Friday, July 28, 2017

::: میں اپنے مرنے کے بعد اپنے لیےپیچھے کیا چھوڑنے والا ہوں ؟ :::


میں  اپنے مرنے کے بعد اپنے لیےپیچھے کیا چھوڑنے والا ہوں ؟
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اِس مضمون کے عنوان میں مذکور سوال یا  سوالیہ سوچ کا سبب یہ ہے کہ مُسلمانوں کی عُمریں دُوسری قوموں کی نِسبت کم ہیں ، اِس کا ایک حِسّی ثبوت تو ہمیں تاریخی کتابوں میں ملتا ہے ، اور سب سے زیادہ سچا ثبوت  رب العالمین کی کتاب میں ملتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ خبر دی کہ نُوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں نو سو نناوے 999سال تک اِسلام کی دعوت دی ، اندازہ کیجیے خود اُن علیہ السلام کی عُمر کیا ہو گی ؟ اور اُن کی قوم کے لوگوں کی عُمر کیا ہو گی؟
رہا معاملہ اُمتء محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کی عُمروں کا تو اُس کے بارے میں صادق المصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر کروا دی کہ ((((( أَعمَارُ أُمَّتِي مَا بَينَ السِّتِّينَ إلٰى السَّبعِينَ وَأَقَلُّهُم مَن يَجُوزُ ذَلِك ::: میری اُمت کی عُمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں کم ہی لوگ اس عمر سے تجاوز کریں گے))))) صحیح ابن حبان/حدیث 2970 ، المستدرک الحاکم/حدیث 3598 /کتاب التفسیر/باب 36 ، سنن ابن ماجہ /حدیث4236/کتاب الزُھد/باب27 ، سنن الترمذی/حدیث 2331/کتاب الزُھد/باب 23 ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 757 ، وغیرھا ،
اب ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم ساٹھ ستر سال کی عُمر پا سکیں یا چلیے اِس سے کچھ کم یا زیادہ تو بھی آخر ایک دِن مرنا ہی ہے ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :::
وما المرء إلا كالهلال وضوئه                 يوافي تمام الشهر ثم يغيب
اور انسان سوائے چاند اور اُسکی روشنی کے کیا ہے ،
پورا مہینہ رہنے کے بعد بھی آخر غائب ہوتا ہی ہے ، 
تو ایک دِن ہمیں دُنیا چھوڑ کر موت کے اندھیروں میں ، کفن و قبر میں ہمیشہ ہمیشہ کے غائب ہونا ہی ہے ،  جس کے بعد ہم ایسا کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوں گے جو ہمارے لیے کسی فائدے یا نُقصان کا سبب ہو سکے ،
 جی ہاں بلا شک و شبہہ جو کچھ اُس سے پہلے اِس دُنیاوی زندگی میں کر جائیں گے اُسی کا اثر وہاں پائیں گے ،
 جِس میں ہمارے کچھ کام ایسے ہوں گے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہیں گے اور اُن کے مُطابق ہمارے لیے ہماری آخرت میں ثواب یا عذاب جمع ہوتا رہے گا ،
اللہ أرحم الراحمین کی بے پایاں رحمت میں اُس کے خلیل محمد  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اپنی اُمت سے  شفقت کی بنا پر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت پر خاص رحمت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس اُمت کی عُمریں کم ہونے کے باوجود اُمتیوں کو ایسے خاص اسباب بھی عطاء فرمائے جو عُمر کی کمی کے باوجود  ، نیکیوں میں اتنے اضافے کا سبب ہیں جو سابقہ اُمتوں میں لمبی لمبی عُمریں اللہ کی عبادات میں گذارنے والوں کو بھی مُیسر نہ ہوا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کو ایک عمومی سبب تو یہ دیا کہ اُنہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے اپنے ہر کام کو عِبادت بنانے کی تعلیم دی ،  پس عِبادت کو صِرف چند مخصوص و محدود اعمال میں ہی محصور نہیں رکھا گیا ، بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کی نیّت سے کیے جانے والا ہر کام ہی عِبادت قرار دِیا ،
اور دُوسرا خاص سبب اِس اُمت کو یہ عطاء فرمایا کہ ایک مہینے کی عِبادت کو سارے گُناہ معاف ہونے کا سبب بنا دیا ،
یہ مہینہ اُمتءِ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اِنہی خاص رحمتوں میں سے ایک ہے ، جی  رمضان کا مہینہ ، جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہدایت کی واضح نشانیوں سے بھرپور ، ساری دُنیا کے انسانوں کے لیے ہدایت ، اور  حق اور باطل میں فرق کرنے والا اپنا کلام پاک قران الکریم نازل فرمایا ،
اور تیسرا خاص سبب اِس اُمت کو یہ عطاء فرمایا کہ  اَسی رمضان مبارک میں قدر کی رات مقرر فرمائی جس ایک رات میں اللہ کا کلام قران  کریم  ایک ہی دفعہ لوح محفوظ سے دُنیا کے آسمان تک  اُتارا گیا اور پھر وہاں سے وقتاً فوقتاً اللہ کے حُکم کے مُطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نازل فرمایا جاتا رہا ،
