Sunday, April 1, 2018

::: صِرف اور براہ راست اللہ سے دُعا کیجیے :::


٦ ٦ ٦  قُران کے سایے میں  ٥ ٥ ٥
:::  صِرف اور براہ راست اللہ سے دُعا کیجیے :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے کلام کی بلاغت ، وسعت اور جامعیت کا مکمل طور پر اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جب جب اللہ پاک کے کلام شریف میں تدبر کرتے ہیں تو ہمارے لیے اِیمان میں اِضافے کے اسباب مہیا ہوتے ہی رہتے ہیں ، والحمد للہ ،
آج میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایک فرمان کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کرتا ہوں ، یہ معلومات ساری کی ساری میرے فہم و تدبر کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ قران کریم کو درست طور پر سمجھنے والے عُلماء کی باتوں سے ماخوذ ہیں ،
اللہ جلّ و عزّ  نے اپنے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو مخاطب فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے (((وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ::: اور اگر (اے محمد) میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو  یقیناً میں(اُن کے ) قریب ہوں ،جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں ، لہذا (سب ہی) لوگ میری بات قُبُول کریں اور مجھ پر اِیمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پا جائیں ))) سُورت البقرہ(2)/آیت186 ،
عُلماء کرام نے اس آیت کریمہ کے بارے میں درج ذیل عظیم الفائدہ معلومات مہیا کی ہیں :::
::::::: اللہ تعالی ٰ نے قبولیتء دُعا کو اپنی مشیئت سے متعلق نہیں فرمایا ، یعنی ایسا نہیں فرمایا کہ """ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   اِن أشاءَ::: اگر چاہوں گا تو  میں دُعا کرنے والے کی دُعا قبول کروں گا """،
بلکہ قطعیت کے ساتھ اِرشاد فرمایا کہ (((أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   إِذَا دَعَانِ ::: جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں)))، اور کوئی شرط نہیں لگائی ،
::::::: اللہ تعالیٰ نے شرطء عمل سے ، نتیجہ عمل کا ذِکر فرمایا ، یعنی ، دُعا کرنے سے پہلے دُعا کو قبول کرنے کا ذِکر فرمایا ، ایسا نہیں فرمایا """   إِذَا دَعَانِ  أستجِب لہُ ::: اگر مجھے سے دُعا کرے گا تو میں قبول کر لوں گا """،  یہ اسلوب اللہ تعالیٰ کی طرف  سے بہت ہی جلدی دُعا قُبول کیے جانے کی دلیل ہے ، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اُسے پکارنے والوں کی دُعا بہت جلدی قُبُول کرتا ہے ،   
اللہ سبُحانہ و تعالیٰ نے فرمایا (((أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   إِذَا دَعَانِ ::: جب(کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں))) ،
 یہ نہیں فرمایا  """ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   إِن دَعَانِ ::: اگر(کوئی)مجھے پکارے(دُعا کرے، سوال کرے) تو میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں """ ،
عربی لغت میں """ اِذَا """ اور """اِن """ دونوں حروف """اداۃ شرط """ کہلاتے ہیں ، اور دونوں کے مفہوم میں بہت فرق ہے ، جس کی وجہ سے اس عبارت کے مفہوم میں بھی بڑا واضح فرق آ جاتا ہے جِس عبارت میں یہ استعمال کیے جاتے ہیں ،
"""اِن""" ایسے کاموں کےلیے استعمال کیا جاتا ہے ، جو ناممکن ہو ، جن کے واقع ہونے کاامکان ہو ، یقین نہیں ،یا جو کام شاذ و نادر ہوں ،
اِن مذکورہ بالا  مفاہیم کی چند ایک  مثالیں  اللہ پاک کے درج ذیل فرامین میں میسر ہیں  :::
::::::: نا ممکن کام کے لیے """ اِن """ کا استعمال  :::::::
(((قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ::: فرمایے (اے محمد) اگر رحمان کا بیٹا ہوتا تو میں(اُس کی) عِبادت کرنے والوں میں سب سے پہلا ہوتا)))سُورت الزُخرف (43)/آیت81 ،
::::::: جس کام کے واقع ہونے کا امکان ہو ،اُس کے ذِکر کے لیے"""اِن""" کا  استعمال  :::::::
(((وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا::: اور اگر اِیمان والوں کے دو گروہ(آپس میں) لڑ پڑیں))) سُورت  الحُجرات(49)/آیت9،
(((قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ،،، ::: فرمایے (اے محمد) تم لوگ دیکھو تو(غور کرو ) کہ اگر اللہ قیامت تک تُم لوگوں پر تاریک رات کر دے،،،))) سُورت  القصص(28)/آیت71،
