Friday, February 24, 2017

::::: عورت اور مرد کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت میں فرق :::::

:::::  عورت اور مرد کی نماز کی  ادائیگی  کی کیفیت میں فرق :::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
 تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار ، اللہ کی مخلوق میں سے اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے ، اللہ کی سب سے بہترین اور مکمل ترین عِبادت کرنے والے ، اللہ کے بندے اور رسول مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی نگرانی اور اللہ کی عطاء کردہ عصمت میں اپنے منصبِ رسالت کو بہترین اور مکمل ترین طور پر نبھاتے ہوئے اللہ کے ہر ہر حُکم کی عملی اور ز ُبانی وضاحت فرما دی،
شاید ہی کوئی مُسلمان ایسا ہو گا جو ز ُبانِ قال سے اِس بات سے اِنکار کرتا ہو لیکن افسوس کہ زُبانِ حال سے اِنکار کرنے والے نظر آتے ہیں ، اور ایسی باتیں کہی اور لکھی جاتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت نہیں بلکہ بسا اوقات اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کی مُخالفت بھی نظر آتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کی توفیق عطا فرمائے ،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے حُکموں میں سے ایک نماز قائم کرنے کا حُکم بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دِین کے اِس رُکن اور سب سے اہم ترین عِبادت کو زُبانی اور عملی طور پر بڑی وضاحت سے سمجھا دِیا اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بڑی ہی باریک بینی اور امانت کے ساتھ آگے پہنچا دِیا ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عورت اور مرد کے لیے نماز کی کیفیت اور ادائیگی کے طریقے میں کہیں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ،
ہمارے کچھ  بھائی عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں فرق بیان کرتے ہیں، کہیں اُسے  زمین کے ساتھ چپک کر نماز پڑھنے کا کہا جاتا ہے ، کہیں  کسی خاص انداز میں بیٹھنے کا کہا جاتا ہے ،


سالہا سال سے میں اُن کی کتابوں میں کوئی ایسی صحیح ثابت شُدہ  دلیل تلاش کر رہا ہوں  جو اُن کے اِس دعوے یا فتوے کی تائید کرتی ہو ، لیکن بے سُود ،
 اُن سے اور اُن کے کئی عُلماء سے جو  ماشاء اللہ مُفتی کے منصب دار ہیں ، بالمشافہ پوچھ چُکا ہوں لیکن جواب ندارد،
 پھر بھی جو بات اُن کو ملی ہے اُسی پر عمل کیے جا رہے ہیں اور اُس کی تشہیر بھی کیے جارہے ہیں ، جبکہ اِس فرق کی کوئی صحیح ثابت شدہ دلیل  اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں ،
سوائے اِس فلسفے کے کہ """چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو ڈھک چُھپ کر نماز پڑھنے کا حُکم دِیا ہے اِس لیے ہم اُسے زمین کے ساتھ چپک کر اور بازوپسلیوں کے ساتھ لگا کرسجدہ کرنے کا طریقہ سِکھاتے ہیں"""،
اِس فلسفے کے لیے کوئی ثابت شدہ دلیل مُیسر نہیں ،
جی، دو ضعیف روایات ہیں ، جِن کو شاید عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں فرق کی بنیاد بنایا جاتا ہو، یہ دونوں روایات  إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے اپنی "سُنن الکبریٰ " میں روایت کی ہیں ،
اور اِن کو روایات کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ """وَقَدْ رُوِىَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لاَ يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا::: اور اِس (مسئلے میں ، یعنی عورت کی نماز کا طریقہ یا کیفیت الگ ہونے کے مسئلے ) میں  دو ضعیف (یعنی کمزور) حدیثیں روایت کی گئی ہیں ، ایسی حدیثوں کو حُجت نہیں بنایا جا سکتا   """،