اور اِس مُبارک رات جسے نماز ادا کرنے میں گذارنا ایک ہزار مہینے جو کہ تقریبا 83 سال اور تین ماہ اور تین ہفتے بنتے ہیں ، کی عِبادت سے بھی زیادہ خیر والی قرار فرما دیا ((((( إِنَّا أَنزَلنَاهُ فِي لَيلَةِ القَدرِ O وَمَا أَدرَاكَ مَا لَيلَةُ القَدرِ O لَيلَةُ القَدرِ خَيرٌ مِّن أَلفِ شَهرٍ:::   بے شک ہم نے قران کو قدر کی رات میں نازل فرمایا O  اور آپ نہیں جانتے کہ قدر والی رات کیا ہے O قدر والی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ))))) سورت القدر ،
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے اپنی طرف سے مذکورہ بالا خبر عطاء فرمانے کے بعد اپنے اِس مبارک مہینے رمضان کے بارے اور اس میں عطاء کردہ قدر والی رات کے بارے میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زُبان مبارک سے یہ خوشخبری دلوائی کہ (((((مَن صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحتِسَابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ من ذَنبِهِ وَمَن قام لَيلَةَ القَدرِ إِيمَانًا وَاحتِسَابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ من ذَنبِهِ  ::: جِس نے اِیمان اور (اللہ سے ) ثواب کے یقین کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اُس کے اگلے پچھلے سارے گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، اور جِس نے اِیمان اور (اللہ سے ) ثواب کے یقین کے ساتھ قدر کی رات ( نماز ادا کرنے میں ) کھڑے ہو کر گذاری اُس کے اگلے پچھلے سارے گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں )))))  مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری / حدیث / کتاب / باب ، صحیح مُسلم / حدیث 760 / کتاب صلاۃ المُسافرین و قصرھا  / باب 25،
(رمضان المبارک کے فضائل میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں اپنے موضوع تک محدود رہنے کے لیے میں اُن کا ذکر نہیں کر رہا ہوں ، یوں بھی اُن کا ذِکر ایک الگ مضمون """ ماہ رمضان اور ہم """ اور """ قیام رمضان """ میں ہو چکا ہے )
اور رمضان کے مہینے کے روزوں کو پورے سال کے روزوں کے برابر کرنے کے لیے ایک اور خاص رحمت کا اعلان اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے کروایا کہ (((((مَن صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتبَعَهُ سِتًّا من شَوَّالٍ كان كَصِيَامِ الدَّهرِ ::: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اُن کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو گویا اُس نے ہمیشہ ہی روزے رکھے ))))) صحیح مُسلم / حدیث 1164 / کتاب الصیام / باب 39 ، 
اور اِس اُمت کو عطاء کردہ خاص انعامات اور رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اِس اُمتیوں کے نیک کاموں کو ایک سلسلہ جاریہ بنا دِیا ، کہ جب تک وہ کام ہوتا رہے گا اُسے جاری کرنے والے کو مسلسل ثواب ملتا رہے گا ،
جیسا کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اِرشاد فرمایا ((((( إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ::: اور بے شک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے  اور ہم لکھتے ہیں جو(اعمال ) اُنہوں نے آگے بھیجا اور جو (اعمال) وہ پیچھے چھوڑ آئےاور ہم نے ہر ایک چیز کو انتہائی واضح طور پر گن رکھا ہے )))))سُورت یٰس / آیت 12 ،
نیکیوں کے جاری رہنے والا سلسلہ صِرف مُسلمان کی زندگی تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اُس کی موت کے بعد قیامت تک جاری رہنے والا ہے ، کہ اُس کے مرنے کے بعد بھی اُس کے ثواب میں اضافہ کے ایک دو نہیں کئی اسباب بنا دیے ،
  رہا معاملہ بدی والے کاموں کے سلسلے کے جاری رہنے کا تو اُس میں مُسلمان اور کافر سب ایک ہی جیسے ہیں ، کیونکہ کسی کام کے نیکیوں کے ضمن میں شمار ہونے کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان ہونا لازم ہے ، سابقہ اُمتوں کے اہل اِیمان کی نیکیوں کی قُبولیت کا ذِکر بھی اُن کے اِیمان کی موجودگی کے بعد  ہی ہے ،