::::::: شاذ و نادر ہونے والے کام  کے ذِکر   کے لیے""" اِن """ کا  استعمال :::::::
(((وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ::: لیکن تُم پہاڑ کی طرف دیکھو ، اگر پہاڑ اپنی جگہ پر کھڑا رہا تو جلد ہی تُم مجھے دیکھ سکو گے))) سُورت  الاعراف(7)/آیت143،
جبکہ"""اِذا """ ایسے کاموں کے استعمال ہوتا ہے جو   یقیناً ہونے والے ہوں ، یا کثرت  سے ہوتے ہوں ، اور جن کا ہونا عام معمول ہو ،
اِس مفہوم کی چند  ایک مثالیں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین میں سے ملاحظہ فرمایے:::
::::::: موت ایک ایسا کام ہے جس کے واقعہ ہونے میں کوئی شک نہیں ، اور کثرت سے واقع ہوتا ہے ، لہذا """اِذَا """ استعمال کیا گیا ،
(((كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ،،،:::تُم لوگوں پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تُم میں سے کِسی کی موت آ جائے ،،،)))سُورت  البقرہ(2)/آیت180،
::::::: سورج کا طلوع ہونا اور غروب ہونا یقینی کام ہیں ، اور کثرت سے ہونے والے کام ہیں ،
(((وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت ،،،::: اور تُم دیکھتے کہ جب سورج نکلتا ہے تو اُن کی غار کے دائیں  پہلو سے گذر جاتا ہے ، اور جب غروب ہوتا ہے،،،))) سُورت الکھف(18)/آیت17،
::::::: اس کی دیگر مثالیں وہ آیات مُبارکہ ہیں جِن میں قیامت میں واقع ہونے والے کاموں کا ذِکر ہے کہ اُن کاموں کے واقع ہونا لا محالہ ہے  ، اور ان کے باکثرت واقع ہونے میں کوئی شک نہیں ، لہذ ا کِسی کام کا ذِکر """اِن """ کے ساتھ نہیں کیا گیا کیونکہ """اِن """میں نا واقع ہونے ، اور شاذ و نادر واقع ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے ،  
""" اِذَا """ ، اور """ اِن """کے یہ مفاہیم اُن آیات مُبارکہ میں مزید وضاحت سے سمجھ آتے ہیں جن آیات مُبارکہ میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں ،
مثال کے طور پر درج ذیل آیات مُبارکہ ملاحظہ فرمایے :::  
::::::: (((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ  إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ،،،:::اے اِیمان لانے والو، جب تم نماز کے لیے اُٹھو تو اپنے چہرے  دھو لو ، اور کہنیوں تک  ہاتھوں کو دھو لو ، اور سروں کا مسح کرو ، اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھو لو ، اور اگر تُم لوگ جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اختیار کرو ، اور اگر تُم لوگ مریض ہو،،،))) سُورت  المائدہ(5)/آیت6،
غور فرمایے ، قارئین کرام،  کہ وضو کیا جانا ،مسلمانوں کے ہاں یقینی طور پر اور کثرت سے واقع ہونے والا کام ہے ، لہذا  اس کے ساتھ """اِذَا """ استعمال فرمایا گیا ہے ،
اور جنابت کی حالت میں ہونا بہت کم واقع ہونے والا کام ہے ، لہذا اس کے ساتھ """اِن"""استعمال فرمایا گیا ہے ،
اسی طرح مرض کی حالت میں ہونا کم وقوع پذیر ہوتا ہے ، لہذا اس کے ساتھ """اِن """ استعمال فرمایا گیا،
::::::: (((فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ::: پھر جب وہ (عورتیں) نکاح میں محفوظ ہو جائیں ، پھر اگر وہ برائی کریں  ))) سُورت  النِساء(4)/آیت25،
مُسلمانوں میں نکاح میں رہنا  با کثرت ہونے والا کام ہے ، اور مسلمان عورتوں کا نکاح میں ہوتے ہوئے معاذ اللہ بدکاری  آنا  بہت ہی نادر واقع ہونے والا کام ہے ۔
::::::: پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان (((  إِذَا دَعَانِ ::: جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے)))، میں یہ مفہوم  پایا جاتا ہے کہ اِیمان والوں کے ہاں دُعا یقینی طور پر ، مستقل اور کثرت سے کیا جانے والا کام ہے ، کوئی نادر کام نہیں ،
جی کمزور اِیمان والے اللہ سے دُعا کرنے سے دور رہتے ہیں، یا اللہ سے دُعا کرتے ہوئے ایسے ذرائع ، وسیلے اور واسطے اپناتے ہیں جو اللہ کے ہاں مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں ،  لہذا ایسی دعائیں اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتیں۔   