::: () ::: ابو سعید الخُدری رضی اللہ سے  ایک طویل حدیث میں  کے درمیان میں روایت کیا گیا ہے کہ  (((وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافُوا فِى سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِى سُجُودِهِنَّ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِى التَّشَهُّدِ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ  ::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مَردوں کو حکم دِیا کیا کرتے تھے کہ اپنے سجدوں میں اپنی بازؤں کو کھلا رکھیں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ  اپنے سجدوں میں جُھک جایا کریں (زمین سے چپک جایا کریں )اور مَردوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ تشھد میں اپنے الٹے پاؤں کو بچھایا کریں اور سیدھے پاؤں کو کھڑا رکھیں کریں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ (تشھد میں ) اپنے دونوں پاؤں جسم کے نیچے  بچھا کر بیٹھا کریں  )))سُنن الکبریٰ للبیہقی /حدیث /3014کتاب الحیض /باب 335ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود ،
 اور خود إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ """ واللفظ الأول واللفظ الآخر من هذا الحديث مشهوران عن النبي صلى الله عليه و سلم وما بينهما منكر والله أعلم:::اِس حدیث کا پہلا حصہ اور آخری حصہ دونوں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے  مشہور  (انداز میں  مروی )ہیں ،اور جو اِن دونوں کے درمیان ہے (یعنی یہ مذکورہ بالا اِلفاظ ) یہ منکر ہے  """،
لہذا ا یہ  روایت قابل حُجت نہیں ، اِس سے کوئی حکم نہیں لیا  جا سکتا ،
اِس کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے درج ذیل روایت ذِکر کی ،
::: () ::: عبداللہ ابن عُمر سے روایت کیا گیا کہ  (((إِذَا جَلَسْتِ الْمَرْأَةُ فِى الصَّلاَةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدْتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِى فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ : يَا مَلاَئِكَتِى أُشْهِدُكُمْ أَنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَهَا::: جب عورت نماز میں  بیٹھے  تو اپنی ایک ران کو دُوسری ران پر رکھے ، اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں کے ساتھ چپکا لے ،  کہ یہ اُس کے لیے سب سے زیادہ پردے والا ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ اُس کی طرف دیکھتا ہے تو فرماتا ہے کہ ، اے میرے فرشتو ، گواہ رہنا کہ میں اِس عورت کی بخشش کر دی ہے ))) سابقہ حوالہ ،
 پہلی روایت کی سند میں عطاء بن العجلان نامی راوی ، اور دُوسری روایت میں ابو مطیع نامی راوی کی و جہ سے یہ دونوں روایات ضعیف ہیں ،
اِن دو ضعیف حدیثوں  کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے ایک مُرسل روایت بھی  ذِکر ہے ، کہ ،  ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دو عورتوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو  اُن دونوں سے اِرشاد فرمایا (((إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِى ذَلِكَ كَالرَّجُلِ ::: جب تم سجدہ کرو تو   اپنے جِسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ لگا دِیا کرو، کیونکہ نماز پڑھنے کے معاملے میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے )))سابقہ حوالہ ،
یہ روایت  یزید بن ابی حبیب کی مرسل  روایت ہے ، اور  مُرسل روایت بھی ضعیف یعنی کمزور، ناقابل حجت ہوتی ہے ، بالخصوص جب کہ اُسے کِسی صحیح روایت کی گواہی مُیسر نہ ہو ،
لہذا معاملہ بالکل صاف ہوا کہ عورت اور مرد کی نماز کی ادائیگی میں  ، نماز کے طریقے میں ، نماز کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا،