یہ  مذکورہ بالا تفسیر اور شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے صادق المصدوق ، آخری معصوم  نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک پر جاری کروائی (((((مَن دَعَا إلى هُدًى كان لَهُ مِن الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَن تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذلك مِن أُجُورِهِمْ شيئا وَمَنْ دَعَا إلى ضَلَالَةٍ كان عليه مِن الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَن تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذلك مِن آثَامِهِمْ شيئا ::: جِس نے ہدایت کی طرف بلایا تو اُس کے لیے اُس ہدایت پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا اور اُن عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ، اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اُس کے لیے اُس گمراہی پر عمل کرنے والوں کے گُناہ کے برابر گُناہ ہو گا اور اُن عمل کرنے والوں کے گُناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی ))))) صحیح مُسلم / حدیث 2674 /کتاب العِلم /باب 4 ،
اور اِسی طرح ایک اور دفعہ اِس مُعاملے کی تاکید اِن اِلفاظ میں فرمائی   (((((مَن سَنَّ في الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَن عَمِلَ بها بَعْدَهُ مِن غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِن أُجُورِهِمْ شَيْءٌ ، وَمَنْ سَنَّ في الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كان عليه وِزْرُهَا وَوِزْرُ من عَمِلَ بها من بَعْدِهِ من غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِن أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ::: جِس نے اِسلام ( کے مُطابق اُس ) میں کسی اچھے کام پر عمل میں پہل کی تو اُس کے لیے اُس کا ثواب ہو گا ، اور اُس کے بعد جو بھی اُس پر عمل کرے گا اُس کے ثواب کے برابر بھی ثواب ہو گا ، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی ، اور جِس نے اِسلام ( کے مطابق اُس ) میں کسی برے کام پر عمل کرنے میں پہل کی تو اُس پر اُس کا گناہ ہو گا اور اُس کے بعد جو بھی اُس پر عمل کرے گا اُس گُناہ کے برابر بھی گُناہ ہو گا اور کسی کے گُناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی  ))))) صحیح مُسلم / حدیث 1017/کتاب الزکاۃ /باب 20 ، 
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے  یہ وضاحت کرنا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ  اِن  دو مذکورہ بالا  احادیث مُبارکہ میں کِسی بدعتء حسنہ کی دُرُستگی کی کوئی دلیل نہیں ، کیونکہ کوئی بِدعت اچھی نہیں ، ہر بدعت کِسی تمیز کے بغیر گمراہی ہے ،   الحمد للہ "بِدعت "  کےبارے میں دُورس  میں اِس موضوع پر کافی تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے ،
اپنے رواں موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے کہتا ہوں کہ اِس مُعاملے کی مزید تفیسر اور شرح بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروائی لہذا  وحی کے سبب سے ہی بات کرنے والی ز ُبان مُبارک سے ادا ہوا کہ (((((  إذا مَات الإنسانُ انقَطع َعَنه ُ عَملهُ إلَّا مِن ثَلاثةِ ،  إلا مَن صَدقةٍ جاريةٍ ، أو   عِلمٌ يَنتَفعُ بِهِ ، أو وَلَدٌ صَالحٌ يَدعُو لَهُ ::: جب کوئی انسان مر جاتا ہے تو اْس کا  ہرعمل اُس سے کٹ جاتا ہے سِوائے تین ( اعمال ) کے، ( 1 ) جو صدقہ اْس نے کیا تھا اور وہ جاری ہو ( یعنی مرنے والے کے بعد وہ صدقہ رْک نہ گیا ہو )،  ( 2 ) ایسا عِلم جو کہ ( دینی طور پر ) فائدہ مند ہو ، ( 3 ) ایسی  نیک اولاد جواُس کےلیے دُعاء کرے (یعنی نیک اولاد کی اُس دُعاء کا فائدہ مرنے والے کو پْہنچتا ہے) ۔  )))))صحیح مسلم/ حدیث1631/کتاب الوصیہ /باب 3 ، سُنن النسائی/حدیث 3653 ،سنن ابی داؤد/حدیث 2877/کتاب الوصایا/باب 14 ، سنن الترمذی/ حدیث 1376/کتاب الاحکام /باب36 ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس مُعاملے کو مزید واضح فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((((  إِنَّ مِمَا یُلحِق ُ المُومِن مِن عَملِہِ وَ حَسناتِہِ بَعد مَوتِہِ ، عِلماً عَلَّمَہُ وَ نَشَرَہُ ، وَ وَلداً صالحاً تَرَکَہُ ، وَ مْصحَفاً وَرََّثَہُ  ،  أو مَسجداً بَنَائَہُ  ،  أوبَیتاً لِإِبنِ السَّبِیلِ بَنَا ئَہُ أو نَھراً أجرَأہُ ، أو صَدَقۃً أخرَجَھا مِن مَالِہِ فی صِحَّتِہِ وَ حَیاتِہِ یُلحِقُہ ُ مِن بِعدِ مَوتِہِ ::: بے شک