جو اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ کفر کرنے والے کافر  ہیں، اور شرک کرنے والے مُشرک ہیں﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ::: بے شک وہ لوگ جو اِیمان لائے ، اور وہ جو یہودی  تھے اور صابی تھے اور عیسائی تھے اور  شرک کرنے والوں میں سے تھے ،بے شک اللہ ان سب کا فیصلہ قیامت والے دِن فرما دے گا  بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے سورت الحج /آیت 17،
اب بھلا کوئی درست  عقل رکھنے والا یہ  گمان کر سکتا ہے کہ چونکہ اِن سب گروہوں یا جماعتوں کا ذِکر اکٹھا کیا گیا ہے لہذا سب ایک ہی جیسے ہیں !!!؟؟؟
اِن شاء اللہ کوئی بھی درست عقل رکھنے والا ایسا گمان بھی نہیں کرے گا ، بلکہ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اِس آیت مبارکہ میں تین گروہوں کا ذِکر فرمایا گیا ہے ، ایک اِیمان والوں کا گروہ ، اور دوسرا کافروں کا گروہ ، اور تیسرا مشرکوں کا گروہ ،
اوریہ کہ دوسرے گروہ میں سے چار قوموں کا نام لیا گیا ہے ، یہودی ، عیسائی (نصاریٰ)، صابی، اور مجوس (آگ کی عبادت کرنے والے ایرانی )،
اور پھر تیسرے گروہ میں ہر اُس جِن و اِنس کو شامل کیا گیا ہے جو اِن لوگوں کے ادیان و مذاھب کا پیروکار نہیں لیکن شرک کرنے والوں میں سے تھا اور ہے ،  
لہذامیری بات کے آغاز میں ذِکر کردہ ، ہمارے زیر مطالعہ  دو آیات شریفہ میں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اِیمان والوں کا ذِکر فرمانے کے بعد ایک الگ گروہ کے طور پر اہل کفر کا ذِکر فرمایا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے ہاں یہ سب گروہ، اور  اِن کا ہر ایک فرد اِیمان والوں میں سے نہیں ،
پس اُن دو آیات مُبارکہ میں مذکور یہودی ، نصاریٰ اور صابی اِیمان والوں سے الگ دوسرا گروہ  ہیں ، جو یقینی طور پر اِیمان والوں کا متضاد گروہ  یعنی کافر  گروہ ہے ، کیونکہ اِیمان اور کفر کے درمیان کوئی تیسرا درجہ نہیں ، پس انسانوں اور جِنّات میں  اِیمان والوں اور کفر والوں کے علاوہ کوئی تیسرا گروہ نہیں ،  یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اِیمان والوں اور کافروں کے درمیان میں  منافق ہوتے ہیں ،  ایسا سمجھنا درست نہیں کیونکہ مُنافق بھی درحقیقت باطن میں کافر ہی ہوتا ہے صِرف اپنے آپ کو اِیمان والا ظاہر کر رہا ہوتا ہے ،
اور جانتے بوجھتے ہوئے شرک کرنے والا بھی کافر ہوتا ہے ،
اور جو کوئی کسی شرکیہ عمل کو شرک کی بجائے نیکی والا کام سمجھ کر کر رہا ہو، تو وہ عملی طور پر اللہ کے فرامین کاانکار کرنے والا ہوتا ہے ،
لہذا اِنسانوں میں یا تو اِیمان والے ہیں ، اور یا کفر والے ، ہماری بات کے آغاز میں ذِکر کردہ دونوں ہی آیات مُبارکہ  کے شروع میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے پہلے اِیمان والوں کا ذِکر فرمایا اور پھر اُس کے بعد کافر گروہ میں سےتین مختلف قوموں کا ذِکر فرمایا ﴿وَالَّذِينَ هَادُواْ، وَالنَّصَارَى، وَالصَّابِئِينَ::: اور وہ جو یہودی  تھے، اور عیسائی تھے ،اور صابی تھے
﴿وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّابِئُونَ، وَالنَّصَارَى:::بے شک وہ لوگ جو اِیمان لائے ، اور وہ جو یہودی  تھے اور نصاریٰ(عیسائی) تھے اور صابی تھے  
یہاں ، غور کرنے کا مقام یہ  ہے کہ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِیمان لانے والوں کا الگ ذِکر فرمایا جو اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ جب اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا تو اُس وقت اللہ کے ہاں صرف وہی لوگ اِیمان والے مقبول ہوئے جو اللہ کے آخری فرامین پر ایمان لائے ،اور اُن فرامین کے مطابق  اللہ کے تمام انبیاء اور رُسل علیہم السلام پر ایمان لائے ہوں ، اللہ کی نازل کردہ ساری ہی کتابوں پر اِیمان لائے ہوں ،
 نہ کہ یہودیوں ، عیسائیوں ، صابیوں یا دیگر اقوام میں سے ہر وہ شخص  اِیمان والا قرار پایا جو صرف اللہ اور یوم ء آخرت پر اِیمان رکھتا ہو،اور اُس تک پہنچنے والے نبی یا رسول علیہ السلام پر اور اُس نبی یا رسول علیہ السلام سے پہلے والے انبیاء اور رُسل علیہم السلام پر اِیمان نہ رکھتا ہو ، اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ ساری ہی کتابوں پر اِیمان رکھتا ہو،
 اگر صرف اتنا ہی ہوتا کہ، اللہ اور یوم ء آخرت پر ایمان لانے والا اللہ کے ہاں مُطلقاً اِیمان والا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں کو اِیمان والوں سے الگ اُن کے اُن ہی ناموں سے ذکر نہ فرماتےجو اُن کے بے اِیمان ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں ،
 بلکہ اتنا کہنا ہی کافی ہوتا کہ """"" إنَ الَذينَ آمَنُوا  باللَّه واليَومِ الآخرِ وعَمِلُوا صَالحاً  ،،،،،،،،،،،:::بے شک جو لوگ ایمان لائے اللہ اور آخرت کے دِن پر  اور نیک عمل کیے ،،،،،،،، """"" تو  کچھ اُس طرح کی سی بات  بننے لگتی جو کچھ لوگ بنانا چاہتے ہیں ،اور کچھ اُس مفہوم کا موجود ہونے کا امکان سا ہوتا جو کچھ اِن آیات کو غلط طور پر سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں،سمجھانے کی کوشش کرتے  ہیں ،