صِرف افضلیت کے باب میں سے کچھ بزرگوں کے اقوال ایسے ملتے ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت کو نماز پڑھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ڈھکا چھپا رکھنے کی کوشش کرنا ہی چاہیے ،
اور  شاید اِسی لیے   عورت کو سینے پر ہاتھ باندھنے کا حُکم فرمایا جاتا ہے جبکہ  عورت کا سینہ تو اللہ نے ابھرا ہوا رکھا ہے اب اگر وہ ہاتھ بھی سینے پر رکھتی ہے تو ڈھک چُھپ کر نماز پڑھانے کا  خیال نا دُرست  ہو جاتا ہے ، قطع نظر اِس کے کہ اِس فرق کی بھی قُران و سُنّت میں کوئی دلیل  نہیں ، اور نہ ہی مرد کے لیے ناف پر یا سینے کے عِلاوہ کہیں بھی اور ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح دلیل ہے ،
میرے مسلمان بھائی بہنو، اللہ تعالی کا فرمان ہے ((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرفَعُوا أَصوَاتَکُم فَوق َ صَوتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجہَرُوا لَہُ بِالقَولِ کَجَہرِ بَعضِکُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمَالُکُم وَأَنتُم لَا تَشعُرُون::: اے ( لوگو) جو أیمان لائے ہو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند مت کرو اور نہ ہی اُس سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ( ایسا نہ ہو کہ ) تمہارے أعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ ہو ))) سُورت الحجرات / دُوسری آیت ،
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور حکموں کو ماننے اور اُن پر عمل کرنے کی بجائے اپنی یا کِسی اور کی رائے ، فتوے ، خیال یا بہانے بازی کرنا ہے ، اور اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے مراد اُنکے فرمان ہیں جو اب تک نقل ہو کر آ رہے ہیں گویا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن رہے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے آواز بلند کرنا اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار یا اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بلائے جانے کو کِسی عام آدمی کی پکار سمجھ کر لاپرواہی کرنا ، اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر کِسی بھی اور کی بات کو أپنانا حرام ہے ،اور اِسکا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفت یا عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایاہے ((( لَا تَجعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَینَکُم کَدُعَاء  بَعضِکُم بَعضاً قَد یَعلَمُ اللَّہُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنکُم لِوَاذاً فَلیَحذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَن أَمرِہِ أَن تُصِیبَہُم فِتنَۃٌ أَو یُصِیبَہُم عَذَابٌ أَلِیمٌ  ::: تُم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بلانے کو ایسا بلانا مت بناؤ جیسا کہ تُم لوگوں کا ایک دوسرے کو بلانا ہوتا ہے ، تُم میں سے اللہ اُنہیں خوب جانتا ہے جو ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بلاوے پر ) نظر بچا کر چُپکے سے کِھسک جاتے ہیں لہذا جو لوگ اُس (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ خبردار رہیں کہ ( کہیں ) اُن پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا ( کہیں ) اُنہیں کوئی عذاب نہ آ پکڑے )))سُورت النور /آیت 63،
اللہ کرے کہ ہم لوگ  تبلیغِ دِین سے پہلے عِلمِ دِین کا کچھ بُنیادی حصہ تو حاصل کر لیں ، کم از کم اتنا جان لیں کہ جو بات ہم کہہ یا لکھ رہے ہیں وہ اللہ او ررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کِسی دلیل پر مبنی ہے کہ نہیں ،، کم از کم دلیل تو جان لی جائے اُس کو دُرُست طور پر اِستعمال کِیا جا رہا ہے یا نہیں یہ جاننا دوسرا مرحلہ ہے ، لیکن جب دلیل تک جاننے کی زحمت نہ جائے تو پھر جِس کا جیسے جی چاہے اور جہاں جی چاہے ہمیں لیے چلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کو دِین اِسلام جاننے سیکھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور اِسلامی مذاھب میں سے دُرست اور غیر دُرُست کی پہچان عطاء فرمائے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, February 22, 2017

