Tuesday, June 30, 2015

: قُران و سُنّت کے باغ میں سے ::::::: تقدیر اور قضاء کا فرق ، کیا نیک کام اور دُعاء تقدیر کو تبدیل کرنے کے اسباب ہیں؟ :::::

::::::: قُران و سُنّت کے باغ میں سے :::::::  

::::: تقدیر اور قضاء کا فرق ، کیا نیک کام اور  دُعاء تقدیر کو تبدیل کرنے کے اسباب ہیں؟ :::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو، و الَّذی لَیس أصدق مِنہ ُ قِیلا، و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر پہنچا  دی،
السلام ُعلیکم ورحمۃ ُاللہ و برکاتہُ ،
إِن شاء اللہ آج ہم یہ جانیں گے کہ ،  کیا دُعا ، صدقہ اور کوئی نیک کام اللہ کی مقرر کردہ تقدیر ، یا اللہ کے فیصلے میں تبدیلی کا سبب ہو سکتے ہیں ؟؟؟
اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ،  ہمارے لیے  یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ العلیم القدیر کے مقرر کردہ اندازے ، یعنی تقدیر اور ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کے فیصلے یعنی قضاء میں کیا فرق ہے ؟؟؟
سب سے پہلے تو یہ  بات اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ تقدیر اور قضاء ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں ، الگ الگ نہیں ہیں ، جو کچھ  تقدیر میں لکھا ہوا جُوں کا تُوں واقع ہو جاتا ہے ، وہ اللہ کی مشیئت سے واقع ہوتا ہے ،اوراُس کا واقع ہو جانا ہی اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے ،
 اور اگر اللہ کی مشیئت میں ہو جائے کہ وہ  تقدیر میں لکھے ہوئے کسی معاملے کو تبدیل فرما دے ، اور اپنی مشیئت کے مُطابق اُسے تبدیل فرما دے تو اُس معاملے کے لیے وہی اللہ کی طرف  سے قضاء ہوتی ہے ، یعنی وہی فیصلہ ہوتا ہے ، لہذا یہ دونوں یعنی قدر اور قضاء ، اندازہ اور فیصلہ ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط ہیں ،
خیال رہے کہ بسا اوقات دونوں اِلفاظ ایک دوسرے کے مفہوم میں اِستعمال ہوتے ہیں ، لہذا سیاق و سباق کا خیال رکھتے ہوئے عبارت کا معنی اور مفہوم سمجھا جانا چاہیے ،
اِس طرح کے اِستعمال کی وجہ سے کئی عُلماء کرام نے یہ بھی کہا کہ قضاء اور تقدیر دونوں ایک ہی چیز ہیں ، لیکن اُن کی یہ بات حقیقت سے مُطابقت نہیں رکھتی ،
 کئی عُلماء کرام نے  ، کافی تفصیل سے تقدیر اور قضاء کے مختلف درجات بیان فرمائے ہیں ، اور دونوں میں فرق کو بھی کافی تفصیل سے بیان فرمایا ہے ، اگر میں وہ سب کچھ یہاں بیان کروں تو بہت سے قارئین کے لیے یہ  موضوع کافی خشک اور شاید نا سمجھا جا سکنے والا بن جائے گا ، 
لہذا ، اِن شاء اللہ ، میں موضوع کو قارئین کے لیے آسان  فہم رکھنے کے لیے  اِن دونوں کی مختصر تعریف ، قُران اور صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ سے دلائل کی روشنی میں پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ اِسے ہم سب کے لیے دِین دُنیا اور آخرت کی خیر کا سبب بنا دے  ،

:::::تقدیر :::::   اللہ جلّ جلالہُ کے مقرر کردہ اندازے ہیں ، جو کسی بھی مخلوق کے عِلم سے کہیں زیادہ مکمل اور یقینی ہیں کہ اُن میں جو کچھ لکھا گیا مخلوق کے معاملات بالکل اُسی طرح ہوتے ہیں ، لیکن  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے اُن میں تبدیلی ممکن ہے ،

اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے اُس کی مخلوق کے لیے مقرر کردہ اندازے ، یعنی تقدیر مخلوق کے بارے میں حکم اور فیصلے  نہیں ، لہذا مخلوق تقدیر کے سامنے بے بس و مجبور نہیں ،

جی ہاں مخلوق ، اپنے  اکیلے لا شریک خالق  اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں کے عین مُطابق ہی سب کچھ کرتی ہے ، لیکن اپنے لیے اچھے اور برے نتائج والے  عقائد ، افعال اور معاملات خود اختیار کرتی ہے ،