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن دونوں آیات کریمہ میں  اِیمان لانے والوں اور یہودیوں ، عیسائیوں اور صابیوں کو الگ الگ ذِکر فرما کر یہ واضح فرما دیا کہ اب میری اِس آخری کتاب کے نزول کے بعد ، میرے اِس آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی بعثت کے بعد اور میری اِس آخری شریعت کے ظہور  اور کے بعد ، جو کوئی بھی اِن سب پر اور اِن کی جزئیات پر اِیمان نہیں رکھتا وہ میرے ہاں اِیمان والوں میں  سے نہیں ،
رہا معاملہ اُس سے پہلے والوں کا، تو اُن میں سے جِس کسی نے بھی مجھ پر اور یومء آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال کیے اُس کا اجر میرے پاس محفوط ہے ،
خیال رہے کہ اللہ پر اور یوم آخرت پر اِیمان وہی شخص لایا ہو گا جِس نے اپنے پاس پہنچنے والے کسی نبی یا رسول علیہ السلام کی دعوت قبول کی ہو گی ، جِس کا لازمی جُز اُس نبی یا رسول علیہ السلام کی نبوت یا رسالت پر اِیمان ہے، یا اُس تک پہنچنے والی کسی نبی یا رسول علیہ السلام کی تعلیمات پر اِیمان لایا ہو گا ، اور اس کا بھی لازمی جُز اُس نبی یا رسول علیہ السلام کی نبوت یا رسالت پر اِیمان ہے ، کیونکہ اس اِیمان کے بغیر وہ اُس نبی یا رسول علیہ السلام کی بات ماننے والا نہیں بن سکتا، میرے اس بیان کی تاکید یہاں اسی آیت  مُبارکہ میں موجود ہے ،
کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے  اِن دونوں آیات شریفہ میں سابقہ اُمتوں میں سے اللہ اور یومء آخرت پر اِیمان لانے والوں  کے لیے اجر و ثواب کی خوشخبری ایک اور  تیسری چیز سے مربوط فرمائی ، اور وہ چیز ہے"عمل صالح ، یعنی نیک عمل "،
اوراِس حقیقت میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں """ عمل صالح """ وہی ہے جو اُس کی شریعت میں اُس کی طرف سے مقبول  ہو ، اور اُس کے نبی یا رسول علیہ السلام کےاقوال و  اعمال کی موافقت رکھتا ہو ،
پس اِس تیسری چیز میں یہ شرط ہے کہ وہ شخص اس تک پہنچنے والے نبی یا نبی کی دعوت کے مطابق نیک عمل کرتا ہو نہ کہ اپنی مرضی سے بنائے ہوئے اعمال ،
جی ہاں ، اور یقینی طور پر جی ہاں ، ایسا نہ تھا اور نہ ہے کہ کوئی بھی شخص اُس  تک پہنچنے والے نبی ، یا اُس نبی کی نبوت کی سچی تصدیق شدہ خبر ملنے پر  اُس کی نبوت پر اِیمان نہ لائے ، یا جزوی طور پر اِیمان رکھے یا اپنے طور پر مشروط کر کے اِیمان رکھے ،اور اُس نبی علیہ السلام کی تعلیمات پر پرکھے بغیر جس عمل کو وہ اپنے طور پر صالح (نیک)سمجھے کرتا رہےتو وہ اللہ کے ہاں اِن دونوں  آیات میں مذکور اجر و ثواب کا حق دار ہو گیا ،  
تو، الحمد للہ ، اِن دونوں مذکورہ بالا آیات کریمہ  میں سے ہی یہ  واضح ہوگیا کہ اِن دونوں مذکورہ بالا آیات شریفہ میں مذکورغیر مُسلم قوموں میں سے جِن تین قوموں کے لیے  جو اجر و ثواب کی خوشخبری بیان ہوئی ہے ،وہ بلا تمیز و لحاظ ساری ہی قوم کے لیے نہیں ، قوم کے ہر فرد کے لیے نہیں ، بلکہ  اُن قوموں میں سے ایسے لوگوں کے لیے ہے  جو محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہو گذرے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی آخری کتاب کے نزول سے پہلے ہو گذرے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی آخری شریعت کے نازل ہونے سے پہلے ہو گذرے ، اور اپنے تک پہنچنے والے انبیاء اور رُسل  علیہم السلام کی اطاعت کرتے رہے ، اُن کی تعلیمات کے مطابق اللہ اور یوم آخرت پر اِیمان لائے اور اُن کی تعلیمات کے مُطابق نیک عمل کیے ،
اچھی طرح سے سمجھ لیجیے محترم قارئین ، اور اسے یاد رکھیے ، کہ کسی شریعت کے کسی حکم پر عمل اُسی وقت تک نیکی رہتا ہے جب تک وہ حکم برقرار رہے ، جب تک وہ شریعت برقرار ہو ،  اور جب وہ حکم منسوخ ہو جائے ، وہ شریعت ہی منسوخ ہو جائے تو اُس شریعت پر ، اُس کےکسی حکم پر عمل کرنا نیکی نہیں بلکہ گناہ ہو جاتا ہے ،
لہذا،جو کوئی بھی  اللہ کی آخری کتاب کے نزول کے بعد ، اللہ کے آخری رسول محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے بعد ، اللہ کے آخری دِین ، اور آخری شریعت کے ظہور کے بعد ان تینوں چیزوں پر ان کے لوازم کے ساتھ اِیمان نہیں لاتا، بلکہ سابقہ شریعتوں کے نام پر پائی جانی والی غلط اور صحیح باتوں پر اِیمان رکھتا ہے اور ان کے مطابق ہی عمل کرتا ہے وہ کافر ہے ،دُنیا اور آخرت میں  کسی انعام و اکرام کا مُستحق نہیں ،
((( ::: ملاحظہ :::  بحیثت انسان اُس کے رب نے اُس کے جو حقوق مقرر کیے ہیں ان کی ا دائیگی مسلمان کو کرنا ہی چاہیے ، لیکن کافر  کے ایسے حقوق کی ادائیگی اور کافر سے محبت ، اُس کی عزت اور اس کا اکرام مختلف معاملات ہیں ،لہذا ان معاملات کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کیا جانا چاہیے اورہرایک معاملے اور مسئلے کو اُس کی جگہ پر رکھتے ہوئے سمجھا جانا چاہیے ، اِس موضوع پر کئی دفعہ بات کر چکا ہوں، یہاں زیر مطالعہ مسئلے اور اپنے رواں موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں کہ)))  