:::::: مَردوں اور عورتوں کی ایک دُوسرے سے مُشابہت اختیار کرنا:::::

:::::: مَردوں  اور عورتوں کی ایک دُوسرے سے مُشابہت اختیار کرنا:::::
بِسمِ اللَّہِ  و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اُمت ء اسلامیہ کے اپنے دِین ء حق سے دُوری کے مظاھر میں سے ایک مظہر یہ بھی ہے ، کہ مَرد اور عورت دونوں ایک دُوسرے کی نقالی کرنے میں مشغول ہیں ، اپنے لباس ، اپنی عادات ، اپنی حرکات سکنات  میں وہ ایک دُوسرے کی تشبیہ اختیار کرتے ہیں ، اور جانتے بوجھتے ہوئے کرتے ہیں کہ فُلاں لباس ، فُلاں کام ، فُلاں حرکت ، فُلاں انداز ہماری جِنس کا نہیں ،  پھر بھی اُسے اپناتے ہیں اور اپنا کر اُس پر کوئی عار تک  محسوس نہیں کرتے  ، گناہ کا احساس ہونا تو دُور ٹھہرا ،
ایک دُوسرے  کے انداز میں اُٹھنا بیٹھنا ، بات چیت کرنا، باعتبار جِنس  جو کام جِس جِنس سے متعلق قرار دیے گئے ہیں وہ کام کرنا ،  جیسا کہ مَردوں کو گھروں سے باہر کے کام نمٹانا ہوتے ہیں ، اور  گھر گرہستی کی ذمہ دار عورت ہے ، اب مَرد گھروں میں  رہ کر عورتوں کو باہر کے کاموں پر رخصت کرتے ہیں ، اور عورتیں گھریلو کاموں سے متعلق باہر کی ضروریات پوری کرنے کے بہانے گھروں سے باہر پھرتے رہنا پسند کرتے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ،
دونوں جِنسوں کا ایک دُوسرے   کی مُشابہت اختیار کرنے میں سب سے زیادہ عمل لباس   کے اختیار کرنے میں ہو رہا ہے ،
مرد حضرات اپنے لباس میں عورتوں کی طرح کڑھائی، نقش و نگار اور عورتوں کے اِستعمال میں آنے والے رنگ بڑے ذوق و شوق سے اِستعمال کرتے ہیں ،
اور خواتین محترمات اپنے لباس مَردوں کے جیسے پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں ،  شاید  یہ سمجھتی ہیں کہ اِس طرح وہ مَرد کی برابری کر رہی ہیں ،
دونوں ہی کو غالباً یہ عِلم نہیں کہ ایک دُوسرے کی مُشابہت اختیار کر کے وہ خود کو اللہ کی رحمت سے کاٹ رہے ہیں ، اللہ کی لعنت کا حق دار بنا رہے ہیں ،
غصہ مت کیجیے گا ، اور اِسے دقیا نوسیت  یا ملاں اِزم وغیر کہہ کر چیں بجبیں مت ہویے گا ،  یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ، بلکہ اللہ عزّ و جلّ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے مُطابق کہہ رہا ہوں ،
آیے پڑھیے کہ اللہ  تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی ز ُ بان شریف سے اُن مَردوں اور عورتوں کے لیے کیا خبریں ادا کروائی ہیں ، جو مَرد اور عورتیں ایک دُوسرے کی مُشابہت اختیار کرتے ہیں ،
::: (1) ::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہےکہ (((لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مَردوں میں سے عورتوں کی مُشابہت اختیار کرنے والوں پر لعنت کی ہے ، اور عورتوں میں سے مَردوں کی مُشابہت اختیار کرنے والیوں پر لعنت کی ہے  ))))صحیح بخاری /حدیث /5885کتاب اللباس /باب 61الْمُتَشَبِّهُونَ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتُ بِالرِّجَالِ ،
::: (2) ::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے ہی یہ بھی بتایا ہے کہ (((لَعَنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ ، وَالْمُتَرَجِّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ ، وَقَالَ ، أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ  ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مَردوں میں سے عورتوں کی مُشابہت اختیار کرنے والوں پر لعنت کی ہے ، اور عورتوں میں سے مَردوں کی مُشابہت اختیار کرنے والیوں پر لعنت کی ہے، اور فرمایا ہے، ایسے لوگوں کو اپنے گھروں میں سے نکال دو (یعنی انہیں اپنے گھروں میں داخل نہ ہونے دو ، اور اگر داخل ہوں تو نکال دِیا کرو ) ))) صحیح بخاری /حدیث /5886کتاب اللباس /باب 62 إِخْرَاجِ الْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَاءِ مِنَ الْبُيُوتِ،
