Saturday, January 17, 2015

اللہ اور رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین مُبارکہ کو کیسے سمجھا جانا چاہیے ؟ اور قُبول کیا جانا چاہیے ؟؟؟ ::::: :::::: اللہ کے دِین کو سمجھنے اوردُرُست طور پر اپنانے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم اور کِردار کی حُجیت :::::

٦ ٦ ٦قُرآن وسُنّت مُبارکہ کے سایےمیں ٥ ٥ ٥

::::: اللہ اور رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ  علی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین مُبارکہ کو کیسے سمجھا جانا اور قُبول کیا جانا چاہیے ؟؟؟ :::::

:::::: اللہ کے دِین کو سمجھنے اوردُرُست طور پر  اپنانے کے لیے صحابہ  رضی اللہ عنہم  اجمعین کے فہم اور کِردار کی حُجیت  :::::

بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتداعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
الحمد للہ ،کافی عرصہ پہلے  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے  فہم یعنی دِین کے بارے میں سمجھ کا، اور اُن رضی اللہ عنہم اجمعین کے کِردار کا، اُن کے عِلاوہ دُوسروں کے لیے کسوٹی ہونے کے بارے میں  دو مختصر مضامین لکھے ، اور شائع کیے تھے ،
کچھ ہی دِنوں پہلے اُن میں ایک کو تازہ کر کے پھر سے برقی ذرائع پر نشر کیا گیا تو کچھ قارئین کرام کی طرف سے کچھ سوالات اور کچھ اشکالات ظاہر کیے گئے ،
اُن سوالات اور اشکالات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس موضوع ، اِس مسئلے کو ایک نئے انداز اور نئے طور پر اِس مضمون میں پیش کر رہا ہوں ، یہ سب محض اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے ہی ہے ، اور اُسی سے یہ یقین بھی ہے کہ وہ اِس کوشش کو بھی قُبُول فرمائے گا ،اور میرے لیے اور پڑھنے والوں کے لیے دِین ، دُنیا اور آخرت میں خیر کے اسباب میں سے بنائے گا ،
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے اِن شاء اللہ یہ بہت بہتر ہو گا کہ آپ اُن دو سابقہ مضامین کا مطالعہ بھی فرما لیجیے ،وہ مضامین اور اُن کے آن لائن مطالعے کے ربط درج ذیل ہیں:
صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین، کی زندگیاں،عقیدے ، سوچ و فِکر ، قول اور عمل ہر ایک طور پر ، ہر ایک زوایہ سے ، ہر ایک انداز سے ،  اللہ جلّ شأنہ ُ اور اس کےآخری اور نبی محمد  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کی اعلیٰ اور مکمل ترین مثال ہیں ،
جی ہاں ، اُن رضی اللہ عنہم و أرضاہم اجمعین کی زندگیاں محض کچھ عقائد یا افکار کو اپنا کر اپنی اپنی مرضی یا سوچ و فِکر کے مطابق اُن پر عمل کرنے میں بسر نہیں ہوئی تِھیں ، بلکہ اُنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے خلیل ، آخری نبی ،رسول اور معصوم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ملنے والے ، اللہ جلّ جلالہُ کے ہر ایک حکم اور ہر ایک قول کو ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور عملی سُنّت شریفہ کے مطابق سمجھا  اور سیکھا ،اور اُسی کے مطابق عمل کرتے کرتے اپنے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی جنتوں کی طرف روانہ ہوئے ،
اللہ جلّ شانہُ کے احکام اور فرامین کو سمجھنے ، قُبول کرنے اور اُن پر عمل کرنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد ، صحابہ  رضی اللہ عنہم  و أرضاھم اجمعین کی زندگیاں علمی اور عملی طور پر ہر ایک مُسلمان کے لیے اور ہر ایک اِنسان کے لیے مکمل ترین نمونہ ہیں ،
یہاں تک اللہ عزّ و جلّ نے صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم  اجمعین کو اُن کے عِلاوہ دُوسروں کے  اِیمان اور عمل کی جانچ کے کسوٹی مقرر فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا  :::