کیونکہ ، اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو عطاء کردہ شعور کے مُطابق اُس مخلوق کے لیے خیر اور شر کی خبر دے دی ہے، خاص طور پر اِنسانوں اور جِنّوں کو ، اور اُنہیں اپنے لیے خیر اور شر اختیار کرنے کی قُدرت بھی دے رکھی ہے ، لہذا ایسا نہیں کہ اِنسان مجبور محض ہے ، اور گناہ کرنے کے لیے  اپنی تقدیر کی وجہ سے مجبور ہے ، بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اپنے لیے گناہ اور نیکی ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اور نافرمانی اختیار کرنے میں آزاد ہے ، اور اپنے اختیار کردہ عقائد اور اعمال کے مُطابق اللہ سے بدلہ پانے والا ہے، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،

جیسا کہ اللہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے  یہ بتا رکھا ہے کہ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ::: اور تُم لوگوں کو جو کوئی بھی مُصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے (یعنی اپنے ہی کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے ہے )اور اللہ تو (تُم لوگوں کی )بہت(سی غلطیوں اور کوتاہیوں)سے در گذر فرماتا ہے( کہ اُن کی وجہ سے کوئی مُصیبت نہیں ڈالتا) سُورت   الشُوریٰ (42)/آیت 30 ،

::::: تقدیر پر إِیمان رکھنا فرض ہے:::::

اللہ جلّ ثناوہ ُ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ:::کوئی بھی مُصیبت ایسی نہیں جو زمین پر آئے اور یا تمہاری جانوں پر آئے ، جو ہماری طرف سے اُس مُصیبت کو پیدا کرنے سے پہلے ہی  کتاب میں لکھی نہ ہو ،یقیناً یہ(سب کچھ کرنا)اللہ کے لیے بہت آسان ہےسُورت الحدید(57)/آیت 22،
اور اِرشاد فرمایا ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ::: (اے رسول)کیا آپ نہیں جانتے کہ، جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے اللہ سب ہی کچھ جانتا ہے ، بے شک یہ سب کتاب میں (لکھا ہوا)ہے،یقیناً یہ سب اللہ کے لیے بہت آسان ہےسُورت الحج(22)/آیت70،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ:::بے شک ہم نے ہر ایک چیز ایک مقرر شدہ اندازے کے ساتھ بنائی ہےسُورت القمر (54)/آیت49،
اور اللہ جلّ ثناوہُ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر ادا کروائی  کہ ﴿كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ - قَالَ - وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ::: اللہ نے  آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمانے سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری مخلوق کی تقدیریں لکھ دِیں   (یعنی مخلوق کی زندگی کے ہر معاملے اور ہر کام کے بارے میں اندازے لکھ دیے)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا، اور(اُس وقت) اللہ کا عرش پانی کے اوپر تھا صحیح مُسلم /حدیث /6919کتاب القدر/باب2،
اور یہ خبر بھی اداکروائی کہ ﴿  كُلُّ شَىْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجْزُ وَالْكَيْسُ أَوِ الْكَيْسُ وَالْعَجْزُ :::ہر ایک چیز تقدیر کے مُطابق ہے یہاں تک کہ عجز اور چستی و ہوشیاری بھی صحیح مُسلم /حدیث /6922کتاب القدر/باب4،
اور جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب میں لکھ رکھا ہے اُس پر إِیمان رکھنا لازم ہے ، جیسا کہ اللہ عزّ و جلّ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے إِیمان کے بارے میں خبر ادا کروائی کہ﴿ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ:::(إِیمان یہ ہے )کہ تُم اللہ پر إِیمان رکھو اور اُس کے فرشتوں پر ، اور اُس کی کتابوں، اور اُس کے رسولوں پر ، اور آخرت کے دِن پر ، اور تقدیر کے خیر اور شر والی (دِینی، دُنیاوی  اور اُخروی لحاظ سے اچھی اور بُری ) ہونے پر إِیمان رکھوصحیح مُسلم /حدیث /6922کتاب القدر/باب4،
اور یہ بھی بیان کروایا کہ ﴿لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ:::کوئی بندہ اُس وقت تک إِیمان والا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تقدیر کے خیر اور شر والی (دِینی، دُنیاوی  اور اُخروی لحاظ سے اچھی اور بُری ) ہونے پر إِیمان نہ رکھے، یہاں تک کہ  وہ یہ جان لے کہ جو کچھ اُسے ملا (جو کچھ اس کے ساتھ ہوا) وہ اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا ، اور جوکچھ اُسے نہیں ملا (جو کچھ اُس کے ساتھ نہیں ہوا) وہ کچھ اُسے ملنے والا نہیں تھا (کیونکہ جو کچھ ملا اور جو کچھ نہیں ملا وہ سب اللہ کے فیصلے تھے جو نافذ ہوئے اور ہمیشہ ایسا ہی ہو گا)سُنن الترمذی /حدیث /2294کتاب القدر/باب10، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ۔
:::::قضاء ::::: اللہ احکم الحاکمین کے فیصلے ہیں ، جو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کے بارے میں  جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے صادر فرماتا ہے ، سوائے چند ایک ایسے فیصلوں کے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے سے فرما رکھے ہیں ، جیسا کہ فرمایا ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحسَانًا:: اور تُمارے  رب نے فیصلہ کر رکھا ہے، تُم لوگ  اُس کے عِلاوہ کسی کی عِبادت نہیں کرو ،اورماں باپ کے ساتھ بہترین سلوک رکھوسُورت الإِسراء(بنی إِسرائیل17)/آیت 23،

