Wednesday, January 31, 2018

::: دیت اللہ کا قانون ہے، سوچ سمجھ کر بات کیجیے :::

::: دیت اللہ کا قانون ہے، سوچ سمجھ  کر بات کیجیے  :::
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن الرَّحِیم ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رسولہِ الکریم مُحمدٍ و عَلیٰ آلہِ و أصحابہِ و أزوجہِ أجمعین
السلام علیکم ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ،
ہمارے مُسلم معاشرے میں اللہ تعالیٰ ، اُس کے دِین ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے دُشمنوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہماری صفوں میں ، ہماری ہی نسلوں میں سے، ہمارے ہی رنگ و روپ میں ، ہماری ہی ز ُبانوں میں بات کرنے والے ، اور ہماری ہی طرح مُسلمانوں جیسے نام لیے ہوئے  ایسے لوگوں  بنا لیے گئے ہیں جو   اپنی اِسلامی شناخت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِسلام کے خِلاف کام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ،
طرح طرح کے پر فریب الفاظ کی آڑ میں  ، اُمت اسلام کے ہاں ہمیشہ سے  متفق علیھا مسائل کا اِنکار ، اُن مسائل کو فی زمانہ ناقابل نفاذ کہنا ، اور سمجھانے کی کوشش کرنا ، اِسلام کی بات کرنے والوں کا مذاق اُڑانا ، اُنہیں کم تر اور حقیر دِکھانے کی کوشش کرنا اِن نام نہاد مُسلمانوں کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں سر فہرست ہے ،
اِن میں کئی تو ایسے ہیں  جو اپنے کاموں کی حقیقت جانتے  ہیں اور اسلام کے دُشمنوں کے باقاعدہ تنخواہ خور کارندے ہیں ، اور کچھ ایسے ہیں جو حقیقت نہیں جانتے بس غیر اِسلامی افکار سے اس قدر متاثر ہیں کہ جو کچھ وہاں سے ملے گا اُس پر کوئی غور و فِکر کیے بغیر اُسے اپنائیں گے اور اُسی کا رونا روتے ہی رہیں گے ،
اور یہ سب ہی یہ سمجھتے ہی کہ وہ بہت ہی انقلابی ، اصلاحی اور انسانیت کی خیر والے کام کر رہے ہیں جبکہ (((زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:::  جِن لوگوں نے اِنکار کیا اُن کے لیے دُنیا کی زندگی پر آرائش بنا دی گئی (یہ وہ لوگ ہیں ) جو اِیمان لانے والوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ، اور قیامت والے دِن تقویٰ والے  لوگ اِن (اِنکار کرنے والوں)  سے بلند (مُقام ) ہوں گے )))سُورت البقرہ (2)/آیت 212،
اپنے اختیار کردہ ، یا مسلط شدہ آقاؤں کی پیروی کرنے  کے لیے انہیں نہ تو اُمت کے أئمہ کرام اور علما ء کرام کی عزت کا احساس رہتا ہے ، نہ ہی اُن کے عِلم کا، خیر عِلم کا اندازہ تو اُسے ہی  ہو سکتا ہے جو عِلم کے بارے میں کچھ جانتا ہو، اور جو نفس کی وحی پر چلنے والا ہو اُسے عِلم کی کیا خبر ،
أئمہ او رعلماء تو رہے ایک طرف ، اِن  جدت پسند ، خود ساختہ مفکر ان و مدبران  کے لیے تو صحابہ رضی اللہ عنہم ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور پھر اللہ تبارک  وتعالیٰ تک کے فرامین پر اعتراض کرنا اور اُن کا اِنکار کرنا  معمولی سی بات ہے ،
ایسے کئی مسائل اور موضوعات ہیں جو اِن لوگوں کی دھندلی عقلوں  کی اندھیر نگریوں میں سے اٹھنے والے متعفن افکار کی بدبو دے کر ہمارے معاشرے میں پھیلائے جا رہے ہیں ، لیکن عقل ، تدبر ، فہم و فراست ، وقت کی ضرورت ، مصلحت، وغیرہ جیسے الفاظ کے عِطر لگا کر ،
انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ دیت کا قانون ہے ، جِس کے خِلاف کافی ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے ، اور  اِس ہرزہ سرائی کا سبب  جہانزیب کے والدین کی طرف سے دیت لے کر اپنے بیٹے کے قاتل سے قصاص لینے سے دستبرداری کا واقعہ بنایا گیا ہے ،
