Sunday, August 30, 2015

::::::: رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام مُبارک :::::::Names Of Prophet Muhammad

 


::::::: رسول اللہ مُحمد  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نام مُبارک :::::::

بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور(اللہ کی) رحمت اور سلامتی اُس(ذات شریف)پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصُوم نہیں وہ (ذات پاک)ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور(اللہ کی) رحمت اور سلامتی(ہر) اُس(شخص) پر(بھی) جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور(اِس کے برعکس) یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
کہا جاتا ہے کہ """طہٰ """ ، """ یٰس،"""مُدثر"""، """مُزمِّل"""، رسول اللہ  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ناموں میں سے ہیں ، جب کہ یہ بات درست نہیں ،
جی ہاں، اللہ تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ میں سے """طہٰ """ اور """یٰس""" اُسی طرح """حروف مقطعات """ہیں، جس طرح """الم""" اور """ صٓ """ہیں ،
 سوچیے کہ اگر """طہٰ""" اور  """یٰس""" رسول اللہ  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام ہیں تو """کھیعص """ کس کا نام ہے ؟ ،
 """ حم""" کس کا نام ہے ؟
 اور """طس """ وغیرہ کس کے نام ہیں ؟
اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک فرامین کے اِن مذکورہ بالا   الفاظ میں سے کسی بھی لفظ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ناموں میں سے نام  سمجھے جانے کو کہیں کوئی دلیل نہیں، خواہ اُنہیں ذاتی نام کہا جائے ، یا صِفاتی نام، چہ جائیکہ اِن الفاظ کو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ناموں میں سے ہی مان لیا جائے ،
خوب اچھی طرح ، لیکن بہت تحمل اور بردباری کے ساتھ لازمی طور پر سمجھنے والا معاملہ ہے کہ اِن اِلفاظ کے بارےمیں ، اور جس کسی بھی لفظ کے بارے میں ہمیں اللہ اور اس   کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہ خبر میسر نہیں کہ وہ لفظ محمدرسول اللہ صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کے ناموں میں شامل ہے تو اِس لفظ کو ، محمدرسول اللہ صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم  کا نام قرار دینا  اللہ اور اُس کےاِسی  رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پربہتان ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول کریم  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دو نام بیان فرمائے ہیں:::
::: (1)أحمد ،
::: (2)محمد ،
اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے لیے پانچ نام بیان فرمائے ہیں اوربڑی صراحت کے ساتھ اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿ لِى خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ، أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَنَا أَحْمَدُ ، وَأَنَا الْمَاحِى الَّذِى يَمْحُو اللَّهُ بِىَ الْكُفْرَ ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِى يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِى ، وَأَنَا الْعَاقِبُ:::میرے (یہ)پانچ  نام ہیں، میں محمد ہوں ، اورمیں أحمد ہوں، اور میں  مِٹانے والا ہوںمیرے ذریعے اللہ کُفر مِٹائے گا ، اور میں وہ  ہوں جس کے  قدموں کے نشان پر (یعنی جس کے بعدجلد  ہی)لوگوں کو حشر  میں جمع کیا جائے گا  ، اور میں (نبیوں اور رسُولوں میں سب سے )آخر والا ہوںصحیح البخاری /کتاب المناقب /باب17، صحیح مسلم /کتاب الفضائل /باب34،
ایک اور روایت میں ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں اپنے نام بتایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے   ﴿ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْمُقَفِّى وَالْحَاشِرُ وَنَبِىُّ التَّوْبَةِ وَنَبِىُّ الرَّحْمَةِ :::میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور (انبیاء اور رُسُل میں سب سے)بعد میں آنے والا ہوں ، اور حشر (کے قریب ترین وقت )والا ہوں اور توبہ (لانے والا)نبی ہوں ، اور رحمت (لانے والا)نبی ہوںصحیح مسلم /کتاب الفضائل /باب34،
ایک اور روایت میں انہی مذکورہ بالا ناموں کے ساتھ ایک اور نام کا اضافہ ہے اور وہ ہے   ﴿نَبِىُّ الْمَلْحَمَةِ:::وہ نبی جس (کی آمد) کے بعد (ہی مختلف اوقات میں)عظیم ترین قتل گری  اوربے پناہ  خون بہائے جانے  والاوقت رُونما ہو گا صحیح ابن حبان ، مُسند أحمد ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث1473،