::::: تقدیر پر إِیمان رکھنا فرض ہے:::::

اللہ عزّ و جلُ  کی قضاء ، یعنی اُس کے کیے ہوئے فیصلوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ،  اور اِس پر إِیمان رکھنا فرض ہے ،
جِس کی سُنّت شریفہ میں دلیل ، وہی حدیث شریف ہے جو ابھی ابھی تقدیر  پر إِیمان رکھنے کے فرض ہونے کے دلائل  کے آخر میں ذِکر کی گئی ، اور اللہ تبارک أسماوہُ کے کلام پاک قران کریم میں سے دلائل درج ذیل ہیں :::
﴿ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ::: اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہنا ہے سُورت مریم(19)/آیت 21،
پس اللہ جلّ ثناوہُ جب کوئی فیصلہ فرما لیتا ہے تو اُس کا نفاذ ہونا ہی ہوتا ہے ،
﴿وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ::: اور جب اللہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کام کو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہےسُورت البقرہ (2)/آیت117، 

فیصلہ تقدیر میں لکھے ہوئے کے نافذ ہونے کا ہو ، یا کسی تقدیر میں تبدیلی کا ہو ، اُس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ،

﴿  لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ:::اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیںسُورت یُونس (10)/آیت64،
﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا:::اور اللہ کا حکم قطعی طور پر طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے(جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی)سُورت الأحزاب (33)/آیت38،

جب کہ تقدیر میں تبدیلی کا امکان ہوتا ہے ،

جِس کی خبر اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اِن الفاظ میں کروائی کہ ﴿   لَا يَزِيدُ فِى الْعُمْرِ إِلاَّ الْبِرُّ وَلاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ:::عُمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سوائے نیکی کے ، اور ےتقدیر کو کوئی چیز دُور نہیں کرتی سوائے دُعاء کےسُنن ابن ماجہ /حدیث /95باب فی القدر، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث 154،
اور یہ خبر بھی کروائی کہ﴿ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِى رِزْقِهِ ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِى أَثَرِهِ ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ::: جِسے یہ پسند ہو کہ اُس کے رزق میں وسعت کی جائے ، اور اُس کی باقی عُمر میں اضافہ کیا جائے تو وہ اپنی رشتہ داروں ساتھ اچھا سلوک کرےصحیح بخاری/حدیث /5985کتاب الادب/باب12،
پس یہ معاملہ واضح ہے کہ مخلوق  اللہ جلّ شانہ ُ کی مقرر کردہ تقدیر کے مُطابق عمل کرتی ہے ، لیکن اُس تقدیر کے سامنے بے بس نہیں ، مجبور نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس تقدیر کو بدلنے کے اسباب بھی مقرر کر رکھے ہیں اور اُن کی  خبر بھی کروا رکھی ہے ، لہذا ہمیں  ہر و ہ سبب اختیار کرنا چاہیے جو ہماری تقدیر میں لکھے ہوئے  ، ہمیں ملنے والے کسی بھی شر کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کا سبب ہو سکے ، اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اُس شر کو اپنی رحمت اور خیر کے ساتھ تبدیل کر دے ۔
 والسلام علیکم۔تاریخ کتابت : 19/03/1436 ہجری، بمُطابق،10/01/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مسیر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, June 24, 2015

::::::: سجدہ تلاوت کا شرعی حُکم ، اور چند أہم معاملات :::::::

::::::: سجدہ تلاوت کا شرعی حُکم ، اور چند أہم معاملات :::::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،

ایک بھائی کی طرف سے سجدہ تلاوت کے  شرعی حکم جاننے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ،

میں نے اُن کی مطلوبہ معلومات مہیا کرنے کے لیے کچھ سوالات و جوابات ترتیب دیے ہیں ، جو کہ درج ذیل ہیں ، اِن شاء اللہ اِن کا مطالعہ کرنے سے سجدہ تلاوت کا شرعی حکم ، اور سجدہ تلاوت سے متعلق دیگر أہم مسائل کا پتہ چل جائے گا ،

::: (1) ::: سجدہ تلاوت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟    ::: (2) :::  کیا یہ فرض یا واجب ہے ؟

::: (3) :::  اگر سجدہ تلاوت کرسکنے میں کوئی روکاٹ ہو تو کیا بعد میں اُس کی قضاء ادا کرنا ضروری ہے؟

::: (4) ::: سجدہ تلاوت میں جاتے ہوئے ، اور اُس میں  سے اُٹھتے ہوئے تکبیر کہنے کا کیا معاملہ ہے ؟