کِسی ِایمان والے کی موت کے بعدجو کام اور نیکیا ں اُس تک پہنچتی رہتی ہیں اُن میں سے ، ( دِین کا ، اور کِسی طور خیر اور بھلائی والا  ) وہ عِلم ہے جو اُس نے ( کِسی کو) سِکھایا اور اُس عِلم کو پھیلایا ، نیک اولاد جو اُس نے چھوڑی ، مُصحف (قُرآن ) جِس کو وراثت میں چھوڑا ، یا جو مسجد بنائی ، یا کوئی نہر جاری کروائی ، یا مُسافروں کے لیے کوئی آرام گاہ تعمیر کروائی ، یا جو صدقہ اپنے مال میں سے اپنی زندگی میں اپنی صحت مندی کی حالت میں نکالا ہو ، یہ (سب ) اُسے مِلتا رہتا ہے )))))  یعنی اِن سب کاموں کا أجر و ثوا ب مرنے کے بعد اُسے مِلتا ہے اور جب تک وہ کام جاری رہیں ملتا رہتا ہے،
سُنن ابنِ ماجہ / حدیث 242 /باب فی فضائل اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم /باب 20، ، صحیح ابنِ حبان /حدیث  2490، شُعب الا ِیمان /حدیث  3447،
ذرا سوچیے تو کتنے ایسے لوگ ہیں جو سالہا سال سے قبروں میں دفن ہو چکے ہیں اور شاید اب تک اُن کی ہڈیاں بھی گل سڑ چکی ہوں ، لیکن وہ اپنی زندگیوں میں شرک اور کفر ، گناہ اور بے حیائی ، حرام خوری اور ظلم و جُور والے کاموں کے ایسے سلسلے شروع کر گئے جو آج تک چل رہے ہیں ،کسی نے کوئی کتاب لکھ کر ایسا کوئی کام چالو کر دیا ، کسی نے کوئی صوتی اثر چھوڑ کر ، کسی نے کوئی صوت و تصویر والا اثر چھوڑ کر ،  کسی کا چالو کردہ سلسلہ چھوٹا سا ہو یا بڑا سا ، اُس کے مُطابق جب تک اُس پر عمل ہوتا رہے گا اُس کو گناہ گاروں کے گناہوں کے برابر حصہ ملتا رہے گا اور کسی گناہ گار کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہو گی ،
اِس کے بر عکس اگر اللہ اور  رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھنے والے کسی مؤمن نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے نیکیوں کے سلسلے شروع کیے ، یا کوئی ایک سلسلہ شروع کیا ،اُس پر جب تک عمل ہوتا رہے گا ہر ایک عمل کرنے والے کی نیکیوں کے برابرُ اس شروع کرنے والے کو بھی نیکیاں ملتی رہیں گی اور کِسی کی نیکیوں میں کوئی کمی نہ ہو گی ،
دیکھیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج تک نظر کیجیے کہ، کوشش تو کیجیے کہ  اُن رضی اللہ عنہم اجمعین کی دی ہوئی معلومات ، اُن معلومات کو خوب جانچ پڑتا ل کر کے ز ُبانی اور تحریری طور پر ہم تک پہنچانے والے اماموں  رحمہم اللہ جمیعاً کے اجر وثواب کا کچھ  اندازہ کر سکیں !!!
صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے مسجد الاقصیٰ کو یہودیوں کی نجاست سے پاک کیا اور جب تک وہ پاک رہی کتنے مُسلمانوں نے وہاں کتنی نمازیں پڑھیں ذرا اُن نمازوں کا حساب کیجیے اور صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کو ملنے والی نیکیوں کا انداز کرنے کی کوشش کیجیے ،  اِس طرح کی سینکڑوں مثالیں لکھی جاسکتی ہیں ،
قارئین کرام ، کیا آپ نے غور فرمایا کہ ، میں نے نیکیوں کے سلسلے کے لیے  یہ نہیں کہا کہ خواہ کوئی چھوٹا سا سلسلہ ہو یا کوئی بڑا سا ، کیونکہ نیکیوں میں کوئی سلسلہ چھوٹا سا ہو کر بھی بہت بڑا ہو جاتا ہے  ، کیونکہ ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا ثواب تو اللہ کا یقینی وعدہ ہے اور اُس کے ساتھ اُس نے یہ بھی فرمایا کہ اُس سے زیادہ جِس کے لیے جتنا  بھی ثواب چاہے بڑھا  کر دے ، اور گناہوں کا بدلہ ایک کے بدلے ایک ہی قرار دیا ، یہ بھی اللہ کی رحمت کا ایک پہلو ہے ،
آیے اب ہم سب اپنے اپنے کاموں کا جائزہ لیتے ہیں ، اور سوچتے ہیں کہ اب تک جو زندگی ہم گذار چکے اُس میں ہم نے اپنے لیے کیا چھوڑا ہے ؟؟؟
اگر ابھی ملک الموت ہمیں آن دبوچے تو ہمارے پیچھے رہ جانے والے کام کیا ہیں ؟؟؟ 
 اوراگر زندہ رہیں تو آئندہ کیا چھوڑ کر جانے میں مصروف ہیں ؟؟؟
سوچیے ، میں نے  اپنے مرنے کے بعد اپنے لیےپیچھے کیا چھوڑنے والا ہوں ؟؟؟ نیکیوں کا کوئی سلسلہ یا گناہوں کا ؟؟؟
میرے لیے دُعاء  کرنے والے  ، یا میرے ستائے ہوئے میرے لیے بددُعاء کرنے والے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں سے بنائے جو اپنے  پیچھے نیکیوں  والے اثرات مُرتب کر جاتے ہیں ،
 و السلام علیکم،
طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 16/02/1431 ہجری، بمُطابق، 31/01/2010عیسوئی ۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::::::: سب ہی مر جائیں گے لیکن میں نہیں مروں گا :::::::