﴿ قُولُوا آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا اُنزِلَ اِلَیْنَا وَمَا اُنزِلَ اِلَی اِبرَاھِیمَ وَاِسمَاعِیلَ وَاِسحَاقَ وَیَعقُوبَ وَالاَسبَاطِ وَمَا اُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی وَمَا اُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِم لاَ نُفَرِّقُ  بَینَ اَحَدٍ مِّنہُم وَنَحنُ لَہُ مُسلِمُونَ  O فَاِن آمَنُوا بِمِثلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اھتَدَوا وَّاِن تَوَلَّوا فَاِنَّمَا ھُم فِی شِقَاقٍ فَسَیَکفِیکَہُمُ اللّہُ وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ ::: تُم سب (رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے ساتھی)کہو کہ ہم اِیمان لائے اللہ پر اور جو ہماری طرف اُتارا گیا اُس پر ، اور جو اِبراہیم اور اِسماعیل اور اِسحاق اور یعقوب (علیہم السلام )اور اُن کے پوتوں (یعنی اولاد )پر اُتارا گیا اُس پر ، اور جو کچھ دِیا گیا موسی اور عیسی اور (دوسرے)نبیوں (علیہم السلام اجمعین)کو اُن کے رب کی طرف سے دِیا گیا اُس پر ، ہم نبیوں میں سے کِسی میں فرق نہیں کرتے (یعنی سب کی نبوت پر اِیمان رکھتے ہیں) اور ہم اللہ (اور اُس کے احکام )کے لیے سر نگوں ہیں O اور اگر (اِس پیغام کے بعد )یہ تُم لوگوں کی طرح اِیمان لاتے ہیں تو پھر یہ ہدایت پائے ہوئے ہیں اور اگر یہ لوگ منہ پھیرتے ہیں تو وہ کھُلے اِختلاف میں ہیں اور جلد ہی اللہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)کو اُن لوگوں سے کفایت فرما دے گا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور مکمل عِلم رکھنے والا ہے، سورت البقرۃ(2)/آیت 136 ،137،
اور مزید  اِرشاد فرمایا ﴿وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء ت مَصِیراً :::اور ہدایت (یعنی اللہ کی طرف سے ارسال کردہ احکامات و ہدایت )واضح ہو جانے کے بعد بھی جو کوئی رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)کو الگ کرے گا اور '''المؤمنین '''(اہل سنت و الجماعت کے تمام مسلکوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ '''المؤمنین '''صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں تو جو کوئی اُن )کے راستے کے عِلاوہ کِسی بھی اور کی اتباع (پیروی)کرے گا تو ہم اُسے اُسی طرف چلا دیں گے جِس طرف اُس نے رُخ کیا ہے اور ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے (کیونکہ یہ ہی اُسکے اپنائے ہوئے راستے کی منزل ہے )اور جہنم کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہےسورت النساء(4)/آیت 115،
پس یہ اللہ جلّ ثناوہُ کی طرف سے طے شدہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم  اجمعین اُن کے عِلاوہ دُوسروں کے  اِیمان اور عمل کی جانچ کے کسوٹی ہیں ،
ہمارے سوچنے ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم اجمعین کو اُن کے عِلاوہ دُوسروں کے اِیمان اور عمل کی کسوٹی مقرر کرنے کا سبب اُن رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین کا اِیمان اور عمل تھا جِس میں ہر ایک انداز سے ، ہر ایک طریقےسے ، اور ہر ایک ظاہری اور باطنی سمت سے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے احکامات اور فرماین مُبارکہ کو کسی چُوں و چراں اور اپنی مزاج اور عقل کی پابندیاں لگائے بغیر ماننا اور اُن پر اللہ جلّ شانہ ُ  اور اُس کے رسول کریم  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُراد  کے مُطابق مکمل طور پر عمل کرنا ہی ہے ،
تقریباً ہم سب ہی یہ جانتے ہیں کہ اِسلام سے پہلے ، اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیغامات اور دِین حق اِسلام کی دعوت پہنچنے سے پہلے یہ ہی  صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم اجمعین  کفر ، شِرک اور جہالت سے بھرپور معاشرے کے افراد تھے ،
جِس معاشرے میں کفر اور شِرک اور بے حیائی پر مبنی کاموں کو  عِبادت اور اللہ کا  قُرب سمجھا جاتا تھے، شراب پینے کو ، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کو ، اور اِس بھی بڑھ کر بے ہودہ کاموں کو شرافت اور عِزت سمجھا جاتا تھا ،
اور اِس معاشرے کے افراد حق کے بارے میں شدید ترین بغض کا شِکار تھے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خبر عطاء فرمائی کہ ﴿،،،،، وَإِنَّ اللَّهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ إِلاَّ بَقَايَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ:::،،، ،، اور بے شک (جب)اللہ نے زمین والوں کی طرف(اپنے آخری دِین کے لیے پہلا گروہ منتخب فرمانے کے لیے) نظر فرمائی تو زمین والوں کے عرب اور عجم سب ہی( ضِدی اور حق کے بارے میں)بغض رکھنے والے تھے ، سوائے اہل کتاب (میں سے صحیح دِین اور تعیلمات  پر)باقی رہ جانے والے (کچھ لوگوں کے)صحیح مُسلم /حدیث/7386کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أھلہا/باب17،