اِس حدیث شریف میں مذکورہ لفظ "مخنَّث " سے مُراد ہر وہ شخص ہے جو جسمانی طور پر مکمل مرد ہونے کے باوجود عورتوں کے انداز و اطوار اپناتا ہے ، اور وہ شخص بھی جِس میں جسمانی طور پر کوئی کمی یا کمزوری ہو ، اور اُس کو سبب بنا کر اُس نے عورتوں کی مُشابہت اختیار کر رکھی ہو ، یعنی وہ لوگ جنہیں  "ہیجڑا " کہا جاتا ہے ،
یہ دونوں مذکورہ بالا احادیث شریفہ تو دونوں جِنسوں کی ایک دُوسرے سے کِسی بھی انداز اور کِسی بھی طور مُشابہت کے حرام ہونے اور اُس کے بدلے میں اللہ کی لعنت کا مستحق ہونے ، یعنی ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کٹ جانے کی خبر لیے ہوئے ہیں ،
اب دیکھیے کہ خصوصی  طور پر صِرف لباس کا ذِکر فرما کر بھی یہی خبر دی گئی ،
::: (3) ::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ (((لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُلِ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن مَردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنیں ، اور اُن عورتوں پر لعنت کی ہے جو مَردوں کا سا لباس پہنیں)))سُنن   ابو داؤد /حدیث /4100کتاب اللباس /باب 30 لِبَاسِ النِّسَاءِ،  صحیح ابن حبان  /حدیث /5751کتاب الحظر و الاِباحۃ  /باب 8 اللعن،إمام البانی رحمہُ اللہ نے دونوں روایت کو صحیح قرار دِیا ہے ،
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مُسلمان عورتیں مَردوں کی طرح پتلون یا پتلون نما لباس پہن رہی ہیں ،  اور اُن کے ساتھ مَردوں کی  طرح  ہی مختصر یعنی کم لمبائی والے اوپری لباس (قمیض ،  سویٹر ، کوٹ ) پہنتی ہیں ، اور  ایسے لباس میں ہر کِسی کے سامنے آتی جاتی ہیں ،
ایسے لباس  جو ستر پوشی نہ کر سکیں اِسلام میں حرام ہیں ، عورت پہنے  یا مرد ،  
خصوصی طور پر عورتوں کے لیے شدید حکم ہیں ، کیونکہ  ہمارے اکیلے خالق و مالک نے عورت کو عِزت و حیاء کے ساتھ چُھپا کر رکھنے والی جِنس  مقرر فرمایا  ہے ، پس جو کوئی عورت کو ، یا جو عورت خود کو اپنے اِس عِزت و قار والے مُقام سے نکال کر نمائشی چیز بنائے  وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہے ،
چلتے چلتے یہ حدیث شریف بھی بغور پڑھتے چلیے ،
::: (4) :::  ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ہے(((((صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلاَتٌ مَائِلاَتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لاَ يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلاَ يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا:::دو قِسم کے لوگ جہنمی ہیں ، میں نے اُنہیں( ابھی تک) نہیں دیکھا ،(1) وہ لوگ جِن کے پاس گائے کی دُم جیسے کوڑے ہوتے ہیں جِن سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں ، اور(2) وہ عورتیں جو اپنے آپ کو ڈھانپ کر بھی ننگی ہوتی ہیں ، مائل ہو جانے والیاں اور مائل کرنے والیاں ،  اُن کے سر بُخت(لمبی گردن اور دو کوہان والی اُونٹنی) کے  اِدھر اُدھر مائل رہنے والے(اُبھرے ہوئے )کوہانوں کے طرح ہوتے ہیں ، نہ یہ جنّت میں داخل ہوں گی نہ  ہی اُس کی خوشبو پائیں گی ، جبکہ جنّت کی خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے آتی ہے )))))صحیح مُسلم/ حدیث 2128/کتاب اللباس و الزینۃ/باب34،