یہاں میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا ، اور نہ ہی قران و حدیث  میں سے  دیت کے حق میں دلائل پیش کروں گا ، کیونکہ میرا حسنء ظن ہے کہ دِین کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے والا مسلمان بھی یہ جانتا اور مانتا ہی ہے کہ دیت کا قانون اللہ پاک کا مقرر کردہ ہے اور بلا شک و شبہ بے عیب اور حق ہے ،
میں اللہ تعالیٰ کے دِین کے معاملات کے خِلاف زہر اگلنے والوں اور اُس زہر کا شِکار ہونے والوں  کے سامنے صِرف کچھ سوالات پیش کرنا چاہتا ہوں ،اور مجھے اُن صاحبان سے اِن سوالات کے جوابات درکار نہیں ،
وہ اپنے جوابات پر خود ہی غور کریں ، اور جو جواب میں پیش کروں گا اُس پر بھی غور کر ہی لیں ،
ثابت شدہ قاتل یا مجرم  کو سزا دینے میں غیر ضروری  تاخیر کرنے کا ، کیا یہ پہلا واقعہ ہے ؟  ؟؟
اچھی طرح سے سمجھ آنے والی  زبردستی سے منوائی گئی دیت کا ، کیا یہ پہلا واقعہ ہے ؟  ؟؟
کیا  اِس سے پہلے مختلف مُسلم معاشروں میں ایسے واقعات نہیں ہوتے رہے ؟  ؟؟
کوئی زور آور قاتل   ، کِسی کمزور  وارث سے قصاص معاف کروا لے ، دیت لینے پر راضی کر لے ، یا دیت لینے پر مجبور کر دے تو کیا دیت کا قانون  غلط ہوا ؟  ؟؟
اگر  اصحابء اختیار قاتل پر حد جاری نہیں کر پاتے ، تو کیا قصاص کا قانون غلط ہے ؟  ؟؟
جی نہیں ، اور  ہر گز نہیں ، اللہ جلّ شانہ ُ  کا ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہر قول حق ہے ، ہر حکم ، ہر قانون حق ہے ، جو کوئی اِن احکام و قوانین کو نا مناسب انداز میں استعمال کرے ، اور جو کوئی صاحب اختیار و قدرت انہیں نافذ نہ کر پائے وہ غلط ہے اور سراسر غلط ہے ،
دیت کا قانون اللہ العزیز الحکیم کا بنایا ہوا قانون ہے ، اِس کے غلط، یا، نا مُناسب ، یا ، فی زمانہ رائج نہ ہو سکنے والا ہونے کا سوچنا بھی کفر ہے ، اللہ عزّ و جلّ پر الزام ہے ،
ایسی باتیں کہنے والوں ، اور اِن باتوں کی حقیقت جانے سمجھنے بغیر ہی انہیں مان کر اُن  کا پرچار کرنے والوں  نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ غلط وہ قوانین نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مقرر فرما دیے ، بلکہ غلط وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قوانین کی بجائے عام اِنسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنا کر ، ایسے لوگوں کو اختیارات سونپتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی لگاؤ نہیں ، اور نہ ہی اللہ کے دِین سے ، اُن کا ھدف صرف دُنیاوی زندگی کی لذتیں پانا  ہے ،  جو ظاہر کرتا ہے کہ یوم آخرت ،حساب ، سزا و جزاء پر ایمان نامی چیز اُن کے ہاں  مفقود ہے پس اُن کے عمل اُن کے لیے اس قدر پر آرائش کر دیے گئے ہیں کہ وہ اُن کی چکا چوند میں  حق کو دیکھ سکنے کی بصیرت کھو چکے ہیں ۔
اللہ پاک ہم سب کو اور ہمارے سب کو حق جاننے ماننے اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 07/04/1439ہجری، بمُطابق، 25/12/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, January 24, 2018

::: اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کی صِفات العُلیا پر اِیمان :::::

:::  اللہ  سُبحانہ ُو تعالیٰ  کی صِفات العُلیا پر اِیمان :::::
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن الرَّحِیم ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رسولہِ الکریم مُحمدٍ و عَلیٰ آلہِ و أصحابہِ و أزوجہِ أجمعین