یہاں تک میری کہی ہوئی دو باتوں  کی وضاحت ایک پہلو سے ، ایک زوایہ سے ہوئی ، الحمد للہ کہ اِس وضاحت میں کہی گئی ہر بات  کی دلیل اللہ کے کلام میں سے ہی میسر ہے ،
یہ دلائل پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ، ہم اللہ کے کلام کو محض لغوی معانی اور مفاہیم ،ترجموں ، خود ساختہ فلسفوں ،مَن گھڑت کسوٹیوں ، ذاتی افکار یا غیر مصدقہ باتوں ، قصوں کہانیوں ، خیالوں ،خوابوں اور قلبی روایتوں وغیرہ وغیرہ کی بنا پر نہیں سمجھتے اور نہ ہی یہ منھج کسی اِیمان والے کے شان شایان ہے ،
ہم اللہ کے کلام کو اللہ کے ہی بتائے ہوئے طریقوں سے سمجھتے ہیں ، جو کہ بالترتیب یہ ہیں :::
::: (1) ::: اللہ تعالیٰ کے کلام  پاک کو اللہ کے کلام  مُبارک کی مدد سے ، اُس کلام مُبارک میں سے ہی سمجھا جائے ،
::: (2) ::: اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کے ذریعے سمجھا جائے،(یاد رہے کہ سُنّت مبارکہ سےمُراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُبارک ،پاک با برکت ، معصوم باتیں، کام ، اور دوسروں کی کسی بات یا کام پر کوئی انکار نہ فرمانے کی صُورت میں شرفء قبولیت عطاء فرمانا ہے)۔
::: (3) ::: اللہ تعالیٰ کے کلام  پاک کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کےصحیح ثابت شدہ  اقوال و افعال کی روشنی میں سمجھا جائے ،
اِس کے بعد بھی اگر  ہمارے لیے کوئی معاملہ واضح نہ ہو سکے تو علم و فضل اور زھد و تقویٰ  کے درجات کے مُطابق اُمت کے أئمہ اور عُلماءرحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں سمجھا جائے ،
لیکن محض لغوی معانی اور مفاہیم ،ترجموں ، خود ساختہ فلسفوں ،مَن گھڑت کسوٹیوں ، اپنے ذاتی افکار یا غیر مصدقہ باتوں ، قصوں کہانیوں ، خیالوں ،خوابوں اور قلبی روایتوں وغیرہ وغیرہ کے مُطابق قران کو سمجھنے سمجھانے کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ،
میرا موضوع اس وقت منجاھج التفسیر نہیں ،اِن شاء اللہ کسی وقت اِس موضوع کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات میسر کروں گا ، اِس  وقت صِرف  زیر تفہیم ، مذکورہ بالا دو آیات مُبارکہ کی تفسیر کے طور پر جو کچھ کہا ہے اُس  کی عنوان بندی کرتے ہوئے ، اللہ کی کتاب میں سے کچھ دلائل پیش کرتا ہوں ،
::::::: اللہ کی آخری کتاب قران کریم  پر ایمان نہ رکھنے  والا کافر ہے ،  اِیمان والوں میں شمار نہیں ہوتا :::::::
اللہ پاک  کے درج ذیل فرامین کو پڑھیے :::
::::: جو اللہ کی کتاب پر اِیمان نہیں رکھتے وہ ہدایت والے نہیں ، اور نہ ہی آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں میں سے ہیں،﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ O الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ O وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ O أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ::: اس  کتاب (قُران)میں کوئی شک نہیں (کہ یہ)تقویٰ والوں کے لیے ہدایت ہےO(یعنی)وہ لوگ جو غیب (سے ہی)اِیمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دِیا اُس میں سے خرچ کرتے ہیں O اور وہ لوگ جو اُس پر اِیمان رکھتے ہیں جو کچھ (اے رسول)آپ کی طرف نازل کیا گیا ،اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  O یہی ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر  ہیں اور یہی ہیں کامیابی پانے والے سورت البقرہ (2)/ آیات رقم 2 تا 5 ۔
ç جو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل کی جانے والی وحی پر اِیمان نہیں رکھتے وہ لوگ انکار کرنے والے کافر ہیں اور باطل کے پیروکار ہیں ، اور ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں کسی مسلمان کو ادنی سا بھی شک نہیں ہوسکتا کہ وہ  لوگ آخرت میں تباہی اور دردناک عذاب پانے والوں میں ہوں گے ، جس کی خبر اللہ پاک نے اپنے بہت سے فرامین میں فرمائی ہے ،
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ O ذَلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ::: اور وہ لوگ جو اِیمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور اُس پر اِیمان لائے جو کچھ محمد پر اتارا گیا اور (اِس پر اِیمان لائے کہ جو کچھ اتارا گیا) وہ اُن  لوگوں کے رب کی طرف سے  حق ہے اللہ اُن لوگوں (کے حساب میں سے اُن)کی برائیوں کو مٹا دے گا ، اور اُن کے معاملات کی اصلاح کرے گا O یہ اس لیے  ہےکہ جنہوں نے کفر کیا اور باطل کی پیروی کی اور جو اِیمان لائے انہوں نے اُن کے رب کی طرف سے(آنے والے) حق کی پیروی کی، اللہ لوگوں (کو سمجھانے )کےلیے اِسی طرح مثالیں بیان فرماتا ہےسُورت مُحمد(47)/آیات،2،3،
ç  مذکورہ بالا آیات مبارکہ کے ضِمن میں کچھ دیگر احکام فرماتے ہوئے اللہ پاک نے یہ فیصلہ بھی بڑی ہی وضاحت کے ساتھ سُنا دیا کہ جو لوگ  اللہ  کی نازل کردہ آخری کتاب قران کریم کو ، اور جو کچھ وحی میں سے اللہ نے نازل فرمایا،پسند نہیں کرتے ، اُن لوگوں کا کوئی عمل نیک عمل نہیں ، بلکہ اُن کے سب کام غلط راہ پرہیں ، لہذا اللہ اُن کے سب کاموں کو آخرت میں تباہ کردے گا،اور اُن  لوگوں کے لیے اُن کے کسی کام کے بدلے میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہو گا ۔
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ O ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ :::اور جو لوگ(اللہ کی وحی ، اللہ کے رسول ، اور اللہ اور رسول کی تعلیمات کا) انکار کرتے ہیں تو اُن کے لیے(ہلاکت اور) تباہی ہے اور اللہ  اُن لوگوں کے (سارے ہی) کام اکارت کر دے گا  O یہ اس لیے ہے کہ  ان لوگوں نے وہ  پسند نہیں کیا جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا، لہذا اللہ نے اُن کے (سب ہی) کام ضائع کردیے سُورت مُحمد(47)/آیات،8،9،
ç  اللہ تعالیٰ نے اُس کی کتاب پر اِیمان ، اُس کتاب سے مُحبت اور اُس کتاب پر عمل کرنے والوں کے دعویٰ داروں کے دعویٰ کی حقیقت جاننے کی کسوٹی بھی بیان فرما دی ہے ، عملی اِیمان اور  مُحبت  اور عملی کفر کو ظاہر کرنے کی کسوٹی ،کہ جوجس قدر اس کسوٹی پر پورا اترے گا اُسی قدر اُس کے اِیمان کا درجہ ہو گا اور اسی کے مطابق اسے اللہ کی کتاب پر اِیمان والا ، مُحبت کرنے والا ، اُس کتاب پر عمل کرنے والا ،یا صِرف اِیمان کا دعویٰ کرنے والا ، یا صِرف مُحبت کا دعویٰ کرنے والا ، یا صِرف عمل کا دعویٰ کرنے والا ، یا پھر بالکل ہی بے اِیمان ، اللہ کی کتاب سے مُحبت نہ کرنے والا ، اللہ کی کتاب پر عمل نہ کرنے والا مانا جائے گا،  
﴿الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ:::وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اُس کتاب کی پڑھائی کے حق کے مطابق اُس کتاب کو پڑھتے ہیں، وہی لوگ اُس کتاب پر اِیمان رکھنے والے ہیں ، اور جو اُس کتاب کا انکار کرتا ہے(اِسے نہیں مانتا ، اس پر اِیمان نہیں رکھتا )تو وہی لوگ(آخرت میں)نقصان پانے والے ہیں  سُورت البقرہ (2)/آیت121،
یہ کسوٹی اللہ کی ہر کتاب پر اِیمان لانے  کے دعویٰ داروں کے دعوے کی سچائی کی پرکھ کے لیے ، اور اللہ کی آخری کتاب قران کریم پر اُسی کے مُطابق اِیمان نہ رکھنے والوں کے کافر ہونے کی پہچان کے لیے ہے،کیونکہ آخرت کے نقصان کی خبر یں سچے اِیمان والوں اور حقیقی طور پر نیک کام کرنے والوں کے لیے نہیں ہیں۔
ç  اللہ کی کتاب پر اِیمان لانے کا حُکم صِرف یہی معنی نہیں رکھتا کہ اِیمان لانے کا اقرار  کر لیا جائے ، بلکہ اُس پر مکمل عمل کرنا اُس پر اِیمان لانے کا لازمی جُز ہے ، جس کے بغیر اِیمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی ،
صِرف ز ُبانی اقرار کرنے والا، ز ُبانی اِیمان لانے والا  مُسلمان تو کہلائے گا ،مکمل  اِیمان والا نہیں ،
جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، ذرا اِس درج ذیل آیت پر بھی غور فرمایے کہ اللہ تعالیٰ نے اِیمان لانے والوں کو پُکار کر اللہ ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اور اُس کی کتاب پر اِیمان لانے کا حُکم دِیا ، اس کا کیا مفہوم ہے ؟؟؟
ایک طرف تو اللہ تبارک و تعالیٰ خود ہی اُن لوگوں کو اِیمان لانے والے بھی فرما رہا ہے ، اور پھر انہیں اِیمان لانے کا حُکم بھی دے رہا !!! ؟؟؟
اس کا مفہوم وہی ہے جو میں نے ابھی ابھی بیان کیا کہ اللہ کی کتاب پر اِیمان لانے کا حُکم صِرف یہی معنی نہیں رکھتا کہ اِیمان لانے کا اقرار  کر لیا جائے ، بلکہ اُس پر مکمل عمل کرنا اُس پر اِیمان لانے کا لازمی جُز ہے ، جس کے بغیر اِیمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی ،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ::: اے اِیمان لانے والو ، اِیمان لے آؤ اللہ پر ، اور اُس کے رسول پر ، اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اُتاری ہے ، اور اُن کتابوں پر جو اُس سے پہلے اُتاری گئیں ، اور جو کوئی اللہ کا ، اور اُس فرشتوں کا ، اور اُس کے رسولوں کا ، اور آخرت کے دِن کا اِنکار کرے گا تو یقیناً وہ (حق اور اِیمان سے کہیں )بڑی دُور کی گمراہی میں جا پڑا سُورت النساء(4)/آیت136،
تو پھر اُن لوگوں کو کس طرح کسی اچھے انجام کا مستحق سمجھا جا سکتا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ راہ کو چھوڑ کر  اتنی دُور کی گمراہی میں   پڑے ہوئے ہوں کہ اللہ کی کتاب قران کریم پر اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان ہی نہ رکھتے ہوں ، 