وہ عورتیں  جولباس  تو پہنے ہوتی ہیں ، لیکن وہ  لباس یا تو اِس قدر چُست ہوتا ہے ، یا ایسی بناوٹ والا ہوتا ہے کہ اُس میں سے عورت کے جسم کے ساخت دکھائی دیتی رہتی ہے ، اور یا اگر ڈھیلا ڈھالا ہو تو بھی ایسے کپڑے کا ہوتا ہے جِس میں سے جِسم دِکھائی دیتا رہتا ہے ، یا جو کپڑا ہی جِسم کے ساتھ چپکتا جاتا ہے ،
ایسے تمام لباس پہننے والیاں ، اللہ کے رسول کریم کے اِس مذکورہ بالا فرمان شریف کے مُطابق ، اللہ کی جنّت سے اِس قدر دور رکھی جائیں گی کہ جنّت کی خُوشبُو تک نہ سونگھ سکیں گی ، جبکہ جنّت کی خُوشبُو  کم سے کم چالیس سال  کی پیدل مُسافت کے فاصلے کی دُوری تک پہنچتی ہے ،
کچھ روایات میں سو سال ، کچھ میں پانچ سو سال کا  بھی ذِکر ہے ، لیکن اگر ہم قریبی ترین مُسافت ، یعنی چالیس سال تک  ہی رکیں تو بھی یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا کہ  لباس پہن کر بھی بے لباس رہنے والی عورتیں اللہ کی رحمت  اور بخشش سے کِس قدر دُور رکھی جائیں گی ،
پتلونیں، چست پاجامے ، مختصر قمیضیں ، کھلے گریبان والی قمیضیں ،  لمبی کٹائی والے دامن والی قمیضیں جو کہ اٹھتے بیٹھتے ، چلے پھرتے عورت کی ٹانگوں کی جسامت دِکھاتی ہیں ، اور عورتیں اِنہیں محرم ، نا محرم کی تمیز رکھے بغیر ہر کِسی کے سامنے پہنے پِھرتی ہیں ، گھروں میں کیا ، گھروں سے باہر بھی اُسی طرح آتی جاتی ہیں ،
 اور ایسے لباس کے عِلاوہ  باریک کپڑے کا لباس ، شفاف کپڑے کا لباس، جِسم سے چپکنے والے کپڑے کا لباس ، دُنیا میں تو شاید ، فیش ایبل ، ماڈرن ، آزاد خیال ، ترقی یافتہ ، وغیرہ وغیرہ کے القابات پا کر شیطانی فخر مہیا کردیں ، لیکن آخرت میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے دُوری کا سبب ہیں ،     
عورتوں کو ایسے لباس میں ملبوس ہو کر غیر محرموں کے سامنے آنے جانے کی اجازت دینے والے ، اور اُن کی اِس نمائش پر راضی رہنے والے ، یا اُن کی اِس نمائش پر کوئی پریشانی محسوس نہ کرنے والے مَرد صاحبا ن بھی ذرا اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان پڑھتے چلیں ، کہ اُن کا حال بھی ایسی عورتوں سے کچھ زیادہ مُخلتف نہ ہو گا ،
::: (5) :::  عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما نے بتایا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ہے کہ ((( ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(1)الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَ (2)الْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ، وَ(3)الدَّيُّوثُ، وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ(1) الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَ(2)الْمُدْمِنُ عَلَى الْخَمْرِ، وَ(3)الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى::: قیامت والے دِن اللہ عزّ و جَلّ تین(قِسم کے) لوگوں کی طرف  دیکھے گا بھی نہیں ، (1)اپنے والدین کے نافرمان ، اور(2) مَردوں کی مُشابہت کرنے والی عورت ، اور(3) دیوث ، اور تین (قِسم کے )لوگ جنّت میں داخل نہ ہوں گے ،(1) اپنے والدین کے نافرمان ، اور(2) عادی شراب نوش، اور(3)کچھ دے کر جتانے والا)))سُنن النسائی/ حدیث/2574کتاب الزکاۃ/باب69 ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث674،
دیوث اُس  بے غیرت مرد کو کہا جاتا ہے  جسے اپنے گھر کی عورتوں کے پاس آنے جانے والے مَردوں کے بارے میں کوئی پرواہ نہ ہو،جو اپنے گھر کی عورتوں میں پائی جانے والی برائیوں پر انکار نہ کرتا ہو،
 اورظاہری سی بات ہے کہ جِسے اپنے گھر کی عورتوں کے بارے میں کوئی غیرت اور شرم نہ ہو اُسے کسی اور کی عورتوں کے بارے میں کیا  غیرت یا شرم ہوگی ،
میرے محترم بھائی بہنو ،  اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اُس کی رحمت سے دُور ہو جانے والے  اِس گناہ   کا وبال  صِرف  اُن ہی  مَردوں  اور عورتوں ہی  تک محدود نہیں رہتا جو  ایک دُوسرے کی مُشابہت اختیار کرتے ہیں ،  بلکہ ، اُن سے پہلے اُن کے والدین اور اُنہیں تعلیم و تربیت دینے والوں کو  اپنی گرفت میں  لیتا ہے ،