بِسَّمِ اللہِ و الحَمدُ  للہِ وَحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ    بَعدہ ُ

اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں

::::::: سب ہی مر جائیں گے لیکن میں نہیں مروں گا  :::::::

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

آپ اِس عنوان کو دیکھ کر حیران یا پریشان مت ہوں ، یہ عنوان میری اور آپ کی ز ُبان حال سے ادا ہوتا ہے ، جی ہاں ، یہ بات ہمارے عمل سے ظاہر ہوتی ہے سوائے اُس کے جسے اللہ محفوظ رکھے ،

دُنیا میں صِرف ایک ایسی حقیقت ہے  جِس پر کِسی بھی اِختلاف کے بغیر ہر ایک اِنسان یقین رکھتا ہے اور اِس سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں پاتا، اور وہ اکیلی متفق علیہ حقیقت ہے ، موت ،

موت ایسی حقیقت جِس کا سامنا ہر کِسی کو کرنا ہی کرنا ہے ، اور جِس سے  کوئی بھی جان خود کو بچا  نہیں سکتی اور نہ ہی کِسی اور کو اُس سے بچا سکتی ہے ،

موت جو اپنی راہ چلتی ہی جاتی ہے ، جسے اُس کے رب کے عِلاوہ کوئی نہیں روک سکتا ، جِس پر کسی چیخ و پکار کا اثر نہیں ہوتا ، جس پر کِسی آہ وفُغاں کوئی تاثیر نہیں رکھتی ، جسے کِسی کے حُزن و ملال کی پرواہ نہیں ہوتی ، جسے کِسی چھوڑ کر جانے والے کا درد محسوس نہیں ہوتا ، جسے کِسی پیچھے رہ جانے والا کا دُکھ محسوس نہیں ہوتا ،

موت ایسی طاقتور چیز جو عظیم سے عظیم جان والی طاقتور مخلوق کو بھی اُسی آسانی سے قابو کر لیتی ہے جس آسانی سے کسی ننھی سی جان والی انتہائی کمزور  مخلوق کو ،

موت جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، سوائے اُسے چلانے والے  اللہ القوی العظیم کے ، پھر بھی کوئی اُس کے بارے ، اُس کی قوت و قُدرت کی بارے میں سوچتا نہیں جِس کے حکم سے موت چلتی ہے !!!

عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب بھی ہم لوگ موت کو یاد کرتے ہیں ، یا موت کی سوچ آتی ہے تو کِسی اور کی موت کے سبب آتی ہے کہ ہاں فُلاں مر گیا ، فُلاں بھی مر گیا ، فُلاں بھی مر جائے گا ، کِسی نے یہاں نہیں رہنا ، سب ہی کو موت آئے گی وغیرہ وغیرہ ،  لیکن ، یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اور بڑے دُکھی ،  مُدبرانہ  اور مؤمنانہ  انداز میں یہ سب باتیں کہتے ہوئے  کہیں شاید ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے دِلوں یا اذہان میں خود ہماری اپنی موت کا کوئی تصور نہیں اُبھرتا،

اگر کبھی آبھی جائے تو اُس کے ساتھ ہم ماں باپ ، بھائیوں بہنوں ، بیوی بچوں ، دوستوں رشتہ داروں ، دُنیا کے آرام و آسائش اور رنگینیوں کے فراق  کے خوف میں  گم ہوجاتے ہیں ،

اور شاید ہی کوئی ایسا ہوتا ہے جو اُس کے بعد والے وقت کے بارے میں سوچے ، اُس وقت کے بارے میں جس کی کوئی انتہاء نہیں جس کے بعد کوئی موت نہیں ،

شاید ہی کوئی ایسا ہوتا ہے جو یہ سوچے کہ مرنے کے بعد کے لیے میں نے کیا کر رکھا ہے ؟

میں نے کون سے أعمال بھیجے ہیں جن کی موجودگی میں مجھے اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے ؟

آخر ہم کِس دھوکے میں ہیں ؟   کِس انتظار میں ہیں؟   کیا ہمیں اُس وقت تک رُکا رہنا چاہیے جب تک موت ہمیں آن نہ دبوچے ، اور ہماری رُوح اپنے مالک کے حُکم سے قبض نہ کر لی جائے ،

ہم دُوسروں کی موت کے بارے  میں سوچتے ہیں تو ہمیں یہ سب کچھ  کیوں یاد نہیں آتا ؟ ہم اِن سب  معاملات  کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے ؟ ہم اپنی ہی موت کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟

ہم کس انتظار میں ہیں ؟؟؟

کیا ہم اِس اِنتظار میں ہیں کہ ہم اپنی خواہشات پوری کر لیں ، دُنیا کی تمنائیں مکمل کر لیں ، تو پھر اپنی موت کے بارے میں سوچیں گے ؟

کیا ہم اِس اِنتظار میں ہیں کہ بوڑھے ہو جائیں تو پھر ہم اپنی موت کے بارے میں سوچیں گے ؟

کیا ہماری صحت مندی ہمیں ہماری موت کے بارے میں سوچنے سے روکے ہوئے ہے؟

کیا لوگوں کے بارے میں ہماری یہ خام خیالی کہ وہ ہمیں مرنے کے بعد فائدہ دیں گے ، ہمیں ہماری موت کے بارے میں سوچنے سے روکتی ہے ؟

گو کہ موت کے بارے سوچنے یا نہ سوچنے سے موت پر ،اُس کے آنے کے وقت اور مُقام پر  کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ، وہ اُس کے لیے مُقرر شُدہ  وقت پر، مُقرر شدہ مُقام پر  آ کر ہی رہے گی اور جسے مرنا ہے اُسے مرنا ہی ہے  ،

اپنے اِرد گِرد نظر کیجیے ، اور کچھ نہیں تو اپنے کمپیوٹر یا  موبائل فون کی ایڈریس بک یا اپنی فون نمبرز والی ڈائری کو ہی دیکھیے تو آپ کو کسی   ایسی شخصیت کا نام  نظر آہی جائے گا جو موت کا لقمہ بن چکی ہو ، 

جی ہاں سوچیے کہ موت کے بارے میں سوچنے سے سوچنے والے پر فرق ضرور واقع ہوسکتا ہے ، خاص طور پر جب وہ سوچنے والا موت کے بارے میں اُس کے اور اپنے خالق و مالک کے فرامین ، اور اُس خالق و مالک کے رسول کے فرامین کی روشنی میں سوچے گا تو یہ سوچ یقیناً اس پر بہت بڑا فرق ڈال  گی ،