ان  مذکورہ بالا  ناموں میں سے دو نام """ مُحمد """ اور """ احمد """ ذاتی نام ہیں ، جنہیں اللہ جلّ و عُلا نے اپنی کتاب کریم میں بھی ذِکر فرمایا ہے ،  اور باقی صِفاتی نام ہیں، اِن ناموں کے علاوہ نبی اللہ  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے کوئی اور نام ثابت نہیں ہوتا ،پس ہمیں  اِنہی ناموں تک رُکے رہنا چاہیے اور خُوب اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ  علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام اِسلامی عقیدے کا جُز ہیں لہذا اپنی طرف سے اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارکہ کے لیے کوئی نام بنانا جائز نہیں ،
رہا معاملہ صِفات کی بنیاد پر کوئی نام دینا ، تو یہ بھی اللہ اور اُس کے رسول پاک محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شخصیات کے بارے میں جائز نہیں ، اگر ایسا کرنا جائز  ہوتا تو ہمیں خود اللہ کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے رب کے لیے اور اپنے لیے ایسے نام بتاتے  جو اُن کی صِفات سے اخذ کیے گئے ہوتے،
 اور پھر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ہمیں یہ ملتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صِفات مُبارکہ کی بنا پر مختلف ناموں سے پکارتے ، یا اُن ناموں کے ذریعے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ذِکر فرماتے ،لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  نے ایسا نہیں کیا ، لہذا  ہمیں سارے ذخیرہ احادیث میں اور سیرت کی کتابوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے منقول ثابت شدہ نام یہی ملتے ہیں جن کا ابھی ذِکر کیا گیا ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی کِسی صِفت ، کِسی عادت یا کِسی کام کی بنا پر اگر کوئی نام دے کر پکارا ہے جیسا کہ”””مُدثر “““اور”””مُزمل “““، تو ہمیں بھی اِنہی ناموں تک رُکا رہنا چاہیے اپنی طرف سے صِفاتی نام  نہیں بنانے چاہیں ،
 اِن صِفاتی ناموں کے بارے میں ذرا یہ بھی سوچیے کہ اگر اِنہیں ناموں کی طرح اِستعمال کرنا ہوتا تو ہمیں نظر آتا ، سنائی دیتا ، پڑھنے میں آتا کہ  صحابہ رضی اللہ عنہم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِن ناموں سے پکارتے تھے ، جبکہ ایسا کہیں بھی میسر نہیں ،
یوں بھی ایک قاعدے قانون کی بات ہے کہ کِسی شخصیت  میں موجود کسی صِفت کی بنا پر اُس کے لیے نام اختیار نہیں کیا جاتا ،
 جی ہاں اُس کی نشانیوں میں اِس صِفاتی نام کا ذکر ہونا ایک الگ معاملہ ہے ، بالخصوص اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ناموں کے سلسلے میں تو صِفات کی بِنا پر نام بنا لیا بالکل دُرُست نہیں ،
ایک مثال پیش کرتا ہوں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے      ﴿وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ:::اور وہ لوگ دھوکہ دہی کرتے ہیں اور اللہ (بھی اُن کے ساتھ اپنی )مکر کرتا ہے اور اللہ سب سے بہترین مکر کرنے  والا ہے سورت الانفال(8)/آیت30،
کیا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان کی روشنی میں ، خود اللہ کی طرف سے بیان کردہ اُس کی اِس صِفت کے مُطابق اللہ کے لیے ””” ماکر “““ یعنی””” مکر کرنے والا  ،  مکّار “““ نام اختیار کر سکتے ہیں ؟؟؟
 مجھے یقین ہے کہ کوئی کم سے کم اِیمان والا بھی اللہ جلّ ثناوہُ و تبارک أسمہُ کے لیے  یہ نام قُبُول نہیں کرے گا ،
 پس اللہ اور اُس کے رسول   کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن کی ہی دی خبر کے مُطابق بھی کسی صِفت کی بناء پر کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ،جی اُس صِفت پر اِیمان رکھنا واجب ہے لیکن اُس صِفت کی بناء پر نام رکھنا دُرُست نہیں ۔
اِس مسئلہ میں ایک اور معاملہ بھی اکثر نام دینے والوں کی عقل سے غائب رہتا ہے ، اور وہ یہ کہ وہ کسی صِفت کا ذِکر سُن پڑھ کر نام بنا لیتے ہیں اور اِس کے صِفت کے بارے میں دِی جانے والی مکمل خبروں کا مطالعہ نہیں کرتے یا اگر کرتے بھی ہیں تو اپنی خود ساختہ، یا اپنی اختیار کردہ سوچ و فِکر کے مُطابق کرتے ہیں ،  جِس کی کوئی دلیل ، کوئی تائید قران کریم ، یا رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی،
مثال کے طور پر ، نبی اللہ محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ناموں میں ایک نام  ”””ھادٍ، یا ،ھادیٌ “““ یعنی ”””ہدایت دینے والا “““بتایا جاتا ہے ،اِن اِلفاظ کو عام لہجے میں ھاد، یا ھادی وغیرہ کہا جاتا ہے ،