والدین ، تو اپنے اللہ کا یہ فرمان پڑھیں اور سوچیں کہ وہ اِس پر کِس حد تک عمل کر رہے ہیں ،
((( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ::: اے اِیمان لے آنے والو، اپنی جانوں کو ، اور اپنے گھر والوں کو (اُس ) آگ سے بچاؤ ،جس کا ایندھن اِنسان اور پتھر ہیں، اور اُس پر بہت ہی شدید اور سخت فرشتے (نگہبان)مُقرر ہیں ، اللہ اُنہیں جو بھی حکم دیتا ہے وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کچھ کرتے ہیں جِس کا اُنہیں حکم دِیا جاتا ہے ))) سُورت التحریم (66)/آیت 6،
اور، والدین ،  اساتذہ کرام ، اور دیگر تربیت دینے والے لوگ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان پڑھیں  اور اپنے بارے میں خُود ہی اندازہ کر لیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کِس حد تک نبھا رہے ہیں ، اور اُس کا اللہ کے سامنے کیا جواب دے سکیں گے ،
(((کُلُّکُمْ رَاع ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الإِمَامُ رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی أَھلِہِ وھُوَ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالمَرأَۃُ رَاعِیَۃٌ فی بَیتِ زَوجِہَا ومسؤولۃٌ عن رَعِیَّتِہَا وَالخَادِمُ رَاع ٍ فی مَالِ سَیِّدِہِ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ:::تُم میں سےہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے،اور ہر کِسی سے اپنی اپنی رعایا(یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی)کے بارے میں پوچھا جائے گا(یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے بارے میں اِس نگران و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میں جواب دہ ہے)،اِمام(دِینی اور دُنیاوی راہنما و حُکمران)اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اُسکے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا،مَرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں)کے بارے میں جواب دہ ہے،اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے،اور ملازم اپنے مالک کے مال(کی حفاظت اور تمام حقوق کی ادائیگی) کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے )))
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما، جو کہ اِس حدیث شریف کے راوی ہیں ، اُن کا  کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ((( وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی مَالِ أبِیہِ ومسؤولٌ عَن رَعِیَّتِہِ وَکُلُّکُم رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ::: آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے،اور تم سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے))) صحیح البخاری/حدیث 853/کتاب الجمعۃ /باب11،
امید کرتا ہوں کہ  اللہ عزّ و جلّ کے سامنے اپنی ذمہ داریوں، اور اپنے اعمال کا حساب دینے پر اِیمان رکھنے والوں کے لیے اتنی بات ہی کافی رہے گی، اِن شاء اللہ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو غیرت اور شرم و حیاء والی زندگی بسر کرنے کی جرأت عطاء فرمائے رشتوں ، دوستیوں ، بھائی چاروں اور تعلق داریوں کی غیر اِسلامی شرم کرتے کرتے ایسی بے غیرتی اپنانے سے بچنے والا بنائے جو ہمارے لیے دِین ، دُنیا اور آخرت میں ذِلت اور رُسوائی کا سبب ہو ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
طلب گارء دُعاء ،
 آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 24/05/1438ہجری، بمُطابق ، 21/02/2107عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