اُسی معاشرے میں اُن کی پرورش ہوئی تھی ، اور اُس معاشرے میں پائی جانے والی عادات اور رسم و رواج پر عمل کرنے والے تھے ، اُن میں سے بہت کم ایسے تھے جو اُس معاشرے میں  عام طور پر پائی جانے والے کفر و شِرک اور دیگر برائیوں سے دُور تھے ، اور وہ جو دُور تھے وہ بھی اُن کاموں کے  معاشرے اور اِنسانوں  پر برے نتائج کی وجہ سے دُور تھے ، کسی عقیدے یا اِیمان کی وجہ سے نہیں ، کیونکہ  رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے تک تو اُن لوگوں تک توحید اور دُرُست عقیدے کی وہ باتیں پہنچی ہی نہیں تِھیں ، جو کچھ دِین ابراہیمی کے نام پر وہاں تھا اُس میں بہت سی تحریف اور خرافات کا اضافہ تھا ،  کسی نبی یا رسول کے ذریعے اُن تک اللہ تبارک و تعالیٰ کا کوئی پیغام نہیں پہنچا تھا ،
﴿لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ:::تا کہ آپ اُس قوم کو ڈرایے جِس کے پاس آپ کے پاس  سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ،تا کہ وہ لوگ ہدایت پا سکیںسُورت  السجدہ(32)/آیت3،
پھر جب کفر  وشِرک ، جہالت اور اِخلاقی برائیوں سے بھر پور اِس معاشرے میں اللہ کی طرف سے ڈرانے اور خوش خبریاں سنانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تشریف لائے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا پیغام پہنچا ، تو اُن کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی آنا شروع ہوئی جسے عقل وخِرد کی قلابازیاں کھانے والے سمجھ نہیں سکتے ، اور خود کو بھی صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین کے جیسا بلکہ معاذ اللہ بسا اوقات  تو دِین کو سمجھنے کے بارے میں اپنے آپ کو اُن سے زیادہ سمجھ دار سمجھتے ہیں ،
لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ  جب صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغامات پہنچے ، اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی ذات شریف کے اقوال و اعمال بطور """رسول اللہ"""ظاہر ہوئے تو اُنہوں نے اپنی عقلوں ، سوچوں ، فلسفوں اور مادی عُلوم و کسوٹیوں پر نہیں  پرکھا ، بلکہ یکسر اِیمان لائے اور اپنی زندگیوں کو ناقابل یقین حد تک بدل کر رکھ دِیا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرسال کردہ حق قبول کیا ، اللہ کے رسول کریم صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کو قُبُول کیا ،  اپنے معاشرے کی تمام تر قوتوں کی دُشمنی مول لے لی ، لیکن حق کو چھوڑنا قُبول نہیں،
حق و باطل کا امتزاج نہیں بنایا ، کہ ، کچھ اُن کی ، اور کچھ ہماری ،
ہمارے عقل مندوں ، عُلماء کلام ، فلسفہ دانوں ، اپنی اپنی سوچوں کے مُطابق قران کریم ، اور شریعت کے احکام کو سمجھنے او سمجھانے والے خود ساختہ ، نام نہاد اِسلامی مفکروں  کی طرح """راضی رہے رحمن بھی اور خوش رہے شیطان بھی"""والی روش نہیں اپنائی
بلکہ اُن کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہو گیا کہ """راضی ہو صِرف رحمن ہی"""،  
صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین نے اللہ عزّ و جلّ  اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے """سمعنا و أطاعنا، یعنی ، ہم نے سُنا اور ہم نے تابع فرمانی کی"""کی حقیقی سچی عملی تصویر بنتے ہوئے ، اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تما تر  احکام اور فرامین مُبارکہ کو کسی حیل و حُجت ، کسی بہانے بازی ، کسی باطل اور نا حق تاویل کے بغیر ، کسی سوچ و فلسفے ، کسی عقل و فِکر کابِھگار ( تڑکہ) لگائے بغیر اپنے ظاہر و باطن پر نافذ کر دِیا ،