سوچیے کہ  موت  ہمیں کِسی بھی وقت آن دبوچے گی ، اُسے نہ تو ہماری خواہشات کے پورے ہونے کی فِکر ہے اور نہ ہی ہماری تمناؤں کی تکمیل کا انتظار ،

اِسے نہ ہی ہمارے بڑھاپے کے آنے کا انتظار ہے ، اور نہ ہی ہماری صحت مندی اُسے روک سکتی ہے ،

((((( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ :::اور ہر ایک گروہ کے لیےموت کا ایک وقت مقرر ہےپس جب وہ  آجاتا ہے تو وہ اُس میں ایک لمحہ بھی نہ تو دیر  کر سکتے ہیں اور نہ ہی جلدی ))))) سورت الأعراف(7) /آیت 34،

(((((إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ::: بے شک اللہ کے پاس ہی قیامت (کے وقت ) کا عِلم ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ بچہ دانیوں میں کیا ہے اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کون سی جگہ مرے گی بے شک اللہ ہی بہت زیادہ اور مکمل علم اور خبر رکھنے والا ہے ))))) سورت لُقمان (31) /آیت34،

اور نہ ہی کوئی ہماری موت کے بعد ہمیں پیش آنے والے حالات میں  مدد دے سکتا ہے ، سوائے اُس کے جِسے اللہ کِسی سفارش کی اِجازت دے دے ،اور اجازت اُسے ملے گی  جِس کے پاس اللہ کی طرف سے اِس اِجازت کے لیے کوئی وعدہ ہو، کوئی حسب نسب ، کسی سے کوئی نِسبت ، کسی کی درگاہی، کسی کی خانقاہی ، کسی کے نام کا طوق، کسی کا جانور ہونے کا پَٹّہ کچھ کام نہ آئے گا ، نہ ہی یہ سب کچھ اور نہ ہی وہ لوگ جِن سے عقیدت میں یہ سب کچھ اختیار کیا جاتا ہے ،    

((((( مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ :::کون ہے جو اللہ کے ہاں اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے )))))آیت الکرسی ، سورت البقرہ (2)/آیت 256،

(((((لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا :::(تو لوگ)کسی کی سفارش کا اختیار نہ رکھیں گے سوائے اُس کے جس نے رحمٰن (اللہ)سے اِقرار لیا ہو  ))))) سورت مریم (19)/آیت 87،

(((((وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ :::اور بچو اُس دِن (کی سختی اور عذاب )سے جس دِن کوئی جان کسی جان کو کسی چیز سے کوئی فائدہ نہ دے سکی گی اور نہ ہی کسی جان سے کوئی بدل قبول کیا جائے گا ، اور نہ ہی کسی جان کو کوئی سفارش فائدہ دے گی اور نہ ہی اُن کو مدد مل سکے گی )))))سورت البقرہ  (2) /آیت123،

جب ہم اُس موت کی آمد کا اور اُس کی آمد پر اپنے ممکنہ حال کے بارے میں سوچیں کہ ہمیں اس اٹل حقیقت کا سامنا کس حال میں کرنا ہے تو ان شاء اللہ یہ سوچ  ہم پر بہت بڑا فرق ڈالنے والی ہو گی ،

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ (((((أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ :::لذتوں کو کاٹنے والی کا ذِکر زیادہ کیا کرو))))) سنن ابن ماجہ/حدیث 4258 /کتاب الزُھد /باب31، سنن النسائی ، سنن الترمذی و غیرھا ، درجہءصحت ،حَسن صحیح،

جی ہاں ان اور ان جیسی معلومات کی روشنی میں جب ہم اپنی موت کے بارے میں غور کریں گے تو ہماری شخصیات اور ہمارے اعمال پر یہ فرق پڑے گا کہ ہمیں اپنے پاس دُنیاوی چیزوں  کی کمی کا احساس نہ ہوگا، موت کی سوچ ہمیں یہ یاد کرواتی رہے گی کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے بہت زیادہ ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب مجھے یہ سب کچھ چھوڑنا ہے ، یعنی مجھے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ میں جو کچھ میرے پاس ہے اسے استعمال  کر سکوں گا ، پس یہ میرے لیے زیادہ ہے ،