::: (5) ::: سجدہ تلاوت میں کیا پڑھا جانا چاہیے ؟  

::: (6) ::: کیا سجدہ تلاوت کے لیے طہارت  (وضوء ، پاکیزگی)شرط ہے ؟

::: (7) :::  کیا سجدہ ٹلاوت کرنے کے لیے قبلہ رُخ ہونا ضروری ہے ؟

::: (8) ::: اگر قران پڑھنے والا سجدہ تلاوت نہ کرے تو  کیا سننے والا سجدہ تلاوت کرے گا ؟

::: (9) ::: کیا ریکارڈڈ  تلاوت سنتے ہوئے سجدہ  تلاوت کرنا ضروری ہے ؟

::: (10) ::: اگر کوئی عور ت سر ڈھانپے بغیر تلاوت کر رہی ہے ، اور سجدے والی آیت پڑھتی ہے ، یا، یا ، کسی کی تلاوت سن رہی ہے ،  اور وہ قاری سجدہ کرتا ہے ، تو کیا یہ عورت سر ڈھانپے بغیر سجدہ کرے گی ؟

::: (11) ::: کیا سجدہ تلاوت کرنے  کے بعد سلام پھیرا جانا چاہیے؟

::: (12) ::: قران کریم میں  سجدہ تلاوت والے کتنے مُقامات ہیں ؟

::::::: پہلے تین سوالات کا جواب :::::::

سجدہ تلاوت کے بارے میں دُرُست حُکم یہ ہے کہ ، سجدہ تلاوت مُستحب ہے ، جسے کچھ فقہا ء کے ہاں سُنّت مؤکدہ بھی کہا جاتا ہے ،  ایسا کہنا  دُرست ہے یا نہیں ، یا دونوں اصطلاحات یعنی مُستحب اور سُنّت مؤکدہ میں کای فرق ہے ،  یہاں اِس وضاحت کا مُقام نہیں ،  اِس کا ذِکر اِس لیے کیا ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں کوئی شک نہ رہے کہ فلاں نے تو سُنّت مؤکدہ کہا ہے ،

بہر حال سجدہ تلاوت کا شرعی حکم یہ ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ میں سے ہے ، (صحیح بخاری/کتاب17سجود القران،صحیح مُسلم /کتاب المساجد/باب21سجود التلاوۃ)،

یعنی اسے ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ اِسے ترک کے پیچھے سُنّت کے معمولی یا غیر أہم ہونے کا کوئی عقیدہ یا  باطل خیال نہ ہو ، جیسا کہ عموماً  لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ """سُنّت ہی تو ہے """،

جی ، تو سجدہ تلاوت ، مُستحب   ہے ، یعنی ایسا عمل جسے کرنا پسند کیا گیا ، اور جس کے چھوڑنے پر کوئی وعید یعنی کسی گناہ ، یا عذاب کی کوئی خبر  نہیں ، اور نہ ہی اِسے کرنے کا کوئی حکم دِیا گیا ہے ،

:::::::سجدہ تلاوت کے مُستحب ہونے کے دلائل :::::::

::::::: (1) :::::::: زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ﴿ قَرَأْتُ عَلَى النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم -( وَالنَّجْمِ ) فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا  ::: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے (سُورت )والنجم  تلاوت کی ، اور اُنہوں نے اِس (کی تلاوت سننے کے دَوران)میں (کہیں بھی)سجدہ نہیں فرمایاصحیح بخاری /حدیث/1073کتاب سجود القران/باب6، سُنن ابی داؤد ، سُنن الترمذی  ،سُنن الدارمی ، مُسند احمد،،،،،،اور سنن الدراقُطنی کی روایت میں ہے کہ  ﴿ فَلَمْ يَسْجُدْ مِنَّا أَحَدٌ::: اور ہم میں سے کسی ایک نے بھی سجدہ نہیں کیاسُنن الدارقُطنی/حدیث/1545کتاب الصلاۃ    /باب4،

::::::: (2) :::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دُوسرے  بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے بارے میں روایت ہے کہ ﴿  أنه قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ،حَتَّى إِذَا كَانَتْ الْجُمُعَةُ الْقَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ قَالَ،

 يَا أَيُّهَا النَّاسُ: إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ، وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، -وَزَادَ نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضْ السُّجُودَ إِلَّا أَنْ نَشَاءَ ،

ایک دفعہ  جمعے کے دِن اُنہوں نے منبر پر سورت النخل کی تلاوت کی ، یہاں تک سجدہ (تلاوت کا مُقام)آیا ، تو أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ منبر سے نیچے تشریف لائے اور سجدہ فرمایا ، اور سب لوگوں نے سجدہ کیا ،

پھر جب اگلا جمعہ آیا تو  وہی سورت پڑھی ، اور جب سجدہ تلاوت  (کا مُقام) آیا، تو اِرشاد فرمایا ،

اے لوگو، ہم(قُران کریم کی تلاوت کے دوران)سجدوں (والے مُقامات )پر پہنچتے ہیں ، پس جِس نے تو (وہاں)سجدہ کیا تو اُس نے بہتر کیا ، اور جِس نے سجدہ نہیں کیا ، تو اُس پر کوئی گُناہ نہیں ،