ç  اس آیت مُبارکہ کی تفیسر میں یہ بھی منقول ہے کہ اس میں اِیمان لانے والے سابقہ اُمتوں میں سے اُن  کو دی گئی شریعتوں مُطابق اِیمان لانے والوں کو کہا گیا ہے ، اور انہیں یہ حکم دِیا گیا ہے کہ اب پھر سے اللہ پر ، اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر، اور اُس کی کتاب قران کریم پر  اِیمان لاؤ، ورنہ تم لوگ بڑی دُور کی گمراہی میں ہو،
ç  یعنی اب تُمہارے سابقہ اِیمان کسی کام آنے والے نہیں ،  
یہاں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے دُوری کی تعلیم کا پرچار کرنے والوں سے یہ سوال کروں گا کہ اِس مذکورہ بالا آیت مُبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ، اللہ پر اِیمان کے بعد ، اور اللہ کی کتاب پر اِیمان سے پہلے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اِیمان لانے کا حُکم کیوں فرمایا ؟؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان لانے کو کتاب اللہ پر اِیمان لانے پر مُقدم کیوں فرمایا ؟؟؟
یاد رکھیے ، خوب یاد رکھیے ، بلکہ اِس پر اِیمان رکھیے کیونکہ یہ حق ہے ، کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا ہر حکم حق ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان لانا اور اُن کی غیر مشروط طور پر اطاعت کرنا اللہ کا حکم ہے ،  اور اُس کے ہر حکم کی تعمیل کرنا ہی  انسانوں کے اللہ کی طرف سے اُس کی رضا کے ساتھ چُنی ہوئی ، مقرر کی ہوئی ہے ، جو کوئی اللہ کے اِس راستے سے گمراہ ہوتا ہے اُس کے لیے آخرت میں  درناک عذاب ہی مقرر کیا گیا ہے ، خواہ وہ کسی طور اِیمان والوں کی گنتی میں گن بھی لیا جائے تو بھی، اللہ کا راستہ چھوڑنے کے سبب آخرت میں اجر و ثواب پانے والوں میں نہ ہوگا ،
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ ::: جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں اُن کے لیے( آخرت میں )سخت ترین عذاب ہے کیونکہ (عملی طور پر وہ لوگ)حساب کے دِن کو بھول چکے ہوتے ہیں  سُورت ص (38)/آیت26 ،  
تو  پھر کسی کو یہ گمان ہو کہ جو کوئی بھی صرف اللہ اور آخرت پر اِیمان رکھنے والا محسوس ہوتا ہو ، ایسے اِیمان کا اظہار کرتا ہو ، تو اُس کو آخرت میں اجر و ثواب ملے گا ، خواہ نہ تو اللہ کی کتاب قران پر اِیمان رکھتا ہو، نہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھتا ہو، یعنی اللہ کی مقرر کردہ راہ سے مکمل طور پر بھٹکا ہوا ہو ،
اللہ کی راہ سے بھٹکے ہوئے اور اللہ کے فرامین کا انکار کرنے والوں  کے انجام کا منظر دکھاتے ہوئے اللہ پاک نےبڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اُن کے ساتھ قیامت والے دِن کیا کیا ہو گا، سورت الواقعہ میں اصحاب الشمال یعنی اللہ کی راہ سے بھٹکے ہوئے اور اللہ کے فرامین کا انکار کرنے والوں کے انجام کی خبریں آیت رقم 41 تا 56 پڑھ لیجیے ۔
:::::: آخرت پر اِیمان رکھنے کا لازمی جُز قران پر ایمان رکھنا ہے  ::::::
ç  کسی کے طرف سے اللہ پر ، اور پھر آخرت پر اِیمان رکھنے کا دعویٰ ، یا کسی کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ چونکہ وہ آخرت پر اِیمان رکھتا ہے لہذا وہ اللہ کے ہاں اجر و ثواب پائے گا ، دونوں ہی اللہ پاک  کے درج ذیل فرمان مُبارک کی روشنی  بے کار ، بے وقعت اور قطعا غلط ہیں ،
اللہ تبار ک و تعالیٰ کا اِرشادء گرامی ہے﴿وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ يُحَافِظُونَ ::: اور یہ با برکت کتاب جسے ہم نے نازل کیا ہے جو اپنے سے پہلی والی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور(جو) اس لیے(نازل کی گئی )ہے کہ آپ مکہ اور اس کے اِرد گِرد کے لوگوں کو آگاہ فرما دیں ، اور جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ اِس کتاب(قران کریم) پر بھی اِیمان رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاطت کرتے ہیں سُورت الانعام(6) /آیت 92،
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ قران کے نزول کے بعد سے آخرت پر اِیمان والا اُسے ہی سمجھا جائے گا جو اِس قران پر بھی اِیمان رکھتا ہو ،
یعنی اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ جو قران پر اِیمان نہیں رکھتا اُس کا آخرت پر اِیمان رکھنا کچھ حیثیت نہیں رکھتا ، تو ہماری زیر تفہیم دو آیات میں اللہ پر اور یومء آخرت پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے پر اجر پانے والے وہ لوگ ہوئے جو نزول ء قران سے پہلے یومء آخرت پر ایمان رکھتے تھےکیونکہ نزول قران کے بعد تو صرف اسی کا اِیمان آخرت پر درست مانا جا سکتا ہے جو قران پر بھی اِیمان رکھتا ہو ۔
::::::: اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان نہ رکھنے  والا کافر ہے ،  اِیمان والوں میں شمار نہیں ہوتا :::::::
ç   اللہ تبارک و تعالیٰ  نے تمام تر انبیاء اور رُسُل علیہم السلام پر ایمان نہ لانے والوں کو ، اور جزوی طور پر اِیمان رکھنے والوں کو یقینی  کافر قرار دیا ہے، اور دردناک عذاب پانے والے قرار دیا ،