اُن کے اِخلاق ، اُن کے معاشرتی ، معاشی ، ازدواجی ، غرضیکہ ہر ایک قِسم کے معاملات بھلائی کے اعلی ترین مُقام پر پہنچ گئے ، حتی کہ اللہ جلّ ثناوہُ نے اُن کے لیے یہ سند جاری فرما دی کہ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ :::تُم لوگ (سب اُمتوں میں سے )سب سے بہترین اُمت ہو ، جو لوگوں (کی خیر و بھلائی )کے لیے(اُن کی طرف ) نکالی گئی ہے(اور وہ اِس لیے کہ )تُم لوگ نیکی کا حُکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ، اور اللہ پر (اُس کی رضا کے مُطابق )اِیمان رکھتے ہوسُورت آل عمران(3)/آیت 10،
[[[یہ مذکورہ بالا آیت کریمہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین کے اِیمان اور عمل کے کسوٹی اور معیار ہونے کے دلائل میں سے ایک ہے، کہ وہ اِس اُمت کی ابتداء تھے ، پس اُن کے بعد والوں کو بھی اگر حقیقی طور پر سب سے زیادہ خیر والی اُمت کا فرد بننا ہے تو پھر  اُنہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح اِن صِفات کو اپنے اندر زندہ رکھنا ہو گا ، ورنہ وہ لوگ محض  اِس اُمت کی گنتی میں ہی ہوں گے]]] ،
پس اجتماعی طور ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کے اقوال و افعال میں ، کفر ، شِرک ، گناہ ، بے حیائی ، ظلم و بے انصافی ، یا کسی بھی قِسم کی کوئی دِینی ،  اِخلاقی یا زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق کوئی بھی برائی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ،  اگر کہیں کوئی ایک آدھ واقعہ ایسا ملتا ہے جِس میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ ُ سے کوئی غلطی ، کوئی کوتاہی ، یا کوئی گناہ سر زد ہوا ہے ، تو اُس  کے ظاہر ہونے کی حِکمت بہت واضح  ہے کہ اُس قِسم کے واقعات کی وجہ سے اللہ  سُبحانہُ و تعالٰی نے شریعت کے کئی احکام واضح فرمائے ،
یہاں میں وہ سوال دُہراتا ہوں جِس کا جواب پانا اِس درس کا بنیادی مقصد ہے ، جو اِس درس کا عنوان ہے کہ """ اللہ اور رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ  علی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین مُبارکہ کو کیسےسمجھا جانا چاہیے اور کیسے قُبول کیا جانا چاہیے ؟؟؟"""،
میں نے صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم اجمعین کی مثال اِس لیے دی کہ اُن سے بڑھ کر اللہ تبارک و تعالٰی اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام و فرامین مُبارکہ پر دُرُست طور پر عمل کرنے والا کوئی نہ تھا ، اور نہ ہی ہو سکتا ہے ،
اِس کے دلائل اللہ جلّ شانہ ُ کے کلام پاک سے دیے جا چکے ہیں ،
اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاھم اجمعین  کے مذھب ، مسلک اور منھج  کی خصوصیات اور صِفات کو جانیں ،
لہذا ہم اپنے سوال کا جواب جاننے کے لیے یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم اجمعین کے منھج ، مسلک ، مذھب میں وہ کونسی خصوصیات تھیں جِس کی وجہ سے وہ لوگ نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے بعد سب سے بُلند رتبے والے ہو گئے ،
::::::: (1) ::::::: اللہ جلّ جلالہُ سے محبت ،اُس کی  اور اُس  کے احکام کی تعظیم اور توقیر ::::::
پوری اُمت میں  صحابہ رضی اللہ عنہم جِن صِفات کی وجہ سے ممیز اور اعلیٰ تر ہیں ، اُن میں سے ایک صِفت یہ ہے کہ  وہ لوگ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے ہر ایک معاملے کو، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو ، کے أوامر کو ، یعنی اُس کی طرف سے کوئی کام  کرنے کے احکام کو ، اور اُس کی نواہی ، یعنی اُس کی طرف سےکوئی کام نہ کرنے کے احکام کو ، اُس کی صِفات کو ، اُس کے ناموں کو ، اُس کے کاموں کو ، اپنے ظاہری و باطنی اقوال و افعال میں سب سے بڑھ کر تعظیم دیتے تھے ،  اپنے زندگی کے ہر ایک پہلو پر ، ہر ایک معاملے پر ، ہر لحاظ سے فوقیت دیتے تھے ، پس اُن کی زندگیوں میں یہ ہی ملتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعظیم ، توقیر اور محبت اُن سب کے دِلوں ، دِماغوں ، اور رُوحوں میں  اس طرح رچ بس گئی تھی کہ گویا اُن کا ایک حصہ ہی بن گئی تھی ،