اور (یہاں ، اِس موقع  پر )أمیر المؤمنین عُمر الفاروق  رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے سجدہ نہیں کیا،

نافع (روایت کے راویوں میں سے ایک )نے (اِس روایت میں یہ بھی )اِضافہ کیا کہ """ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاھما کا کہنا ہے کہ ،،، """(یہ تلاوت میں آنے والے)سجدے  کرنے ہماری مرضی  پر (چھوڑ دیے گئے )ہیں، کیونکہ یقیناً اللہ نے یہ سجدے فرض نہیں فرمائے"""،

اِن معلومات کو جاننے کے بعد ، سجدہ تلاوت کا شرعی حکم بڑی سہولت سے سمجھ آ جاتا ہے ،اِن شاء اللہ ، کہ سجدہ تلاوت فرض نہیں  واجب نہیں ، بلکہ مُستحب (یا دیگر اِلفاظ میں سُنّت مؤکدہ)ہے ،

::::: ضروری ملاحظہ :::::  گو کہ سُنّت کو معمولی کام ، یا غیر أہم  نہ سمجھتے  ہوئے ، سجدہ تلاوت کو چھوڑا جا سکتا ہے ، لیکن ،،،، ہر ایک مُسلمان کو یہ یاد رکھنا ہی چاہیے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سجدہ تلاوت فرمایا کرتے تھے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین  رحمہم اللہ جمعیاً کے ہاں  سجدہ تلاوت ادا کرنا ہی معمول تھا ،  لہذا ہر مُسلمان کو چاہیے کہ  وہ بھی یہ معمول اپنائے  ،

جی اگر کسی وقت کسی وجہ سے سجدہ تلاوت نہ کر سکے تو کوئی حرج نہیں ، اور نہ ہی چھوڑے ہوئے سجدہ تلاوت کی کوئی قضاء ہے ۔

::::::چوتھا سوال ::::::: سجدہ تلاوت میں جاتے ہوئے ، اور اُس میں  سے اُٹھتے ہوئے تکبیر کہنے کا کیا معاملہ ہے ؟::::::

::::::: جواب  ::::::: سجدہ تلاوت میں جاتے ہوئے تکبیر کہی جائے گی ، اُس میں سےواپس سر  اُٹھاتے ہوئے ، یا اُٹھتے ہوئے تکبیر کہنے کی کوئی دلیل میسر نہیں ،

جی ، اگر سجدہ تلاوت دروان نماز ہو  تو پھر سجدے میں جاتے ہوئے اور اُس سے واپس سر اٹھاتے ہوئے بھی تکبیر کہے جائے گی  کیونکہ یہ معاملہ نماز کے اندر کا ہے ، اور نماز میں کیے جانے والے سجدوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہ ہی طریقہ مقرر فرمایا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے ، اور سجدے میں سر اُٹھاتے ہوئے ، دونوں ہی مُقامات پر تکبیر کہی جائے گی ، اور آج تک کسی اختلاف کے بغیر ساری ہی اُمت کا اِس پر عمل ہے ، وللہ الحمد۔

:::::: پانچویں سوال :::::::سجدہ تلاوت میں کیا کہا جائے ؟  کیا پڑھا جائے ؟ ::::::

::::::  جواب   :::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے سجدوں میں مختلف  الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد  فرمایا کرتے تھے ،ہم  اُن میں سے کوئی بھی الفاظ سجدہ تلاوت میں کہہ سکتے ہیں ،

احادیث شریفہ میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ نماز  میں کیے جانے والے سجدوں میں کی گئی تحمید  کے ایک حصے میں کچھ اضافہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سجدہ تلاوت  میں بھی فرمایاکرتے تھے ،

پس سُنّت  شریفہ کی زیادہ بہتر  مُطابقت کے لیے ، مُناسب یہ ہی ہے کہ سجدہ تلاوت میں ، تسبیح ، یعنی سُبحان ربی الاعلی کے بعد یہ ہی کہا جائے کہ ﴿ سَجَدَ وَجْهِى لِلَّذِى خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ:::میرے چہرے نے اُسے سجدہ کیا جِس نے اِس کی تخلیق فرمائی ، اوراُس (خالق )نے اپنی قُدرت اور قوت کے ساتھ (میرے ) اِس (چہرے )کی سماعت (سننے کی صِفت )اور بصار ت (دیکھنے کی صِفت) پھاڑ کر کھول دِیں،

اِس کا  ایک مفہوم یہ بھی  ہو سکتا ہے کہ ﴿اوراُس (خالق )نے اپنی قُدرت اور قوت کے ساتھ (میرے )اِس (چہرے کو پھاڑ کر اُس )میں  سے کان اور آنکھیں تخلیق فرمائے،

یہ مذکورہ بالا  الفاظ اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا  نے بتائے ہیں کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم قران کریم کی تلاوت میں آنے والے سجدوں میں یہ  الفاظ فرمایا کرتے تھے ،    

