Saturday, November 19, 2016

::::::: ہم سب ہی باطل والے ہیں ، بے کار و بےہودہ ہیں :::::::


بسّمِ اللہ الرَّحمٰن الرَّحِیم
واُصلی و اُسلِّم عَلیَ رَسولہِ الکریم
آج کی بات کا عنوان ہے  ،  
::::::: ہم سب ہی باطل والے ہیں ، بے کار و بےہودہ ہیں  :::::::
جو ایک بہت نصیحت آمیز واقعہ کے ایک  مرکزی  کردار کا قول ہے ،  آیے وہ واقعہ پڑھتے ہیں ،
ایک عورت کو اللہ نے بہت حُسن دیا تھا کہ گویا اُس کا حُسن توبہ شکن تھا ، ایک دِن اُس عورت نے  اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اُس نے اپنے خاوند سے کہا  """کیا تُم یہ سوچ سکتے ہو کہ کوئی شخص میرا چہرہ دیکھ کر میرے  حُسن کا شِکار ہوئے بغیر رہ سکتا ہے ؟ """
اُس کے خاوند نے کہا """ ہاں  """
بیوی نے کہا """ ایسا کون ہو سکتا ہے ؟ """
خاوند نے کہا """ عُبید بن عُمیر """
بیوی نے کہا """ مجھے اُس کے پاس جانے کی اِجازت دو ، میں اُسے ضرور فتنے میں ڈال کر رہوں گی """
خاوند نے کہا """ جاؤ ، اِجازت ہے """
بیوی نے تیاری کی اور عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کے پاس فتویٰ حاصل کرنے کے بہانے سے پہنچی ، اور علیحدگی میں بات کرنے کے لیے  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کو  مسجد الحرام کے ایک گوشے میں لیے چلی ، جب وہ دونوں لوگوں کی نظروں سے کافی دُور ہو گئے تو اُس عورت نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ، گویا کہ چمکتے دمکتے  چاند کاایک ٹکڑا زمین پر اُتر آیا ہو ،
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کا خوف کرو اور اپنا چہرہ چھپائے رکھو """
عورت نے کہا """ میں آپ کی مُحبت میں مُبتلا کر دِی گئی ہوں ، میرے معاملے میں غور فرمایے """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ میں تُم سے کچھ پوچھتا ہوں ، اگر تُم نے ہاں میں جواب دیا تو پھر میں تمہارے اُس معاملے میں کی طرف توجہ کروں گا """
عورت نے کہا """ آپ جو بھی پوچھیں گے میں اُس میں آپ کی ہاں میں ہاں ہی ملاوں گی """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ مجھے یہ بتاؤ کہ جب ملک الموت تُمہاری رُوح قبض کرنے کے لیے آئے گا تو کیا  تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تُمہاری یہ ضرورت پُوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اور پوچھا """ جب تمہیں قبر میں  داخل کر دیا جائے گا اور پھر تمہیں سوال  وجواب کے لیے بٹھایا جائے گا تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اور پھر  پوچھا """ جب لوگوں کو اُن کے اعمال نامے دیے جائیں گے ، اور تم جانتی نہیں ہو گی کہ تمہار ا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں ،تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اور پوچھا """ اور جب تم پل صراط سے گذرنے لگو گی اور تم نہ جانتی ہوگی کہ تم لڑکھڑاؤ گی یا ثابت قدمی سے گذر جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اور پوچھا """ اور جب  اعمال تولنے کے لیے ترازو پر لائے جائیں گے اور تم نہ جانتی ہو گی کہ تمہارے نیک کاموں کا پلڑا بھاری ہو گا یا ہلکا ، تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اور پوچھا """ اور جب تُم سوال و جواب کے لیے اللہ کے  سامنے پیش کی جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """
عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ،  نہیں """
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """،
 اورفرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ  کی  ناراضگی اور عذاب سے بچو ، اُس نے تُمہیں  اپنی نعمتیں عطاء کی ہیں ، اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے """
یہ سب سن کر وہ عورت اپنے خاوند کے پاس واپس پہنچی تو اُس نے پوچھا """ کیا کر کے آئی ہو؟ """
عورت نے کہا """ تم بے کار و بے ہودہ ہو ، ہم سب ہی بے کار و بےہودہ ہیں """
اور  وہ عورت نماز ،روزےاور عِبادات کی طرف پلٹ پڑی ،
اِس واقعے کے بعد اُس کا خاوند کہا کرتا تھا """ میرے اور عُبید بن عُمیر کے درمیان کیا دشمنی تھی کہ اِس نے میری بیوی کو میرے لیے خراب کر دیا ، پہلے میں ہر رات دُولہا ہوتا تھا اور اب اِس نے میری بیوی کو راھبہ بنا دیا ہے """