پس ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اللہ جلّ جلالہ کو ہی اپنی زندگی کے پر ایک معاملے اور مسئلے میں حاکم اعلیٰ بنائے رکھا ،اور اللہ عزّ و جلّ  کے حکم﴿ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ::: اے محمد ، فرمایے ، کہ، اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع داری کرو ،اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا ، اور تمہارے گُناہ بخشے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہےسُورت آل عمران (3)/آیت31،کے مُطابق ہی ،اُس کی محبت میں ، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اس مکمل طور پر محبت کی، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِس بہترین طریقے پراطاعت کی کہ جِس کی کوئی مثال اِنسانی تاریخ میں  میسر ہی نہیں ،
اور اللہ جل ثناوہُ کے اِس وعدے کے مُطابق اللہ کی بخشش پانے والے  ہو کر رہے ،
اور اب ہم دیکھتے ، سُنتے اور پڑھتے ہیں کہ کئی ایسے لوگ ، جنہیں دِین دار ،اِسلامی مفکر ، عالِم ،وغیرہ ، قَسم کے القابات دیے گئے ، یا اِس قِسم کے سمجھا جا رہا ہوتا ہے وہ لوگ دِین کے معاملات ، اور اللہ کے احکام سے کھلواڑ کرتے ہیں، باطل تاویلات کرتے ہیں ، اور معاذ اللہ بسا اوقات تو مذاق اور اِنکار تک کر دیتے ہیں ، یہ سب کام اُن لوگوں کے دِلوں اور باطن میں اللہ کی محبت اور عِزت کے غائب ہونے کی دلیل ہیں ، جو کہ اُن کے اندر اِیمان کے انتہا ئی کمزور ہونے کی دلیل ہے ،اور یہ اُن لوگوں کے اللہ کے دِین سے دُور ہونے ، اور دِین کے بارے میں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں جاھل ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ جو کوئی بھی جِس قدر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات شریف ، اُس کے ناموں ،اور اُس کی صِفات کا عِلم رکھے گا ، اُسی قدر اُس کے اندر اللہ جل شانہ ُ کی تعظیم ہو گی ، اور جس قدر تعظیم ہوگئی ، اُسی قدر وہ اللہ کی ناراضگی اور اُس کے عذاب سے ڈرے گا ، اور اُس کی رضامندی پانے کی کوشش کرے گا ،اور یہ کام ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں ہمہ وقت اور ہمہ جہت ملتے ہیں ۔
::::::: (2) :::::::  عقائد و افکار، تعلیم و تربیت کے مصدر کی واحدنیت ::::::
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاں عقیدے ، فکر و سوچ ، اور عمل اپنانے کے لیے ، اور اُن کے بارے میں تعلیم اور تربیت پانے کے لیے کوئی الگ الگ مصدر نہ تھے ، بلکہ صِرف ایک ہی مصدر تھا ، اللہ کی وحی ، جو اُن رضی اللہ عنہم اجمعین  تک دو صُورتوں میں پہنچتی رہی، (1) اللہ کی کتاب قران کریم ،اور (2) رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف ،
پس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کی ایک وحی کو دوسری وحی کے ذریعے سمجھا ، اور سیکھا ،
یعنی اللہ کے کلام ، قران حکیم کو اپنی اپنی عقلوں اور سوچوں کے مطابق سمجھنے کی بجائے، اللہ کی وحی کے مطابق بات فرمانے والے ،   ایک ہی استاد ، ایک ہی مربی ، ایک ہی إِمام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سمجھا ، اورسیکھا ،  پس صحابہ رضی اللہ عنہم جمعیاً       کا، کِردار ، مزاج ، اور اللہ کے دِین کے بارے میں فہم، یعنی سمجھ بوجھ  اللہ کی وحی کے مُطابق تیار ہوئے ،اِس لیے ہمیں اُن کے اکلوتے منھج ، مسلک اور مذھب میں کہیں  حق سے کوئی انحراف  یا دُوری دِکھائی نہیں دیتی ،
اور اِسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُنہیں ، اُن کے عِلاوہ دُوسروں کے إِیمان کی جانچ اور درستگی کی کسوٹی مقرر فرمایا ﴿  قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ O فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّ إِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ::: تُم سب (رسول صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم اور اُن کے ساتھی)کہو ہم اِیمان لائے اللہ پر اور جو ہماری طرف اُتارا گیا اُس پر ، اور جو إِبراہیم اور إِسماعیل اور إِسحاق اور یعقوب (علیہم السلام ) اور اُن کی اولاد پر اُتارا گیا اُس پر ، اور جو کچھ دِیا گیا موسیٰ اور عیسیٰ اور (دوسرے)نبیوں (علیہم السلام اجمعین)کو اُن کے رب کی طرف سے دِیا گیا اُس پر ، ہم نبیوں میں سے کِسی میں فرق نہیں کرتے (یعنی سب کی نبوت پر اِیمان رکھتے ہیں)اور ہم اللہ (اور اُسکے احکام )کے لیے سر نگوں ہیں O اور اگر (اِس پیغام کے بعد )یہ تُم لوگوں کی طرح اِیمان لاتے ہیں تو پھر یہ ہدایت پائے ہوئے ہیں اور اگر منہ پھیرتے ہیں تو وہی لوگ ضِد( اور اِختلاف) میں  پڑے ہوئےہیں، اور اللہ، اِن لوگوں کے مقابلے میں  آپ (یعنی رسول اللہ محمد  صلی اللہ علی و علی آلہ  وسلم ، کی مدد اور حفاظت کےلیے) کافی ہے ،اور اللہ سب کچھ سننے والا اور مکمل عِلم رکھنے والا ہےسُورت البقرۃ(2)/آیت 136 ،137،
اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے پاس دِین کے عِلم اور تربیت کے لیے ، مصدر کی واحدنیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ، بلکہ ہم اپنے درمیان ڈھیروں مذاھب ، مسالک اور مناھج لیے ہوئے ہیں ، ہر ایک جماعت کا اپنا مزاج ہے ، اپنا مسلک ہے ، اپنا مذھب ہے ، اپنا منھج ہے ،
جماعتیں تو ایک طرف  ،افراد بھی خود کو، اور کئی دوسرے ایسے افراد کو اللہ کے دِین کے بارے میں حرف آخر سمجھتے ہیں ، اللہ کے نازل کردہ عِلم سے کچھ واقفیت نہیں سوائے  اپنی ذاتی عقلوں ، سوچوں ، فلسفوں اور خوابوں کے ذریعے ، اور اِسے ہی وہ لوگ اِسلام کا نام دیتے ہیں ، پھر وہی اِسلام لوگوں کو سناتے اور سِکھاتے ہیں، اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو خود کو صحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ سمجھ دار سمجھتے ہیں ،  اور کچھ اِس قِسم کی باتیں کرتے ہیں کہ صحابہ کا اِیمان ہم سے زیادہ مضبوط تھا ، اور ہمارا عِلم اُن سے زیادہ درست ہے ، جب کہ درحقیقت یہ لوگ جاھل ہیں ،  اپنی اِس جہالت کی ذریعے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ،
یہ بالکل وہی حال ہے جِس کی خبر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے اِن اِلفاظ میں کروائی رکھی ہے کہ ﴿ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَنْتَزِعُ الْعِلْمَ مِنَ النَّاسِ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعُلَمَاءَ فَيَرْفَعُ الْعِلْمَ مَعَهُمْ وَيُبْقِى فِى النَّاسِ رُءُوسًا جُهَّالاً يُفْتُونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَيَضِلُّونَ وَيُضِلُّونَ:::بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں میں سے(اُسکے دِین کے صحیح اور حق ) عِلم کو بالکل غائب ہونے کی صُورت میں نہیں نکال دے گا ، بلکہ عالِموں کو اُٹھا لےگا ، پس اُن کے ساتھ(دِین کا صحیح اور حق) عِلم بھی اُٹھا لے گا ، اور لوگوں میں (دِین کے اُس صحیح اور حق  عِلم سے)جاھل  راہنماباقی رہ جائیں گے ، جو(دِین کے اُس صحیح اور حق )عِلم کے بغیر فتوے دیں گے ، لہذا خود بھی گمراہ ہوں گے اور دُوسروں کو بھی گمراہ کریں گےصحیح مُسلم /حدیث /6974کتاب العِلم/باب 5،
اور یہ معاملہ بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں اُن کے بعد والوں سے کہیں زیادہ اعلی ٰ اور مکمل طور پر تھا کہ وہ اللہ کے دِین کو ایک ہی مصدر ، اللہ کی کتاب قران کریم میں سے سیکھتے تھے، اور اُسی قران کریم میں دیے گئے احکام کے مطابق اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیکھتے تھے ، اور عمل کرنے کے لیے سیکھتے تھے ، اور اُسی کے مطابق عمل کرتے تھے ،صِرف سیکھ کر رہ جانے والے نہ تھے ،   
اِسی لیے وہ لوگ اُمت میں سب سچے اور مکمل ترین اِیمان والے ہوئے ، اور سب سے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ارفع اعمال والے ہوئے ، کیونکہ عِلم کی رُوح تو عمل ہے ، اور عِلم  درجات اور رتبوں کی بلندی کا ایک ایسا وسیلہ ہے جو اُس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوتا جب تک اُس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں ، اُس کے مُطابق عمل نہ کیا جائے ، دیکھ لیجیے کہ کافروں میں ایسے کئی لوگ پائے جاتے ہیں ، جو دِین اِسلام کے بارے میں خُوب عِلم رکھتے ہیں ، اِسلام کے بنیادی عُلوم اور فروعی عُلوم کو خاصا جاننے والے ہیں ، لیکن اُس عِلم پر کوئی عمل نہیں ، لہذا اپنے کفر میں ہی غرق ہیں ، پس وہ عِلم آخرت میں اُن کے لیے  کِسی فائدے والے نہیں ،