سُنن ابو داؤد /حدیث /1416کتاب سجود القران/باب7، سُنن الترمذی /حدیث /583 کتاب  الصلاۃ/  باب 295،سُنن النسائی /حدیث /1137کتاب التطبیق/باب 71، اِن تمام روایات کو إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،

میں نے کچھ دیر پہلے کہا کہ """نماز  میں کیے جانے والے سجدوں میں کی گئی تحمید  کے ایک حصے میں کچھ اضافہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سجدہ تلاوت  میں بھی فرمایاکرتے تھے"""، اور امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی روایت پیش کی ، اب ایک اضافی فائدے کے طور پر وہ روایت بھی پیش کرتا ہوں جِس میں ، سجدہ تلاوت میں کی جانے والی یہ مذکورہ بالا تحمید سجدہ تلاوت کے علاوہ نماز کے عمومی سجدے میں کیے جانے کا ذِکر ہے ، لیکن سیاق و سباق میں  کچھ  اضافے اور کمی کے ساتھ ،

یہ خبر ہمیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے دی ہے کہ،

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نماز میں سجدہ فرماتے تو سجدے میں (تسبیح کے بعد یہ )اِرشاد فرماتے  ﴿اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِى لِلَّذِى خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ::: اے اللہ میں نے (تجھے)تیرے لیے سجدہ کیا ، اور تجھ پر إِیمان لایا ، اور تیرے لیے سرنگوں ہو گیا ،میرے چہرے نے اُسے سجدہ کیا ، جِس نے اِس چہرے کی تخلیق کی، اور اِس چہرے کو بہترین  صُورت دِی ،اور(میرے ) اِس (چہرے )کی سماعت (سننے کی صِفت )اور بصار ت(دیکھنے کی صِفت) پھاڑ کر کھول دِیں، اللہ ہی کی پاکیزگی ہے جو سب سے بہترین تخلیق کرنے والا ہے صحیح مُسلم / حدیث /1848کتاب صلاۃ المُسافرین/باب 26،صحیح ابن حبان /حدیث/1975کتاب الصلاۃ /باب 11، سُنن ابو داؤد  /حدیث /760کتاب الصلاۃ   /باب/123سُنن الترمذی /حدیث /3752 کتاب  الدعوات/ باب 32،سُنن ابن ماجہ /حدیث /1107کتاب اقامۃ الصلاۃ / باب 170، یہ تمام روایات صحیح ہیں ،

سُنن ابن ماجہ کی روایت میں  خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ کے بعد  فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ بھی ہے

صحیح ابن حبان ،سُنن ابن ماجہ  اور سُنن الترمذی کی روایات میں وَلَكَ أَسْلَمْتُ کے بعد  أَنْتَ رَبِّى بھی ہے ،

پس اِن تمام صحیح روایات کے مجوعے کے طور پر یہ تحمید اِس طرح بنتی ہے کہ ﴿اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، أَنْتَ رَبِّى،  سَجَدَ وَجْهِى لِلَّذِى خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ، فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ::: اے اللہ میں نے (تجھے)تیرے لیے سجدہ کیا ، اور تجھ پر إِیمان لایا ، اور تیرے لیے سرنگوں ہو گیا ، تُو ہی میرا رب ہے ، میرے چہرے نے اُسے سجدہ کیا ، جِس نے اِس چہرے کی تخلیق کی، اور اِس چہرے کو بہترین  صُورت دِی ،اور(میرے )اِس (چہرے )کی سماعت (سننے کی صِفت )اور بصار ت(دیکھنے کی صِفت) پھاڑ کر کھول دِیں، اللہ ہی کی پاکیزگی ہے جو سب سے بہترین تخلیق کرنے والا ہے﴾، اِن روایات میں ذِکر کردہ کسی بھی تحمید کو ، یا سب کے مجموعے کو ، یا کبھی کسی کو ، اور کبھی کسی کو  نماز میں کیے جانے والے سجدوں میں  کہا جا سکتا ہے ،

لیکن ، سجدہ تلاوت میں چونکہ ایک ہی جملہ ثابت ہوتا ہے ، جو امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے بتایا ، لہذا ہمیں اُسی کو اپنانا چاہیے ،

خیال رہے کہ سجدوں میں دُعاء کرنا ، اور تسبیح و تحمید کرنا الگ معاملات ہیں ، لہذا سجدوں میں دُعاء کرنے کی ترغیب کی بنا پر سجدہ تلاوت میں اپنی طرف سے کوئی تسبیح یا حمد وغیرہ شامل کرنا دُرُست نہیں ، اور نہ ہی سجدہ تلاوت میں دُعاء کرنے کی کوئی دلیل میسر ہے ، پس سمجھ لیا جانا چاہیے کہ وہ جو  سجدوں میں دُعائیں کرنے کی ترغیب فرمائی گئی ہے تو وہ نماز میں کیے جانے والے سجدوں کے لیے ہے ۔