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً:::بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ پر اِیمان لائے اور سے انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان والی راہ  اپنائیں o  أُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِينا   ::: یہی ہیں پکے یقینی  کافر اور ہم نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا o   وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ  وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا::: اور جو اللہ اور اس کے رسولوں پر اِیمان لائے اور اُن (رسولوں )میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے یہ ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ جلد ہی اُن کے أجر دے گا اور بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے سورت النساء /آیت 150 تا152،
بڑی وضاحت سے اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ کوئی بھی خواہ سابقہ امتوں میں سے ہو یا نزول قران اور بعثت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کا کوئی شخص اور خواہ بظاہر کلمہ گو ہی ہو اگر اللہ کے کسی رسول پر اِیمان نہ رکھتا ہو تو یقینی کافر ہے اور اللہ کے ہاں دردناک عذاب کا مستحق ہے ،
اب  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بندگی ، رسالت اور آخری رسول ہونے کا انکار کرنے والا ہو وہ کسی طور اللہ کے ہاں اِیمان والا نہیں ،
ç  جو کوئی اللہ کے رسولوں میں  خواہ کسی ایک کا ہی انکاری ہو وہ بہت  بڑا عذاب پانے کا مستحق ہو گا ،
﴿فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ:::لہذا اللہ پر ، اُس کے رسولوں پر اِیمان لاؤ ، اور اگر تُم لوگ اِیمان لاؤ گے اور (اللہ کی ناراضگی اورعذاب سے ) بچو گے تو تُم لوگوں کے بہت بڑا اجر ہے  سُورت آل عمران(3)/آیت179،
ç  جو اللہ کے رسولوں میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو ، اُس پر اِیمان نہ رکھتا ہو ،  اس سے دُشمنی رکھتا ہو ، وہ کافر ہے اور  اللہ اُس کا دُشمن ہے جِس کا دُشمن اللہ تعالیٰ ہو جائے ،اُسے یقیناً آخرت میں کوئی اجر و ثواب ملنے والا نہیں ،  اُس کی آخرت کی تباہی اور آخرت میں اُس کے ملنے والے عذاب کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر اِیمان کا دعویٰ دار ہو ، اور خواہ وہ اپنے تئیں یا لوگوں کے خیال کے مُطابق نیک کام کرنے والا ہو ،
﴿مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ:::جو کوئی اللہ کا ،اور اُس کے فرشتوں کا ، اوراُس کے رسولوں کا ،اور جبریل کا ، اور میکال کا دُشمن ہے تو یقیناً اللہ (ایسے)کافروں کا دُشمن ہے  سُورت البقرہ(2)/آیت98،
(ایک اضافی معلومات ، ملک الموت ، یعنی موت کے فرشتے کا نام  جو عزرائیل کہا، لکھا اور سُنایا  جاتا ہے اِس کی کوئی صحیح ثابت شدہ  خبر اللہ یا اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے میسر نہیں )
:::::: محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے بعد اُن پر اِیمان نہ رکھنے والا کافر ہے ، اور اللہ کے ہاں کسی رحمت ، اَجر و ثواب ،اِنعام و اِکرام کا حقدار نہیں ::::::
اللہ پاک کا فرمان مُبارک ہے﴿وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا ::: اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول پر اِیمان نہیں لایا تو ہم نے (ایسے ) کافروں کے لیے بھڑکیلی آگ تیار کر رکھی ہے سُورت الفتح (48)/آیت 13،
پس جو کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے بعداُن کی اللہ کی طرف سے رسالت پر اِیمان نہ رکھتا ہو، اُنہیں  اللہ کا رسول نہ مانتا ہو وہ اللہ تعالیٰ  کےاِس مذکورہ بالا  فرمان مُبارک کے مطابق کافر ہے اور آخرت میں انتہائی بری طرح سے جلا  کر مٹا دینے والی بھڑکیلی آگ (سعیر)کا ایندھن بننے والوں میں سے ہوگا ۔  
ç  بعثت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد ، نزول قران کے بعد ، اللہ کی رحمت انہی کے لیے ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھنے والے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہوں گے ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاء وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ::: اللہ کہتا ہے میں جسے چاہوں اپنا عذاب دوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور میں اپنی رحمت  ان کے لیے لکھوں گا جو تقویٰ والے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں اور جو ہماری آیات ہر اِیمان لاتے ہیں o الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ  فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَہُ أُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:::یہ  وہ لوگ ہیں جو اُس رسول(محمد) پر اِیمان رکھتے ہیں جو پڑھ لکھ  نہیں سکتے ، وہ رسول جسے یہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ،(وہ رسول)جو انہیں نیکی کا حُکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور اُن کے لیےپاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور  ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن پر سے اُن کے بوجھ اور طوق اتارتا ہے پس جو اس رسول پر اِیمان لائے اور اُس کا ساتھ دیا  اور اس کی عزت کی اور  اس کی مددکی،اور جو نور اس کے ساتھ نازل ہوا ہے اُس کی پیروی کی، وہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں سورت الاعراف /آیت 156،157،