اور اگر دوسرے پہلو سے دیکھیے تو بھی اگر ہم دُنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ہوں تو موت کی سوچ ہمیں یہ یاد کرواتی رہے گی کہ اگر میں نے اس مال و متاع سے اپنی آخرت نہ کمائی تو یہ سب مال و متاع مجھے کچھ فائدہ دینے والا نہیں  میرے لیے بے کار ہے ، 

اگر ہم اِیمان کی صحیح کیفیت کے ساتھ اپنی موت کی سوچ رکھیں گے تو  ہمیں اپنی موت کے وقت اور موت کے بعد کے کبھی ختم نہ ہونے والے وقت  کی خبر حاصل کرنے کی فکر ہو گی ، وہاں اپنی ابدی زندگی گذرانے کے لیے سامان کی تیاری کی فکر ہو گی ،

ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ ہمیں موت کے بعد صرف نیک اعمال ہی فائدے کا سبب ہو سکتے ہیں ، پس ہمیں ان کی طرف جلدی کرنا چاہیے ، 

پھر ہمیں دُنیا کی لذتوں اور خواھشات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے موت کی تیاری میں وقت لگانے اور موت کے بعد کی دائمی زندگی کے لیے وقت صَرف کرنے کی ہمت ہونے لگے گی ،

ہمیں چاہیے اور یقیناً چاہیے کہ ہم اپنی ذات کے ساتھ کچھ تنہائی اختیار کریں اور اپنے اندر جھانکیں اور اپنے اندر والی جان سے پوچھیں کہ ہمارے پاس اپنی موت کا سامنا کرنے کے لیے کیا ہے ؟ ہمارے پاس اپنی موت کے بعد کے لیے کیا ہے ؟ اِن شاء اللہ ہمیں جواب میں ایسے بہت سے حقائق ملیں گے جِن سے ہم غافل ہیں (((((بَلِ ٱلْإِنسَـٰنُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ::: بلکہ اِنسان خود اُس کی ذات پر گواہ ہے )))))  سورت القیامہ (75)/آیت 14،

لیکن انہیں جاننا ہماری دُنیاوی اور اُخروی دونوں ہی زندگیوں کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے ،کہ اس طرح ہم اپنی موت کے استقبال اور دُنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو کر اپنے رب کے سامنے خوشی سے حاضر ہونے کی ہمت او رسامان حاصل کرسکتے ہیں ، کچھ ایسا معاملہ بن سکتا ہے کہ گویا ایک محبوب دوسرے محبوب کے پاس جا رہا ہے ، کچھ ایسا معاملہ بن سکتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا کہ :::

ولدتك أمك يابن آدم باكيًا              والناس حولك يضحكون سرورا

فأجهد لنفسك أن تكون إذا بكوا        في يوم موتك ضاحكاً مسرورا

اے آدم کے بیٹے تمہاری ماں نے تمہیں جنم دیا تو تم رو رہے تھے

اور تُمہارے اِرد گِرد والے لوگ خوش اور مُسکرا رہے تھے

اب تم اپنے لیے کوشش کرو کہ جب یہ لوگ رو رہے ہوں

تُمہارے مرنے پر  تو تُم خوش اور مُسکرا رہے ہو ،

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ موت کی سختیاں ہم پر آسان فرمائے ، اُن میں سے بنائے جن کو  نفس مطمئنہ  کہہ کر اللہ کی جنت میں داخلے کی دعوت دی جائے گی ، اور اُن میں سے نہ بنائے جن کے چہروں اور کمروں پر مار مار کر اُن کی روحیں قبض کی جاتی ہیں ، ہمارے خاتمے اِیمان پر فرمائے ، بُرے خاتمے اور بُرائی پر خاتمے سے ہمیں بچا لے ،  اور ہماری قبروں کو ہمارے لیے جنت کے باغات میں سے باغ بنائے ، جہنم کے گڑھوں میں سے نہ بنائے ، اور جب ہم تیرے سامنے حاضر ہوں تو وہ تُو ہم سے راضی ہو ۔  اس مضمون کو اپنے دُوسرے بھائی بہنوں تک بھی ضرور پہنچایے گا، اور اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے گا ،

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،  طلب گارء دُعاء،  عادِل سُہیل ظفر ۔

    تاریخ کتابت : 27/01/1431ہجری، بمُطابق، 13/01/2010۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی  نُسخہ (PDF) :   http://bit.ly/2v6dr8Y  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب  ویڈیو  (MP4):  https://youtu.be/bEP-D2vB7Sc 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخہ  ، آڈیو فائل (MP3) :

  https://archive.org/details/20200828_20200828_1421 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