::::::: چَھٹا سوال  ::::::: کیا سجدہ تلاوت کے لیے طہارت (وضوء ، پاکیزگی)شرط ہے ؟ :::::::

::::::  جواب :::::: جی نہیں ، سجدہ تلاوت کے لیے طہارت کے لازمی ہونے کی کوئی دلیل نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی مختلف مجلسوں میں قران کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ، اور  جب سجدے والی آیات کی تلاوت فرماتے تو خود بھی سجدہ فرماتے اور مجلس میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی سجدہ فرماتے ،

اور یہ بالکل سمجھی سمجھائی بات ہے کہ اُن مجالس میں حاضر ہر ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ وضوء کی حالت میں تو نہیں ہوتے تھے ،  

اورہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں  کہیں کوئی ایسی خبر نہیں ملتی جِس میں اُنہوں نے  یہ فرمایا ہو کہ جو کوئی وضوء کی حالت میں نہیں وہ سجدہ نہ کرے ، لہذا جب تک ایسا کوئی حکم میسر نہ ہو ، سجدہ تلاوت کرنے کے لیےطہارت ( وضوء)کی حالت میں ہونے کا حکم (فتویٰ)دینا دُرُست نہیں ۔ 

::::::: ساتواں  سوال  :::   کیا سجدہ  تلاوت کرنے کے لیے قبلہ رُخ ہونا ضروری ہے ؟

اس مسئلے میں بھی عُلماء کی دو رائے ہیں ، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ سجدہ تلاوت نماز کی طرح ہے لہذا اس میں قبلہ رُخ ہونا لازم ہے، جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ سجدہ تلاوت ذکر  میں سے ہے ، جس کی ادائیگی کے لیے قبلہ رُخ ہونا ضروری نہیں ،

اور   یہ دُوسری بات زیادہ دُرست محسوس ہوتی ہے، کیونکہ تلاوت محض دوران  نماز ہی تو  نہیں کی جاتی ، اور نہ ہی اس کے لیے نماز والی شرائط مقرر ہیں ،  لہذا سجدہ تلاوت کو نماز  کی طرح ، نماز کے جیسا سمجھنا دُرست نہیں ،

سجدہ تلاوت کے لیے پاکیزگی کی حالت میں ہونے کی  اور قبلہ رُخ ہونے کی کوشش کرنا بہر حال   اچھا ہے ، لیکن دونوں ہی  کام    شرعی طور پر واجب نہیں ہیں  ۔

::::::: آٹھواں  سوال  ::::: اگر قران پڑھنے والا سجدہ تلاوت نہ کرے تو  کیا سننے والا سجدہ تلاوت کرے گا ؟ :::::

::::: نواں  سوال  ::::: کیا ریکارڈڈ  تلاوت سنتے ہوئے سجدہ  تلاوت کرنا ضروری ہے ؟ :::::::

::::::  جواب :::::: جب تک قراءت کرنے والا سجدہ نہ کرے ،قراءت  سننے والے کو بھی سجدہ نہیں کرنا چاہیے ،

اِس کی دلیل زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ ُ کی بیان کردہ وہ حدیث ہے جسے ابھی کچھ دیر پہلے ذِکر کیا گیا ، کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حضور سورت النجم کی تلاوت کی ، اور سجدہ نہیں کیا ، تو نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سجدہ فرمایا ، اور نہ حاضرین محفل میں سے کسی نے ، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی کو بھی سجدہ کرنے کا حکم فرمایا ، لہذا یہ واضح ہوا کہ اگر قراءت کرنے والا سجدہ کرنے گا تو ہی سننے والے بھی سجدہ کریں گے ۔ 

:::::  دسواں سوال  ::::: اگر کوئی عور ت سر ڈھانپے بغیر تلاوت کر رہی ہے ، اور سجدے والی آیت پڑھتی ہے ، یا، یا ، کسی کی تلاوت سن رہی ہے ،  اور وہ قاری سجدہ کرتا ہے ، تو کیا یہ عورت سر ڈھانپے بغیر سجدہ کرے گی ؟ :::::

::::::  جواب :::::: عورت کے لیے افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ وہ قران پڑھتے ہوئے اپنا سر ڈھانپ لے ، بہر حال ، اگر وہ سر ڈھانپے بغیر قران پڑھ رہی اور سجدے والی آیت پڑھتی ہے ، یا کسی کی قراءت سُن رہی ہے اور وہ قاری سجدے والی آیت پر سجدہ کرتا ہے ، تو  یہ عورت سر ڈھانپے بغیر سجدہ کر سکتی ہے ، کیونکہ سجدہ تلاوت کے لیے سر ڈھانپنے کے لازمی ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ،

رہا معاملہ نماز  کے لیے سر ڈھانپنے کے لازمی ہونے کا ، تو اِس کو نماز سے باہر کیے جانے والے سجدہ تلاوت پر نافذ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ وہ حکم نماز کی ادائیگی کے سر ڈھانپنے کا ہے ، نہ کی صِرف سجدہ کرنے کے لیے سر ڈھانپنے کا ،