واضح ہوا کہ رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت مبارکہ اور قران کے نزول کے بعد اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان لائے بغیر ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے کیے ہوئے حلال و حرام کو مانے بغیر ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ سلم کی عزت کیے بغیر ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدد کیے بغیر ، اللہ کی کتاب قران کریم پر اِیمان لائے بغیر صرف اللہ اِیمان اور یومء آخرت پر اِیمان اور نیک عمل آخرت میں کامیاب لوگوں میں شامل ہو سکنے کے اسباب میں سے نہیں ،
اس بات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور جگہ بھی بیان فرمایا اور مذکورہ بالا صِفات والا ایمان نہ لانے والوں کے لیے دُنیا میں بھی سزا مقرر فرما دی ، اِرشاد فرمایا ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ::: اہل کتاب میں سے جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر اِیمان نہیں رکھتے اور جو کچھ اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام کیا اسے حرام نہیں مانتے اور نہ ہی دینءحق (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا لایا ہوا دین اِسلام)کو دین نہیں اپناتے اُن سے جنگ کرو یہاں تک وہ ذلیل ہو کر جزیہ دینے لگیں  سورت التوبہ /آیت 29،
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ اہل کتاب میں سے بھی جو ان چار چیزوں پر یعنی اللہ پر ، یوم آخرت پر ، اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کیے ہوئے حرام کے حرام ہونے پر اوردین اسلام پر ایمان نہیں لاتے وہ اللہ کے ہاں ایمان والے نہیں ، اس لیے ان سے جنگ کر کے  انہیں ذلیل کرتے ہوئے اُن سے جزیہ لینے کا حکم فرمایا ،
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے بعد ،صِرف اللہ اور یومء آخرت پر ایمان رکھنے والے اِیمان والے ہوتے ، اور اپنے اُس نا مکمل اِیمان کے مطابق نام نہاد نیک اعمال کرنے والے اللہ کے ہاں اجر و ثواب پانے والے ہوتے تو  اللہ تعالیٰ ان کے لیے حقیقی ایمان والوں کے ہاتھوں یہ ذلت مقرر نہ فرماتا ،
خود اعلان فرمانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی ز ُبان مبارک سے بھی یہ معاملہ بالکل واضح الفاظ میں بیان کروادیا ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے اللہ کی  ہوئی وحی کے مُطابق اِرشاد فرمایا﴿وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بیدہ لَا یَسمَعُ بِی أَحَدٌ مِن ہِذہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ ولا نَصرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ ولم یُؤمِن بِالَّذِی أُرسِلتُ بِہِ إلا کان مِن أَصحَابِ النَّارِ:::اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اِس اُمت( یعنی جِن کی طرف مجھے بھیجا گیا،  اُن سب انسانوں) میں سے کوئی بھی میرے بارے میں سنے ، وہ یہودی ہو یا نصرانی ہو ، اور اُس چیز(یعنی قران ، میری رسالت ، اور میری شریعت)پر  ایمان لائے بغیر مر جائے جو مجھے دے کر بھیجی گئی ہے تو وہ جہنمی ہے صحیح مُسلم /حدیث 153/کتاب الاِیمان /باب 70،
ç  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کا بھی یہی فرمان ہے کہ جو کوئی اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان نہیں لائے گا وہ یقیناً  بہت بڑی اور بہت دُور والی گمراہی میں پڑا  ہے
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ::: اے اِیمان لانے والو ، اِیمان لے آؤ اللہ پر ، اور اس کے رسول پر ، اور اُس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اُتاری ہے ، اور اُن کتابوں پر جو اُس سے پہلے اُتاری گئیں ، اور جو کوئی اللہ کا ، اور اُس فرشتوں کا ، اور اُس کے رسولوں کا ، اور آخرت کے دِن کا اِنکار کرے گا تو یقیناً وہ بڑی دُور کی گمراہی میں جا پڑا سُورت النساء(4)/آیت136،
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی فیصلہ ہے کہ جو کوئی بھی  اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رسول اللہ ہونے پر اِیمان نہ لائے گا وہ راہ حق سے ، اِیمان سے کہیں بہت ہی دُور کی گمراہی  یعنی کفر میں پڑا ہوا ہے ،اور ایسے کسی گمراہ کے لیے آخرت میں کسی اجر و ثواب کی اُمید بھی نہیں ،