::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان(((أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   :::  میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں))) میں یہ بتایا گیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ دُعا قُبول کرتا ہے ، دُعا کرنے والے کی شخصیت کو قبول یا رد نہیں کرتا ، اور اس کی شخصیت  کو عدم قبولیت کا سبب نہیں بناتا ، حتیٰ کہ اگر کِسی وقت کوئی مشرک بھی نیک نیتی سے ، اخلاص کے ساتھ صِرف اللہ  ہی کو پکارے اور صرف اللہ سے ہی مانگے تو اللہ اُس کی دُعا بھی قُبول کر لیتا ہے  (((وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ  وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا  ::: اور جب تُم لوگوں کوسُمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جسے بھی تم اللہ کے علاوہ پکارتے تھے سب گُم و جاتے ہیں (یعنی تُم اُن سب  کو بھول جاتے ہو، اور صِرف اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہو)اور جب اللہ تُم لوگوں کو خشکی کی طرف نجات دلاتا ہے تو تُم لوگ (اللہ کی توحید سے)مُنہ پھیر لیتے ہو، اور انسان نا شکرا ہے)))سُورت الاِسراء(17)/آیت 67،
::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے زیر مطالعہ  اس آیت شریفہ  میں فرمایا (((فَإِنِّي قَرِيبٌ::: تو میں یقیناً (اُن پکارنے والے اپنےبندوں کے)قریب ہوں)))،
یہ نہیں فرمایا """ فَانا قَرِيبٌ::: میں قریب ہوں """،  بلکہ  تاکیدی لفظ """اِنّ """ استعمال فرما کر تاکید کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ یقیناً وہ قریب ہے ،
ان معلومات کے بعد اب میں اس آیت مُبارکہ میں بیان فرمودہ بنیادی عقیدے کی تعلیم کی طرف آتا ہوں ، وہ تعلیم جو اللہ پاک نے اپنے اس فرمان میں دی ہے ، مندرجہ بالا لغوی تشریحات بیان کرنے کا مقصد بھی اُس  بنیادی عقیدے کی تفہیم میں آسانی ہی ہے ، اِن شاء اللہ ،
::::::::::  اللہ عزّ و جلّ  کی طرف سے بہت سی آیات میں لوگوں کی طرف سے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیے گئے سوالات کا ذِکر کرتے ہوئے اُن سوالات کے جوابات عنایت فرمائے گئے ہیں ،
اور ہر ایسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہی حکم فرمایا ہے کہ وہ جواباً فرمائیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 مثلاً  اِسی سورت البقرہ میں ہی 6آیات شریفہ ایسی ہیں ،  جن میں اسی اسلوب کے ساتھ لوگوں کے سوالات کا ذِکر فرمانے کے بعد ، جواب عنایت فرمایا گیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا کہ وہ یہ جواب لوگوں کو اِرشاد فرمائیں :::
(((يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ ::: آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،(جواب میں )فرمایے)))سُورت البقرہ(2)/آیت 189،
(((يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ::: آپ سے سول کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ (جواب میں ) فرمایے )))سُورت البقرہ(2)/آیت215 ،
(((يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ ::: آپ سے حرمت والے مہینے میں قتال کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،(جواب میں ) فرمایے )))سُورت البقرہ(2)/آیت 217،
(((يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ ::: آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،(جواب میں ) فرمایے)))سُورت البقرہ(2)/آیت219 ،
(((وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ قُلْ::: آپ سے یتمیوں (کے ساتھ برتاؤ) کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،(جواب میں ) فرمایے)))سُورت البقرہ(2)/آیت 220،
(((وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ::: آپ سے حیض(ماہواری) کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،(جواب میں ) )))سُورت البقرہ(2)/آیت222،
غور کیجیے ، ان سب ہی آیات شریفہ میں وہی اسلوب ہے جِس کا میں نے ابھی ذِکر کیا کہ لوگوں کے سوالات کا ذِکر فرمانے کے بعد ، جواب عنایت فرمایا گیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا کہ وہ یہ جواب لوگوں کو اِرشاد فرمائیں، اور اسی طرح کی اور آیات مُبارکہ بھی ہیں ،