::::: گیارہواں سوال  ::::: کیا سجدہ تلاوت کرنے  کے بعد سلام پھیرا جانا چاہیے؟ :::::

::::::  جواب :::::: جی نہیں ، ایسا کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ، سجدہ تلاوت کرنے کے بعد اگر مزید قراءت کرنی ہو تو کی جائے ، ورنہ سجدے سے براہ راست اُٹھ کر اپنی قراءت کو ختم کیا جا سکتا ہے ،

خواہ یہ سجدہ تلاوت نماز کے باہر ہو ، یا نماز کے اندر ۔

::::: بارہواں سوال  ::::: قران کریم میں  سجدہ تلاوت والے کتنے مُقامات ہیں ؟ :::::

::::::  جواب :::::: قران کریم میں پندرہ 15مُقامات پر سجدہ تلاوت ہے ، وہ مُقامات درج ذیل ہیں :::

::: (1) :::﴿ إِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ سُورت لااعراف(7)/آیت206،

 ::: (2) :::﴿ وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِسُورت لااعراف(13)/آیت15،

::: (3) :::﴿ وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ سُورت النحل(16)/آیت49،

::: (4) :::﴿ قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا سُورت الاِسراء(بنی إِسرائیل17)/آیت107،

::: (5) :::﴿ أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا سُورت مریم (19)/آیت58،

::: (6) :::﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ سُورت الحج(22)/آیت18،

::: (7) :::﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَسُورت الحج(22)/آیت77،

::: (8) :::﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًاسُورت الفُرقان(25)/آیت60،

::: (9) :::﴿ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَسُورت النمل(27)/آیت25،

::: (10) :::﴿ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَسُورت السجدہ(32)/آیت15،

::: (11) :::﴿،،،،،وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَسُورت ص(38)/آیت24،

::: (12) :::﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَسُورت فُصلت(41)/آیت37،

::: (13) :::﴿فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُواسُورت نجم(53)/آیت62،آخری آیت،

::: (14) :::﴿ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَسُورت الانشقاق(84)/آیت21،

::: (15) :::﴿ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْسُورت العلق(96)/آیت19،آخری آیت،

یہ مذکورہ بالا آیات مُبارکہ  وہ ہیں کہ جن انہیں پڑھا جائے تو سجدہ تلاوت کیا جانا چاہیے ،

اِن میں سے پہلے دس آیات مُبارکہ کی تلاوت میں سجدہ کرنے پر سب ہی عُلماء کا اتفاق ہے ، اور آخری پانچ کے بارے میں کچھ عُلماء کی رائے مختلف ہے ، جس کا ذِکر إِمام الطحاوی رحمہُ اللہ نے"""شرح معانی الآثار""" میں اور إِمام  ابن حزم الاندلسی رحمہُ اللہ نے """المحلی""" میں کیا ہے ،

لیکن چونکہ اِن پندرہ آیات مُبارکہ کی تلاوت میں سجدہ کرنے  پر ساری اُمت کا متفقہ عمل ہے ، لہذا اسی کو دُرُست مانا جاتا ہے ، اور اِس کی گواہی کے لیے ایک حدیث بھی ہے ، جسے سند کے اعتبار سے محدثین کرام رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دِیا ہے ، لیکن فقہاء اُمت کے متفقہ عمل کی بنا پر اسے بطور گواہ قبول کیا جاتا ہے ،

وہ حدیث درج ذیل ہے :

عَمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ُ کا  سے روایت ہے کہ ﴿ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-أَقْرَأَهُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَجْدَةً فِى الْقُرْآنِ مِنْهَا ثَلاَثٌ فِى الْمُفَصَّلِ وَفِى سُورَةِ الْحَجِّ سَجْدَتَانِ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُنہیں قران میں پندرہ سجدے پڑھائے ،  جِن میں سے تین (حزب )مفصل میں ہیں ، اور دو (سُورت الحج)میں (اور باقی قران  کریم کے دیگر حصوں میں )ہیںسُنن ابن ماجہ/حدیث /1110کتاب إقامة الصلاة والسنة/باب71، سُنن ابو داؤد،حدیث 1403،کتاب سجود القران/پہلا باب، سنن الدارقُطنی /حدیث/1538کتاب  الصلاۃ /باب الإِمَامِ يَسْبِقُ الْمَأْمُومِينَ بِبَعْضِ الصَّلاَةِ فَيَدْخُلُ مَعَهُمْ مِنْ حِينَ أَدْرَكَهُ وَيَكُونُ أَوَّلَ صَلاَتِهِ،

إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے ضعیف قرار دِیا ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے """تمام المنة في التعليق على فقه السنة /و من  سجود التلاوۃ/ صفحہ رقم 269"""

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ماننے اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ، والسلام علیکم،تاریخ کتابت : 10/09/1436Oہجری، بمُطابق،28/05/2015عیسوئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