   اِس اُمت میں ایسے ہزاروں نام نہاد """عالِم ، فاضل ، مولوی ، مولانا ، مفکر اِسلام ، دانشور، مُفسر القران ، شیخ الحدیث ، ڈاکٹر ، وغیرہ """پائے جاتے ہیں ، جو اِسلامی عُلوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ، لیکن عمل اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نشر کردہ عِلم کے خلاف ہوتا ہے ، جِس کا ایک بڑا اور بنیادی اسباب میں سے ایک  سبب ، دِین سیکھنے اور سمجھنے لیے اللہ کے مقرر کردہ مصدر کی بجائے دیگر مصادر اختیار کرنا ہے ، جِن کا کچھ ذِکر ابھی ابھی کیا گیا ہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  نے اللہ کا دِین ، ایک ہی مصدر ، یعنی اللہ کی وحی کے ذریعے سیکھا ، جو دو طرح سے اُن تک پہنچتی تھی ، اللہ کی کتاب قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال شریفہ یعنی حدیث مُبارک کی صُورت میں ۔
اور یہ ہی وہ حِکمت ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل کی اور یہ ہی وہ حِکمت ہے جو انہوں نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سِکھائی ، جو کِسی بھی اور کو سیکھنا نصیب نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے ، سوائے اِس کے  کہ کوئی  اِنہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مسلک، مذھب اور منھج کو اپنا کر باذن اللہ ، اِس حِکمت میں کچھ پا لے ،
[[[اگر آپ نے اِس مضمون کے آغاز میں دیے گئے دیگر ودو مضامین کا مطالعہ کیا ہے  تو پھر اِن شاء اللہ حِکمت کا معاملہ آپ کے لیے واضح ہو چکا ہو گا اور اگر مطالعہ نہیں  کیا تو اِس مذکورہ بالا حِکمت کے اُن مضامین کا مطالعہ فرمایے]]]  
::::::: (4) ::::::: بدعات ، اور غلط فہمیوں سے محفوظ رہنا ::::::
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کا دِین سیکھنے اور سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی تربیت کے مصدر کے ایک ہونے کی وجہ سے اُن کی صِفات میں یہ بھی تھا کہ وہ لوگ بدعات اور اللہ کے دِین میں نئے کاموں یعنی بدعتوں اور دِین کو سمجھنے میں غلط فہمیوں سے محفوظ تھے ،   
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  ،اللہ تبارک وتعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور احکام کے لیے اُن کے ہاں صِرف قُبولیت ہی قُبولیت تھی ، کہیں کوئی اِنکار نہ تھا ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  ،اللہ جلّ شانہ ُ اور اُس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام شریفہ اور فرامین مُبارکہ کو سمجھنے اور سیکھنے کے لیے اپنی عقلوں ،افکار ، مزاج اور عادات  وغیرہ کو کسوٹی نہیں بناتے تھے ، اور نہ ہی غیروں کے افکار کی طرف توجہ کرتے تھے ،اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے ہاں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور احکام پر فی الفور اور مکمل طور پر عمل ہی ملتا ہے ،  اور اِس طرح ملتا ہے کہ اپنی جان ، مال اور جو کچھ بھی اللہ نے عطاء کیا ہوتا تھا ہر ایک چیز کو اِس عمل کی تکمیل کے لیے  کسی بھی تاخیر اور جھجھک کے بغیر اللہ کی راہ میں اِستعمال  کردیتے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کا مسلک، منھج ، اور مذھب چھوڑنے والوں کے ہاں اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے فرامین مُبارکہ اور احکام شریفہ کے مفاہیم بدل گئے ، کہیں اُلٹ ہی گئے ، اور کہیں اِنکار تک نوبت جا پہنچی ، عقل پرستی ، ذاتی افکار اور غیروں کی دی ہوئی  غیر اِسلامی اور غلط سوچیں ،علم الکلام ،فلسفہ ، منطق ، علاقائی عادات ،اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات  وغیرہ وغیرہ  کو دِین سمجھنے کی کسوٹیاں بنا لیا گیا ،  اور وہ اُمت جو عِزت اور قوت کی تاریخی بلندیوں پر تھی ، ذِلت، کمزوری اور بے بسی کی دلدل میں دھنستی گئی ، اور دھنستی جا رہی ہے ،
::::::: (5) ::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  دعوت و تحریک کے پہلے دومراحل میں ہی رہے ::::::
اِنسانی تاریخ میں پائی جانے والی کِسی بھی دعوت و تحریک کو ہم تین مراحل میں  پاتے ہیں :
::: پہلا مرحلہ :::اپنے مقصد  کو پہچان کر اُس پر ایسا إِیمان رکھنا ، جو اِنسان کے دِل و رُوح کو بھر دے ، کہ اُس میں کچھ اور نہ آ سکے ، اور پھر اُس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ،  جب کوئی اِنسان اِس مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو وہ صِرف یہ دیکھتا ہے کہ اُس پر کیا واجب ہے ؟ یہ نہیں سوچتا کہ اُس کے لیے کیا ہے ؟