لیکن ہمارے آج کے درس کی آیت (((وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ   إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ:::اور اگر (اے محمد)میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو  یقیناً میں (اُن کے)قریب ہوں ،جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں  دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں ، لہذا (سب ہی) لوگ میرے بات قُبُول کریں اور مجھ پر اِیمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پا جائیں)))ایک اکیلی آیت ہے جِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسلوب میں تبدیلی فرمائی اور جواب دینے کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حکم نہیں فرمایا ، بلکہ براہ راست ، رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے واسطے کے بغیر خود جواب اِرشاد فرمایا ،
کیوں ؟؟؟
اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ پسند نہیں ، کہ اُس کے بندے براہ راست اور صِرف اُسی سے سوال کرنے کی بجائے  ایسے واسطے اور وسیلے  اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان لے آئیں جن کے بارے میں اللہ نے کوئی برھان نازل نہیں فرمائی ، نہ ہی اپنی کتاب مُبارک میں ، اور نہ ہی اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارک کے ذریعے سے ،
اور اِس لیے کہ """دُعاء """ عِبادت ہے ،
النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ:::دُعا عِبادت ہی ہے )))،
اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ قول تلاوت فرمایا (((وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِى أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ:::اور تُم لوگوں کا رب کہتا ہے کہ مجھ رب سے مانگو ، میں (ہی) تمہارے لیے (تمہاری دُعائیں) قُبول کرتا ہوں ، یقیناً جو لوگ میری (یہ)عبادت( کرنے)سے تکبر کرتے ہیں وہ جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر  جہنم میں داخل ہوں گے ))) ، صحیح ابن حبان /حدیث890/کتاب الرقائق /باب الادعیۃ ، سنن الترمذی /حدیث3699/کتاب الدعوات /باب2، سنن  ابن ماجہ /حدیث3960/کتاب الدُعاء/پہلا باب،   مُسند احمد /حدیث18849 /حدیث النعمان بن بشیر میں سے حدیث رقم 5،
جب اللہ جلّ و عزّ کے کلام مُبارک اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان مُبارک کے ذریعے یہ ثابت ہے کہ """ دُعا ء""" عِبادت ہے تو یہ بھی یقینی ہوا کہ اللہ جلّ جلالہ کے علاوہ کِسی بھی اور سے کوئی دُعا کرنا قطعاً جائز نہیں ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کِسی بھی اور کوئی بھی عبادت کی جانا اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کو شدید نا پسند ہے ، لہذا """دُعا """ صرف اور صرف اور براہ راست اللہ سے ہی کی جانی مطلوب ہے ، کوئی ایسا واسطہ یا وسیلہ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جس کے استعمال کے لیے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت میسر نہ ہو ،
جس دُعا میں یہ مذکورہ بالا خوبیاں موجود نہ ہوں اُس کی قبولیت کی اُمید نہیں رکھی جا سکتی ،
اس کے علاوہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے بھی اللہ تعالیٰ نے چند ایسی باتوں کی خبر کروائی ہے جن کی موجودگی دُعا ء کی قبولیت میں روکاٹ ہوتی ہے ، اِن شاء اللہ اُن کے بارے میں بات کِسی اور وقت ،
اس مضمون کو یہ دہراتے ہوئے ختم کرتا ہوں کہ ، اللہ پاک  کے جس فرمان مُبارک  کا ہم نے یہاں مطالعہ کیا ، اُس میں یہ مسئلہ بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہے ، ان  میں سے  جو صِرف اللہ سے دُعا کرتا ہے اُن کی دُعائیں قبول فرماتا ہے ، اسے کِسی کی دعا سننے ، اور قبول کرنے کے لیے کِسی واسطے اور وسیلے کی حاجت نہیں ، اور اِسی طرح اُسے یہ پسند بھی نہیں کہ اُس کے بندے  اُسے خود سے دُور سمجھیں ، اور اپنی دعائیں اُس تک پہنچانے کے لیے خود ساختہ واسطے اور وسیلے استعمال کریں ،
وسیلے کے بارے میں جاننے کے لیے درج ذیل کِتاب  کا مُطالعہ اِن شاء اللہ بہت  فائدہ مند رہے گا :::
[[[قرآن کریم اور صحیح ثابت شُدہ سُنّت مُبارکہ کے مُطابق وسیلہ کیا ہے؟  :::  http://bit.ly/1LPJebe     ]]]
 والسلام علیکم،
طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت  : 18/11/1433ہجری ، بمُطابق،04/10/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 18/09/1438ہجری، بمُطابق، 20/06/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا  جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