جی ہا ں ، اِس میں کوئی رتی برابر بھی شک نہیں ، کہ ، محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ عزّ و جلّ  نے ہدایت عطاء فرمانے کا ذریعہ بنایا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں یہ صِفت رکھی کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے ہدایت پھیلے ، لیکن کیا وہ بذاتء خود ”””ھادٍ، یا ،ھادیٌ “““تھے ؟؟؟
اپنے رب کی اجازت اور مشیئت کے بغیر وہ کسی کو ہدایت دے سکتے تھے ؟؟؟
اس کا جواب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے کلام مبارک میں ہی میسر ہے ، پڑھیے ، اور خُوب غور ، تحمل اور تدبر کے ساتھ پڑھیے:::
﴿وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ:::اور جِسے اللہ گُمراہ کر دےتو  اُسے ہدایت دینے   والاکوئی بھی نہیں  ہےسورت   الرعد(13)/آیت 33،سورت الزُمر(39)/آیات 36،23،سورت غافر(40)/آیت33،
﴿مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ::: جِسے اللہ گُمراہ کر دےتو  اُسے ہدایت دینے   والاکوئی بھی نہیں  ہےسورت الأعراف (7)/آیت 186،
﴿لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ::: (اے محمد )آپ لوگوں کو ہدایت دینے کے ذمے دار نہیں اور لیکن اللہ ہی جِسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہےسورت البقرہ(2)/آیت 282،
اور رسول اللہ محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خواہش کے باوجود بھی ہر کسی کو ہدایت نہیں ملی  
﴿إِنْ تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ ::: (اے محمد )اگر آپ لوگوں کو ہدایت ملنے کی شدید خواہش بھی کریں  ہوں تو بھی بلا شک اللہ اسے ہدایت دینے والا نہیں جو (جانتے بوجھتے ہوئے)گمراہ ہو اور اُن لوگوں کے لیے کوئی مدد گار نہیں سورت النحل(16)/آیت37،
﴿لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ::: (اے محمد )آپ لوگوں کو ہدایت دینے کے ذمے دار نہیں اور لیکن اللہ ہی جِسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہےسورت البقرہ(2)/آیت272،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے سارے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اپنی سُنّت مبارکہ یہ بیان فرمائی کہ ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا::: اور ہم نے انہیں اِمام بنایا جو ہمارے حُکم سے ہدایت دیتےسورت الأنبیاء(21)/آیت 73،
اور سابقہ اُمتوں میں سے اِیمان لا کر نیک عمل کرنے والوں میں سے جن کو یہ صِفت عطاء فرمائی اُن کے بارے میں اِرشاد فرمایا ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ::: اور ہم نے اُن  میں سے(جنہیں چاہا)اِمام بنایا جو ہمارے حُکم سے ہدایت دیتے،(یہ)اُس وقت(ہوا)کہ جب  اُنہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر مکمل اِیمان رکھتے تھے سورت السجدۃ(32)/آیت 24،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا یہ درج ذیل فرمان اس مسئلہ میں فیصلہ کن ہے ، جِس کے بعد کسی تاویل کی بھی گنجائش نہیں رہتی ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ::: (اے محمد)بلا شک آپ جِسے چاہیں اُسے ہدایت نہیں دے سکتے اور لیکن اللہ جِسے چاہتا ہے وہ ہی  اُسے ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہدایت پانے والوں کے بارے میں سب سے زیادہ عِلم رکھتا ہے سورت القصص(28)/آیت 56،
ابھی ابھی  بیان کردہ اِن تمام آیات مُبارکہ سے اور اِن جیسی کئی دیگر  آیات مُبارکہ سے، اور آغاز میں بیان کی گئی احادیث مُبارکہ سے  یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کی طرف سے ہدایت دیے جانے کا ایک ذریعہ تھے ، نہ کہ وہ خود اپنی چاہت کے مُطابق کسی کو ہدایت دے سکتے تھے ،
 لہذا جب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے   لیے”””ھادٍ ، یا ، ھادیٌ“““ہونے کی صِفت کا ذِکر کیا جائے تو یہ یاد رکھا جائے کہ اس صِفت کی بناء پر ہم اُنہیں یہ نام نہیں دے سکتے ،  بلکہ جس طرح اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک صِفت کے طور پر ذِکر فرمایا ، ہمیں  بھی  اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک صِفت کے طور پر ہی یہ کہنا اور لکھنا چاہیے  کہ، جن کے  اللہ  تعالیٰ  نے  چاہا اُن کے لیے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ھادی بنایا ، اور جن کے لیے نہ چاہا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھ دیکھ کر بھی ، اُن کی ز ُبان شریف سے اللہ کے دِین کی دعوت سُن سُن کر بھی کافر کے کافر ہی مر گئے ، مُشرک کے مُشرک ہی مر گئے ، اور آج تک ایسے اَن گنت لوگ ہیں جو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیان کردہ ہدایت کو سن کر  یا پڑھ کر یا دونوں ہی ذرائع سے جان کر بھی اُس پر عمل نہیں کرتے ، بلکہ اپنے اپنے فلسفوں ، سوچوں ، فِکروں ، مذھبوں ، مسلکوں ، پیروں ، مُرشدوں ، حضرتوں ، سرکاروں ، جماعتوں ، مبلغوں ،مولویوں اور مولاناؤں کے جنگل میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں ،