السلام علیکم ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ فَيَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ:::ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو زمین کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، اور اِرشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دُعا کرے اور میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اُسے عطاء کروں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اُسکی بخشش کر دوں))))) صحیح بخاری /حدیث /1145 کتاب التھجد /باب14 الدُّعَاءِ وَالصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، صحیح مُسلم /حدیث /1808 کتاب  صلاۃ المُسافرین /باب24 التَّرْغِيبِ فِى الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِى آخِرِ اللَّيْلِ وَالإِجَابَةِ فِيهِ،
اِمام حافظ ابن القیم رحمہُ اللہ کا فرمان ہے کہ""" عبّاد بن العوّام رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ،  ہمارے پاس شریک واسط تشریف لائے تو ہم نے اُنہیں کہا ، ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو (((((يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ))))) والی حدیث  کا اِنکار کرتے ہیں،
تو شریک رحمہ ُ اللہ نے فرمایا """ہمیں یہ احادیث بھی اُنہوں نے ہی بتائی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دُوسری احادیث بتائی ہیں ، جو کہ نماز ، روزے ، زکوۃ اور حج (وغیرہ)کے بارے میں ہیں ، اور ہم نے اللہ تعالیٰ (کی ذات اور صِفات العُلیا  )کو اِن ہی احادیث کے ذریعے جانا ہے"""،
اِمام الشافعی رحمۃ ُ اللہ علیہ کا فرمان ہے """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کی اِتباع کرنے کے عِلاوہ کچھ اور جائز نہیں ،کیونکہ اللہ نے اِس کی اِتباع فرض کی ہے ، اور جِس مسئلے کو سُنّت مُبارکہ نے ثابت کر دیا ہو اُس کے بارے  کوئی ایسا جو (قُران  کا) عِلم رکھتا ہو "کیسے" اور"کیوں"نہیں کہہ سکتا"""،
لہذا  ہم اللہ تعالٰی کی ہر اُس صِفت پر اِیمان رکھتے ہیں جو قران پاک کی آیات میں ، اور صحیح ثابت شُدہ احادیث مُبارکہ میں وارد ہوئی ہے ، اور ہم اُن صفات العُلیا  کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں  کرتے بلکہ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اُن کی کیفیت اللہعزّ و جلّ  ہی جانتا ہے ، پس ہم اللہ پاک  کی اُن ثابت شدہ صِفات پر کسی کیفیت کو وارد کیے بغیر ، کسی قِسم کی تشبیہ کے بغیر اِیمان رکھتے ہیں ، ایسا نہیں کہتے اور نہ ہی اُسے مانتے ہیں جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا ہے ، اور ہم اِن صِفات میں   کسی قِسم کی تعطیل کیے بغیر ، کِسی قِسم کی کمی کیے بغیر ، کسی قِسم کی کوئی لفطی یا معنوی تحریف کیے بغیر اُن صِفات پر اِیمان رکھتے ہیں ،
اور نہ ہی اُن صِفات کی اپنی طرف سے کوئی تفیسر کرتے ہیں اور نہ ہی کِسی ایسی تفیسر کو مانتے ہیں جو خود اللہ یا رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ثابت نہ ہو،جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے پنڈلی سے مُراد اُس کی قوت ہے ، اللہ کے ہاتھ سے مُراد اُس کی قُدرت ہے وغیرہ وغیرہ ،
اگر یہ (مذکورہ بالا ) تفیسر (اور اِس جیسی دیگر تفاسیر)دُرُست ہوتی تو اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں ضرور اِس کی خبر فرماتے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجعمین سے اس کا درس ملتا ، لیکن اُن کی طرف سے  کہیں بھی ایسی کوئی تفیسر ثابت نہیں،