وہ یہ ہی سوچتا ہے اور اِسی کے مُطابق عمل کرتا ہے کہ جو کچھ اُس پر واجب ہے اُس کی ادائیگی کرے ، بدلے میں اُسے کیا ملنا ہے ؟ یہ سوال اُس کے ہاں نہیں پایا جاتا ، لہذا اُس کی زندگی میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ، پورا کرنے کے لیے اُس کے ظاہر و باطن  سے ہر کوشش جاری و ساری رہتی ہے ،
::: دُوسرا مرحلہ ::: اِس مرحلے میں عقل اور اِنسانی  نفس کی اندرونی کاروائیاں داخل ہونا شروع ہوتی ہیں ، اور وہ عمل کے بدلے میں ملنے والی چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور اُس کے عمل کا مقصد  تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے ، اُس کے عمل کا انداز تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ عمل اور بدلے کے تناسب ، عمل میں صرف ہونے والی قوت اور بدلے میں ملنے والی چیزوں کی قدر و قیمت کے اندازے کرنے لگتا ہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کی زندگیاں اِن دو مراحل میں ہی گذری ہیں ، کہ انہوں نے یہ جان لیا ، مان لیا اور اِس پر سچا پکا  اِیمان لے آئے کہ اُن کی زندگیوں کا  واحدمقصد اُن کے اکیلے خالق و مالک اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی عِبادت ہے ،جِس کے لیے اُن کی تخلیق کی گئی ،
پس اُنہوں نے اپنی عقلوں کو،اللہ عزّ و جلّ کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عِبادت کو اُس طرح سمجھنے  اور سیکھنے میں اِستعمال کیا  جِس طرح اللہ جلّ جلالہُ  کو عِبادت کروانا مطلوب تھی ،
اور اپنی عقلوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے مطلوب کے مطابق اُس کی عِبادت کو مکمل  ترین طور پر کرنے میں اِستعمال کیا ،  
اور اپنی عقلوں کو ، اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مُطابق یہ سمجھنے میں اِستعمال کیا کہ اُنہیں اللہ جلّ ثناوہُ کی عِبادت کے بدلے میں اللہ کی رضا ملے گی ،
::: تیسرا مرحلہ ::: اِس میں عقل ، نفس کی تابع ہو جاتی ہے ، اِیمان کی قوت اور مٹھاس غائب ہو جاتی ہے ، مقصد کے حصول سے توجہ ہٹ جاتی ہے ، اور صِرف  فوری طور پر ملنے والے بدلے  کی طرف رہتی ہے ،  کہ میں اگر فُلاں کام  کروں گا تو مجھے کیا ملے گا ؟ اور پھر کام کرنے  میں اِستعمال ہونے والی قوتوں اور ملنے والے  بدلے کو مادی ، معاشرتی اور دُنیاوی پیمانوں اور ترازوؤں ناپا اور تولا جانے لگتا ہے ،  جب کوئی دعوت ،کوئی تحریک اِس مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو اُس کا ہدف گم ہو جاتا ہے ، اور وہ صِرف دُنیا کی اندھیری چالوں میں بھٹکتی  رہتی ہے ، اُس کے افراد ، اور اُن افراد پر مشتمل معاشرہ اِنسانی  اور اخلاقی اقدار سے دُور ہو کر ذِلیل و رُسوا  ہوجاتا ہے،
خیال رہے کہ ، ہم اُن اِنسانی اور اخلاقی اقدار کی بات  کر رہے ہیں جو اچھے کردار والے باغیرت اور  باحیاء اِنسانوں کے ہاں پائے جاتے ہیں ، اور اُنہی  اقدار کے مُطابق عِزت اور رسوائی کی بات کر رہے ہیں ، مادی وسائل  کی کثرت کی بنا پر ملنے والے نام و نمود ، ظلم اور نا انصافی کر کے ، معاشی ، معاشرتی ، خاندانی رشتوں  اور دیگر  قوتوں کے ناجائز اِستعمال کی وجہ سے ملنے والے مقام عِزت نہیں ہوتے۔
مذکورہ بالا معلومات حاصل ہونے کے بعد اِن شاء اللہ تمام قارئین کرام پر میرے اِس مضمون کے عنوان میں کیے جانے والے سوال"""اللہ اور رسول اللہ محمدصلی اللہ علیہ  علی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین مُبارکہ کو کیسےسمجھا جانا چاہیے اور کیسے قُبول کیا جانا چاہیے ؟؟؟""" کا جواب واضح ہو چکا ہو گا ، اور اِن شاء اللہ  سب ہی قارئین اِس جواب کو اپنانے والے ہوں گے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اُس کی رضا والے منھج ، مسلک اور مذھب کو اپنانے اور اُسی پر چلتے رہنے کی ہمت عطاء فرمائے۔
 والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت :15/1/1436ہجری، بمُطابق،06/01/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