راہ حق سے گمراہ  رہنےو الوں کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے اُس کا ذِکر پہلے کر چکاہوں ،   
ç  اللہ پاک کےرسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان نہ رکھنے والے  یقینی طور پر کافر ہیں﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا O أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا O وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا :::وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسولوں (میں سے کسی ایک کا سب )کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اُس کے رسولولوں کے درمیان علیحدگی بنا  رکھیں ، اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ کا اِنکار کرتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ اِس کے درمیان کوئی راستہ اپنا لیں O وہ لوگ کسی شک کے بغیر یقینی طور پر کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر کھا ہے O اور وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر اِیمان لائے اور اُن  رسولوں کےدرمیان علیحدگی نہیں رکھی ، وہ لوگ  ہیں جنہیں اللہ  جلد ہی اُن کے اجر سے نوازے گا اور اللہ بہت بخشش کرنے والا ، بہت رحم کرنے والا ہے سُورت النِساء(4)/آیات150 تا 152،
::::: اللہ کے ہاں دینء حق وہ  اِسلام ہے جو اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطاء فرمایا ، اِس دین ء حق کی پیروی نہ کرنے والا کافر ہے ، اِیمان والوں میں شُمار نہیں ہوتا :::::
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی اللہ کے فرامین سے پیش کرتا چلوں کہ اللہ کے ہاں دین ء حق صرف اسلام ہے ، وہ اسلام جو اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ علی  آلہ وسلم پر نازل فرمایا﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ::: بے شک اللہ کے ہاں(مقبول ) دِین صِرف اِسلام ہی ہے اور اہل کتاب نے(اس دِین میں )جو اختلاف کیا وہ اس کی (حقانیت کا) علم ہوجانے بعد (صرف)آپس کی ضد کی وجہ سے کیا اور جو کوئی اللہ کی آیات کا انکار کرے گا تو (یاد رکھو)اللہ بہت جلد حساب لینے (اور سزا دینے )والا ہے سورت آل عمران /آیت 19،
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا:::آج کے دِن میں نے تُم لوگوں کے لیے تُمارا دِین مکمل کر دیا اور تُم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اِس پر راضی ہو گیا کہ  تُم لوگوں کا دِین  اِسلام ہو  سورت المائدۃ /آیت 3،
:::::: اِس واحد دینء حق اِسلام  کے ظاہر کیے جانے کے بعد، اِس کی اللہ کی طرف سے تکمیل کے بعد ، اِس کو قبول نہ کرنے والے کا کوئی عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں  :::::::
اللہ عَزَّ و جَلَّ  نے فیصلہ فرما دیا ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ::: اور جو کوئی اِسلام کےعلاوہ کسی اور دِین کا طلب گار ہو گا اللہ اُس سے (کچھ بھی ) قبول نہ کرے گا اور وہ شخص آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائے سورت آل عمران /آیت 85،
 اللہ تعالیٰ کے اِن مذکورہ بالا فرامین مبارکہ سے ہی یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ قران پاک کے نزول کے بعد ، محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی بعثت کے بعد ، شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ و السلام کے نزول اور تکمیل کے بعد ، جو کوئی بھی اللہ کے سارے ہی انبیاء اور رسولوں پر ، اللہ کی ساری ہی کتابوں پر ، اللہ پر ، یوم آخرت پر ، اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کیے ہوئے حلال کے حلال ہونے پر ، اور حرام کے حرام ہونے پر اوردین اسلام پر ایمان نہیں لاتے وہ اللہ کے ہاں ایمان والے نہیں ،
لہذا وہ دو آیات مبارکہ جن کو سمجھنے کے لیے ہم نے یہ بات شروع کی ان میں صرف اللہ اور یومء آخرت پر ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو آخرت میں أجر اور امن وسکون کی خوشخبری پانے والے وہ لوگ ہیں جو نزول ء قران اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہو گذرے ، اس موضوع کے دلائل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور بھی کئی فرامین پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کر رہا ہوں ،
جو کچھ پیش کیا ہے، اِن شاء اللہ، اُسی کے ذریعے یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت کے بعد ، قران کریم کے نزول کے بعد ، اللہ کی آخری شریعت کے ظہور کے بعد جو کوئی بھی ان تینوں میں کسی ایک پر بھی اِیمان نہ رکھتا ہو وہ کافر ہے اُس کا کوئی بھی عمل نیک عمل نہیں ، اور وہ  اللہ کے ہاں کوئی اجر و ثواب پانے والا نہیں۔ و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 06/10/1431ہجری ، بمطابق،16/09/2010عیسوئی ،
تاریخ تحدیث و تجدید : 28/09/1435 ہجری ، بمطابق ، 26/07/2014عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