پس ہم کہتے ہیں کہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ سمیع یعنی سُننے والا ہے اور بصیر یعنی دیکھنے والا ہے تو ہم یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اُس کی سماعت اور بصارت ہماری یا کسی بھی مخلوق کی سماعت یا بصارت جیسی نہیں ، خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی ہمیں یہ بتایا ہے ((((( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ:::اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے)))))سورت الشُوریٰ(42) /آیت 11،
ہم  یہودیوں کی طرح اللہ عزّ و  جلّ کی صِفات کو تشبیہ دے کر ، یا  اُن کی تعطیل کر کے ، یا  اُن کی مَن گھڑت تفسیر کرکے اللہ کی لعنت کے مُستحق نہیں ہونا چاہتے(((((وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا :::اور یہودیوں نے کہا اللہ کا ہاتھ(گردن کے ساتھ)بندھا ہوا ہے(یعنی معاذ اللہ، اللہ کنجوس ہے)اُنہی کے ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ اُنہوں نے کہا اُس کے سبب اُن پر لعنت کی گئی )))))سورت المائدہ(5)/آیت 64،
پھر اِس کے بعد اللہ تعالیٰ  نےاِسی آیت مُبارکہ میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے  اپنے ہاتھوں کی اور اپنی عطاء کی صِفت بیان فرمائی (((((بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ:::بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے )))))سابقہ حوالہ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد پاک ہے کہ (((((إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ على مَنَابِرَ من نُورٍ عن يَمِينِ الرحمن عز وجل وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ في حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وما وَلُوا :::یقیناً اِنصاف کرنے والے جو کہ اپنے فیصلوں میں ، اپنے گھر والوں میں اور جو کچھ اُن کے ذمے لگایا جائے اُس میں اِنصاف کرتے ہیں(وہ لوگ قیامت والے دِن)رحمٰن کے دائیں(سیدھے)ہاتھ کی طرف روشنی کے منبروں پر ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہی  ہاتھ دائیں  ہیں)))))صحیح مُسلم /حدیث1827/کتاب الاِمارۃ /باب5،
پس ہم  اِیمان رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ  کے ہاتھ ہیں ، اور دو ہاتھ ہیں ، اور دونوں اپنی مخلوق کو عطاء کرنے کے لیے کھلے ہیں ،اور دونوں دائیں ہیں ، ہم یہودیوں کی روش اختیار کرتے ہوئے اللہ کی صِفات کی خود ساختہ تفاسیر نہیں کرتے،بلکہ اُن صفات  پر بالکل اُسی طرح اِیمان رکھتے ہیں جِس طرح اللہ جلّ و عُلا نے  یا اللہ کے رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ، اور جِس طرح اُن پر اِیمان رکھنے کی تعلیم دی ہے ، ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کا بھی  اِنکار نہیں کرتے ، اور نہ ہی اُس کی تاویل کرتے ہیں ، اور اللہ  پاک کے فرامین مُبارکہ اور اللہ کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کو سمجھنے کے لیے مادی پیمانوں، دُنیاوی علوم ، ذاتی سوچوں ، نفس کی سرگوشیوں ، تخیل کی جولانیوں ، فہم و ادارک کےخود ساختہ معایر وغیرہ کو ذریعہ نہیں بناتے ، کیونکہ یہ سب ذرائع سوائے گمراہی کے کِسی بھی  اور طرف لے جانے والے نہیں ، اللہ ہم سب کو اور ہر کلمہ گو کو ہر گمراہی سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور دُرست منھج اپنانے کی جُرأت عطاء فرمائے ،و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 20/09/1431ہجری، بمُطابق، 30/08/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس کے ساتھ ساتھ درج ذیل مضمون کا مُطالعہ بھی ضرور فرمایے :
:::   اللہ تعالیٰ کی اور مخلوق کی  صِفات کے بارے میں  وضاحت  :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