پس ، اللہ جلّ جلالہُ کے مذکورہ بالا فرامین سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ناموں میں ھاد یا ھادی نہیں ہے اور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے ناموں میں اِس کا ذِکر فرمایا ،
یہ معاملہ ،یہ مسئلہ صِرف اِس ایک نام ، ھاد، یا ھادی کے بارے میں نہیں ، اِس کا ذِکر تو ایک مثال کے طور پر کیا  گیا ہے ، اِس کے علاوہ بھی جتنے بھی نام ، صِفاتی نام کہہ کر بنائے جاتے ہیں ، ہمیں اُن سب ہی ناموں کے بارے میں بھی یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں خودسے  اللہ جلّ و عزّ ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ علی و آلہ وسلم کے لیے کوئی نام بنانے  سے ، کوئی نام اُن سے منسوب کرنے سے باز ہی رینا چاہیے ،
 اُن کے لیے جو صِفات قُران کریم اور صحیح احادیث شریفہ میں بیان ہوئی ہیں اُن صِفات پر اِیمان  رکھنا چاہیے اور اُن کا صِفات  کے طور پر ہی ذِکر کیا جانا چاہیے نہ کہ اُن صِفات سے نام اخذ کر کے اُن ناموں کو اِیمان کا جُز بنانا  چاہیے،
جیسا کہ لوگوں نے رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہی طور پر طرح طرح کے نام بنا رکھے ہیں ، اور کچھ نے تو معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ کی برابری دِکھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بھی ننانوے نام گھڑ رکھے ہیں ،
اور کچھ بے چارے ، حقیقت سے لا عِلم ،مُسلمان بھائی اور بہنیں ، جو کہ حق سے تو دُور ہیں  لیکن مُحبتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  رکھتے ہیں ، اور اُسی مُحبت میں کے ثبوت کے طور پر ، اور گمراہ کرنے والے دینی تاجروں کی بلا دلیل باتوں کا شِکار ہو کر  ثواب کمانے کے چکر میں ، اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے منسوب کردہ ناموں کی تختیاں لکھوا لکھوا کر بازاروں ، شاہراوں  ، گھروں ، اور مسجدوں میں لگواتے ہیں ،
وہ بے چارے یہ نہیں جانتے کہ وہ کچھ نیکی نہیں کما رہے ، بلکہ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک کو وہ نام دے رہے ہیں ، جو نام نہ  تو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دیے ، نہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے آپ کو دیے ، نہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےبڑوں میں سے کسی نے خاندانی طور پر رکھے تھے ، اور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے اپنے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دیے ،
قارئین کرام ، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ صدیوں بعد ، آنے والوں کو کس کی طرف سے ، اللہ اور اُس کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے وہ کچھ منسوب کرنے کی وحی ہوتی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے ساتھ منسوب نہیں کیا ،
اللہ جلّ و عُلا کے کچھ فرامین شریفہ کے ساتھ اپنی آج کی بات ختم کرتا ہوں ، اپنے رب تعالیٰ کے اِن فرامین میں تدبرفرمایے،  
﴿ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ ::: (اے محمد )فرمایےاے لوگو تُمہارے پاس تُمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے لہذا جو کوئی ہدایت(کا طلب گار ہو کر ہدایت)حاصل کرتا ہے تو وہ (اُس )ہدایت سے اپنی جان کا ہی بھلا کرتا ہے اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی ہی جان کا نقصان کرتا ہے، اور میں تُم لوگوں کاذمہ دار نہیں ہوںسورت یونُس(10)/آیت108،
﴿وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى::: اور جو لوگ (ہدایت کے طلبگار ہو کر)ہدایت پا لیتے ہیں اللہ اُنہیں ہدایت میں اضافہ دیتا ہےسورت مریم(19)/آیت76،
﴿وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ  ::: اور جو لوگ (ہدایت کے طلبگار ہو کر)ہدایت پا لیتے ہیں اللہ اُنہیں مزید ہدایت عطاء فرماتا ہے اور اُن لوگوں کو اُن کا تقویٰ عطاء فرماتا ہےسورت مُحمد(47)/آیت17،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پانے والوں اور اِس میں اِضافہ پانے والوں میں بنائے۔
طلبگارء دُعاء ،
آپ کا بھائی ،  عادِل سُہیل ظفر ،
والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت :05/01/1431ہجری،بمُطابق،22/12/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :13/11/1436ہجری،بمُطابق،28/08/2015عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