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: اس سچے واقعہ سے ملنے والے اسباق :::
::::: اللہ کے مراقبے پر ایمان ، کہ اللہ ہر جگہ دیکھ اور سن رہا ہے ، لہذا خلوت میں بھی کیے گئے اعمال سے وہ باخبر ہے ،
::::: سچے اِیمان والے کی نظر اُس کے اِختیار میں ہوتی ہے ، اپنی مرضی سے اُسے اُٹھاتا ہے اور اپنی مرضی سے اُسے جھکاتا ہے ،
::::: نظر کے زہریلے تیروں کو اپنے دِل تک نہیں جانے دیتا ،  
::::: سچے اِیمان کی اِسکے حامل پر تاثیر اور پھر اُس سچے اِیمان  والے کے عمل کی  مُسلمان دِلوں والوں پر تاثیر کا پتہ چلتا ہے ،
::::: پہلے درجے کے تابعین کے دَور میں ، اور مکہ المرمہ میں بھی ، مُسلمانوں کی صفوف میں نام اور حُلیے کے مُطابق مُسلمان لگنے والے  ایسے """ خوش خیال """ لوگ موجود تھے جو  عورتوں کو """کافی آزادی """دینے کے قائل تھے ، اورُ اس آزادی کو اللہ کے نیک بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اِستعمال کرنے پر بھی راضی ہوتے تھے ،
::::: جب اُس وقت  زمین کے سب سے مقدس ترین مُقام میں ، مُسلمانوں میں ایسے نام نہاد مُسلمان موجود تھے تو اب ساری دُنیا میں مُسلمانوں میں کیا کیا مُسلمان بن کر شامل نہ ہوگا؟
میں آج کی بات کو صِرف اِن أسبا ق تک ہی محدود رکھنا چاہتا تھا ، لیکن ابھی خیال آیا کہ بات ختم کرنے سے پہلے آپ لوگوں کو اللہ کے اُس سچے مؤمن کا تعارف تو کرواتا چلوں ،  
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ ، بن قتادہ اللیثی  رحمہُ اللہ  پہلے درجے کے تابعین میں سے تھے ،
کنیت ابو  عاصم تھی ،
دُرست اندازے کے مُطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُور  مُبارک میں ہی پیدا ہو چکے تھے ،
تاریخ وفات سن  اَڑسٹھ  68ہجری ہے ،
اھل مکہ کے قاضی اور اُن میں سے سب سے بہترین اندازء خطاب والے خطیب تھے ،
یعنی اِس طرح وعظ و نصیحت اور خطاب فرماتے تھے جیسے کہ کوئی آنکھوں دیکھا قصہ بیان کیا جا رہا ہو ،بلکہ  کچھِ اس طرح  گویا کہ بیان کرنے والا اُس قصے کے کرداروں کے تاثرات اور اُس قصے کے واقعات کے اثرات خود پر پا رہا ہو، حق گوئی کے ساتھ  ایسا اندازء بیان اللہ کسی کسی کو ہی نصیب فرماتا ہے ،
  عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے  مُسلمانوں میں سب سے پہلے یہ اندازء خطابت دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمر ابن الخطاب  رضی اللہ عنہما کے دورء  خلافت میں پیش کیا ، 
 اپنے دیگر تابعین بھائیوں رحمہم اللہ جمعیاً کی طرح اِیمان ، عِلم ء نافع ، عمل ء صالح اور ز ُھد و تقویٰ کی عظیم الشان مثال تھے،
اپنے زمانے کے """ مُستجاب الدعوات  """ لوگوں میں سے مانے جاتے تھے  یعنی جن کی دُعا ءقُبول ہوتی تھی ،
إمام مجاھد رحمہ ُ اللہ کہا کرتے تھے """ہم اپنے  فقیہ  اور اپنے قاضی پر فخر کرتے ہیں ، ہمارے فقیہ تو ہیں عبداللہ ابن عباس           ( رضی اللہ عنہما ) اور ہمارے قاضی ہیں عُبید بن عُمیر( رحمہُ اللہ)،
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے دِین کو جِس کا ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مُبارکہ پر مشتمل ہے ، اُس دِین کی جُزئیات کواِنتہائی اِمانت ، صداقت ، احتیاط ،ذمہ داری اور خوب چھان بین کےساتھ اپنے دِلوں میں محفوظ کیا ، زندگی بھر اُس پر عمل پیرا رہے ، اور اِسی طرح  دُوسروں کو سِکھایا ، اللہ تعالیٰ ہم سب مُسلمانوں کو ایسے ہی  اِیمان والوں میں سےبنا دے ۔ و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع ::: تاریخ  الثقات/ إمام احمد بن عبداللہ  العجلی رحمہُ اللہ  ،
التاریخ الکبیر / إمام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہُ اللہ ،
المتنظم فی التاریخ الامم و الملوک / إمام عبدالرحمٰن بن علی الجوزی رحمہُ اللہ ،
الطبقات الکبری / إمام محمد بن سعد رحمہُ اللہ ، جو ابن سعد کے نام سے معروف ہیں ،
الثقات /إمام محمد بن حبان رحمہُ اللہ ، """ صحیح ابن حبان """ کے مؤلف ، عام طور پر إمام ابن حبان کے طور پر ذکر کیے جاتے ہیں ،
صفۃ الصفوۃ / إمام عبدالرحمٰن بن علی الجوزی رحمہُ اللہ ،    
کتب التاریخ  اور  کتب الرجال  میں سے تقریبا ہر کتاب میں ان کا ذکر موجود ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :